نفاق: ایمان کے لئے ناسور

( مفتی ) محمد انعام اللہ
اسلام میں اخلاص اور سچائی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایمان کی اصل بنیاد یہی ہے کہ دل، زبان اور عمل میں یکسانیت ہو ۔ مگر بعض لوگ ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو "منافق” کہا جاتا ہے اور ان کے اس دوغلے رویے کو "نفاق” کہا جاتا ہے۔
نفاق کی تعریف:
نفاق کا لغوی معنی ہے "کسی چیز کے اندر چھپ جانا” یا "دھوکہ دینا”۔
اصطلاح میں نفاق کا مطلب یہ ہے کہ انسان ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے، مگر حقیقت میں اپنے اندر کفر اور بے ایمانی کو چھپائے رکھے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَهُوَ خَـٰدِعُهُمْ ۖ
"بے شک منافق اللہ تعالی کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود کو ہی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔” (النساء: 142)
نفاق کی قسمیں:
نفاق کی دو قسمیں ہیں:
نفاق اعتقادی
اس نفاق سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اگر اسی حالت میں اس کی موت ہو جائے تو ہمیشہ کے لیے اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا .
نفاق اعتقادی کی مثالیں :
دل میں اسلام سے بغض رکھنا، مگر زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا۔
قرآن کریم کی کسی آیت یا اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی کسی بات کو ( جو صريح و معتبر سندوں سے ثابت ہو ) جھٹلانا۔
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے محبت اور مسلمانوں سے دشمنی رکھنا۔
دین کا مذاق اڑانا یا اسلامی احکام کو ہلکا سمجھنا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ
"بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔” (النساء: 145)
نفاق عملی
اس نفاق سے انسان اسلام سے تو خارج نہیں ہوتا ، مگر یہ اس کے اعمال کو برباد کر دیتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو یہ بھی آخرت میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
نفاق عملی کی مثالیں:
جھوٹ بولنا۔
وعدہ خلافی کرنا۔
امانت میں خیانت کرنا۔
دھوکہ دینا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ.
منافق کی تین علامتیں ہیں ۔
"جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔” (بخاری: 33، مسلم: 59)
منافقین کی نشانیاں
دھوکہ دینا
"يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ”
(البقرہ: 9)
"وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ خود کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں، مگر انہیں شعور نہیں۔”
زبان اور دل میں تضاد
"يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ”
(آل عمران: 167)
"وہ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔”
وعدہ خلافی
"وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (75) فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ (76)”
(التوبہ: 75-76)
"اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے نوازے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور نیکوکاروں میں سے ہوں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا تو وہ بخل کرنے لگے اور پیٹھ پھیر کر (وعدہ خلافی کرتے ہوئے) پھر گئے۔”
مؤمنوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش
"هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ”
(المنافقون: 4)
"یہی (منافق) تمہارے دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔”
کفر اور ایمان کے درمیان جھولنا:
کبھی وہ مسلمانوں کے ساتھ نظر آتے ہیں اور کبھی کفار کے ساتھ جا ملتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
(النساء 143)
"وہ (منافقین) بیچ میں معلق ہیں، نہ ان (مسلمانوں) کی طرف ہوتے ہیں اور نہ ان (کافروں) کی طرف، اور جسے اللہ گمراہ کر دے، تو پھر تُو اس کے لیے کوئی راستہ نہ پائے گا۔”
اور ایک مقام پر ارشاد ہے :
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (١٤) اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (١٥)
(البقرہ 14-15)
"اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لائے ہیں ، اور جب اپنے شیطانوں (سرداروں) کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف (مسلمانوں سے) استہزاء کر رہے تھے ۔
اللہ تعالیٰ ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دے کر ان کے استہزاء کا جواب دے رہے ہیں ۔
نماز میں سستی اور ریاکاری
"وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا”
(النساء: 142)
"اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، مقصد لوگوں کو دکھانا ہوتا ہے اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔”
لوگوں کے سامنے مجبوراً نماز ادا کرتے ہیں تاکہ کسی کو ان کے کفر کا پتہ نہ چل سکے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.
