مایوسی:ایک داخلی مسافت کا سفر

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
انسانی دل اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وہ لطیف ترین حقیقت ہے، جس میں درد، احساس، محبت، اور امید جیسے جذبات کا بسیرا ہوتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے: "وَلَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا”۔ “اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللّٰہ سب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے” (الزمر: 53)۔ یہ آیتِ مبارکہ مایوس دلوں کے لیے اُمید کی روشنی ہے، اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ربِ کریم کی رحمت ہر محرومی، ہر دکھ، اور ہر گناہ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔
مایوسی، جو انسان کو اندھیروں میں دھکیلتی ہے، دراصل شیطان کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب انسان رب کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے، تو وہ اپنی اصل پہچان، یعنی عبدیت کو بھول جاتا ہے۔ اسلام، جو سراسر رحمت، شفقت اور اُمید کا دین ہے، ہمیں سکھاتا ہے کہ کسی ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا، کسی غمزدہ کو سہارا دینا، اور کسی مایوس کو امید دلانا، اللّٰہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ حدیثِ نبوی ہے: "من فرّج عن مسلم كربة من كرب الدنيا، فرّج الله عنه كربة من كرب يوم القيامة”۔ "جو کوئی کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف کو دور کرے، اللّٰہ قیامت کے دن اس کی تکلیف کو دور کرے گا” (مسلم)۔
پس، جس دل میں ایمان ہو، وہ مایوسی کو راہ نہیں دیتا، بلکہ اسے سہارے، اخلاص، اور امید سے بدل دیتا ہے۔ یہی وہ شعور ہے جس کی روشنی میں ہمیں مایوسی، تنہائی، اور محرومی کے شکار افراد کے لیے ایک نرمی، ایک محبت، اور ایک دینی فریضہ کے طور پر کھڑا ہونا چاہیے — تاکہ ہم نہ صرف ایک بکھرے انسان کو جوڑ سکیں، بلکہ اللّٰہ کی رضا بھی حاصل کر سکیں۔
زندگی ایک مسلسل سفر ہے — اُمیدوں، خوابوں، اور تعلقات کا سفر۔ مگر جب یہ سب خواب بکھرنے لگیں، جب تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگیں، اور جب اپنے ہی پرائے لگنے لگیں، تو دل ایک انجانی تھکن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اسی تھکن کا نام مایوسی ہے۔ ایک ایسی کیفیت جو خاموشی سے روح میں اُترتی ہے، دل کی گہرائیوں میں بسنے لگتی ہے اور دھیرے دھیرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہم مایوس کیوں ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہمارے تعلقات میں چھپا ہوتا ہے۔ ہم دوسروں سے امیدیں باندھتے ہیں، بے شمار توقعات رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں سمجھیں گے، سہار دیں گے، ہماری قدر کریں گے۔ مگر جب یہی لوگ ہمارے جذبات کو نظر انداز کریں، ہماری امیدوں کو توڑیں، تو دل زخمی ہو جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم ہر تعلق، ہر دوستی، اور ہر رشتے سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔
یہ بدگمانی ہمیں بیزاری کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے۔ دل ایسا خالی محسوس ہوتا ہے جیسے خزاں کے پتوں سے جھڑ چکی کوئی شاخ۔ ہم نہ کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں، نہ کسی کے قریب جانا۔ ماضی کے زخم اور تلخ یادیں ہماری سوچ پر مسلّط ہو جاتی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ کوئی سمجھے، کوئی سنے، مگر زبان بند رہتی ہے، اور جذبات دل میں سسکتے رہتے ہیں۔ اسی خاموشی سے ایک اور آسیب جنم لیتا ہے — تنہائی۔ اور تنہائی جب حد سے بڑھ جائے تو ڈپریشن کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان ہنستے چہروں سے کترانے لگتا ہے، دوستی کے ہاتھوں کو جھٹک دیتا ہے، اور اپنے ہی خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ غصّہ، چڑچڑاپن، اور بے زاری اس کی فطرت بن جاتی ہے۔
مایوسی درحقیقت ایک ایسا نفسیاتی قید خانہ ہے جو ہمیں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ یہ بار بار ماضی کے زخم دکھا کر ہمیں حال سے بے نیاز کر دیتا ہے اور مستقبل سے ڈرا دیتا ہے۔ ہم چاہتے ہوئے بھی نئے تعلقات استوار نہیں کرپاتے، نئی امیدوں کی شمع نہیں جلا پاتے۔ مگر یاد رکھئے، ہر اندھیری رات کے بعد سحر ہوتی ہے۔ مایوسی کی دھند کو چھاننے کے لیے ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہوگا، خود سے دوستی کرنی ہوگی، اور امید کا ایک چھوٹا سا چراغ جلانا ہوگا — شاید وہی چراغ اندھیروں میں ہمارے لیے راہ کی روشنی بن جائے۔