( البخاري ومسلم )
"چار باتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ سب ہوں، وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان میں سے ایک ہو، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، جب تک کہ وہ اسے ترک نہ کر دے:
جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے،
جب بات کرے تو جھوٹ بولے،
جب عہد کرے تو دھوکہ دے،
اور جب جھگڑا کرے تو حد سے تجاوز کرے ، گالم گلوچ اور بدکلامی کرے ۔”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
آية المنافق ثلاث، إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان وفي رواية وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم
(مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان خصال المنافق )
"منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔”
(ایک روایت میں یہ بھی ہے:)
"چاہے وہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔”
(صحیح مسلم، کتاب الإيمان، باب بیان خصال المنافق)
نفاق کے نقصانات:
آخرت میں سخت ترین عذاب:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّار ۔
منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔
(النساء: 145)
نیکیوں کا ضائع ہو جانا:
منافق کا کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں ہوتا، کیونکہ اس کا دل اخلاص سے خالی ہوتا ہے۔
الله تعالي ارشاد فرماتے ہیں:
وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ
( التوبة 54)
"اور ان کے صدقات (خیرات) قبول نہ ہونے کی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار کیا، اور وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر سستی کے ساتھ، اور وہ خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ۔”
منافق کا عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بے وقعت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ”
(نسائی: 3140، صحیح الجامع: 1856)
"بے شک اللہ تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں فرماتے مگر وہ جو خالص اسی کے لیے ہو اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو۔”
منافقین سے بے اعتمادی:
منافق کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے لوگ اس پر بھروسہ نہیں کرتے۔
الله تعالي ارشاد فرماتے ہیں:
وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ (٥٦) لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ (٥٧)
(التوبة 56-57)
"اور وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم ہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں، بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے ڈرتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی پناہ کی جگہ، کوئی غار یا (کہیں چھپنے کا) راستہ مل جائے تو وہ فوراً وہاں بھاگ جائیں گے۔”
نفاق سے بچنے کے طریقے:
1. نماز کو اخلاص اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا:
منافقین بادل نا خواستہ نماز ادا کرتے ہیں مومن کو چاہیے کہ وہ دل لگا کر نماز ادا کرے۔
سچ بولنے کی عادت ڈالنا:
"عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ۔
(صحیح بخاری: 6094، صحیح مسلم: 2607)
"سچائی اختیار کرو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔
3. امانت داری اور وعدے کی پابندی کرنا:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ(النساء 58)
"بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہین کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔”
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
(الإسراء 34)
"اور وعدہ پورا کرو، بے شک وعدے کے بارے میں بازپرس ہوگی۔”
4. اسلام کے احکام کو دل سے ماننا :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(النساء 65)
"پس (اے نبی!) تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے آپس کے جھگڑوں میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تم کر دو، اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں اور مکمل طور پر تسلیم کر لیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَا إِلَى أَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ”
(صحیح مسلم: 2564)
"اللہ تمہاری شکلوں اور مال کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّىٰ يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ”
(شرح السنہ للبغوی: 103)
"تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائے۔
نفاق ایک انتہائی سنگین گناہ ہے جو انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتا ہے۔
نفاق اعتقادی جہنم کا راستہ ہے، جبکہ نفاق عملی بھی اگر بڑھ جائے تو ایمان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اخلاص اور سچائی کے ساتھ دین پر عمل کرے، نفاق کے تمام اعمال سے بچے اور اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ایمان پر ثابت قدمی کے لئے دعا کرتا رہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نفاق سے محفوظ رکھیں اور خالص ایمان پر قائم رکھیں ۔ آمین!
الحراء فاؤنڈیشن ممبئی
9324081144
Comments are closed.