انسان جب دل کے بوجھ کو زبان تک لانے سے قاصر رہتا ہے، تو اس کے اندر ایک خاموش شور جنم لینے لگتا ہے۔ ایک ایسی چیخ جو سنائی نہیں دیتی، لیکن روح کو اندر ہی اندر گھائل کرتی رہتی ہے۔ جذبات جب دبائے جاتے ہیں، تو وہ دل کے نہاں خانوں میں جم کر ایسی گٹھن پیدا کرتے ہیں جو آہستہ آہستہ ذہنی دباؤ، بے زاری اور ڈپریشن کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مایوسی کی یہ سیاہ رات جب دل و دماغ پر چھا جاتی ہے، تو انسان کی طبیعت میں ایک عجیب سی تلخی جنم لیتی ہے۔ وہ شخص جو کبھی محفل کی جان ہوا کرتا تھا، خاموشی اور تنہائی کا متلاشی بن جاتا ہے۔ بات بات پر غصّہ، معمولی سی بات پر چڑچڑا پن، اور ہر تعلق سے کٹ جانے کا رجحان — یہ سب اسی اندرونی بے سکونی کی علامات بن جاتے ہیں۔
پھر انسان آہستہ آہستہ ماضی کی زنجیروں میں جکڑا جانے لگتا ہے۔ وہ گزرے ہوئے لمحے، جو کبھی کسی زخم کی طرح دل پر نقش ہوئے تھے، اب اس کی سوچ کا مستقل حصّہ بن جاتے ہیں۔ حال کی ہر خوشبو اُسے ماضی کی کسی تلخ یاد سے جوڑ دیتی ہے۔ وہ مستقبل کے دروازے پر قدم رکھنے سے گھبراتا ہے، کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں وہی دکھ، وہی اذیت، دوبارہ نہ دہرائی جائے۔
یہ ایک ایسا نفسیاتی قفس ہے جس میں انسان خود کو قید کرلیتا ہے۔ وہ نہ صرف دوسروں سے بلکہ خود سے بھی کٹ جاتا ہے۔ زندگی کی نئی بہاریں، نئے تجربے اور نئی مسکراہٹیں — سب اُس پر بند ہو جاتی ہیں، جیسے موسمِ بہار کسی ویران صحراء سے منہ موڑ گیا ہو۔ اس قید سے نکلنے کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی کیفیات کا اعتراف کریں، خود سے سچ بولیں، اور کسی قابلِ اعتماد انسان سے اپنے دل کا حال کہنے کی ہمت کریں۔ کیونکہ بعض اوقات صرف سن لیا جانا ہی شفاء کی پہلی سیڑھی بن جاتا ہے۔
زندگی کے کچھ موڑ ایسے ہوتے ہیں جہاں تنہائی صرف ایک کیفیت نہیں رہتی، بلکہ ایک رویّہ بن جاتی ہے — ایک طرزِ زیست، جو انسان کو اپنے خول میں بند کر دیتا ہے۔ جب دکھ، محرومی اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ بے زبان چیخوں میں ڈھلتی ہے، تو انسان خود کو دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہی وہ نازک لمحے ہوتے ہیں جب مایوسی ایک فیصلہ کن طاقت کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور انسان کی راہیں یا تو بہتری کی طرف مڑتی ہیں — یا تاریکی کی گہری کھائی کی طرف۔
بعض دل اس ٹوٹ پھوٹ سے سنبھلنے کی بجائے، بدلے کی آگ میں جلنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے اندر ایک ایسی منفی توانائی کو پالنے لگتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ نفرت کی ایک مکمل آگ میں بدل جاتی ہے۔ یہ آگ صرف جلاتی نہیں، بلکہ اندر سے کھوکھلا بھی کر دیتی ہے۔ انسان ماضی کے ہر اس کردار کو، جس نے اس کے دل کو دکھ دیا ہو، سزا دینے کا خواب دیکھنے لگتا ہے۔ یہ انتقام کی بھٹّی اُس کی سوچ کو اتنا زہر آلود کر دیتی ہے کہ بعض اوقات وہ کسی کا خون بہانے کو بھی عین انصاف سمجھنے لگتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی روحانی فطرت آواز دیتی ہے۔ مذہب — جو محض چند عبادات کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے — انسان کو اس اندھیرے سے نکالنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ معافی، جو بظاہر ایک کمزور رویہ معلوم ہوتا ہے، دراصل سب سے بڑی اخلاقی اور روحانی طاقت ہے۔ معاف کرنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے دل میں درد کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ رحم کا مادہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ صرف وہی دل دوسروں کی کوتاہیوں کو نظر انداز کر سکتا ہے، جو خود نرم ہو، جس میں انتقام کی جگہ اصلاح کی چاہ ہو۔
جو لوگ دنیا کی سختیوں سے تھک کر، مذہب کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں، وہ دراصل خود کو تباہی کے اس راستے سے ہٹا لیتے ہیں۔ وہ جان لیتے ہیں کہ دل کو سکون انتقام سے نہیں، بلکہ درگزر سے ملتا ہے۔ معافی نہ صرف دوسرے کو بخشنے کا عمل ہے، بلکہ یہ خود کو آزاد کرنے کا بھی نام ہے — اس قید سے جو ماضی کی تلخیوں نے انسان پر مسلّط کر رکھی ہوتی ہے۔ یوں، جب انسان معاف کرنا سیکھ لیتا ہے، تو وہ دراصل زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا شروع کرتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ جینا صرف سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ دل کو نفرت سے پاک رکھنا بھی جینے کا اہم ترین اصول ہے۔
کبھی کبھی دل کی سختی کو صرف ایک نرمی، ایک روشنی، یا ایک لمس درکار ہوتا ہے جو اسے موم کی طرح پگھلا دے۔ کچھ خوش نصیب لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی کی تلخیوں کے بعد، مذہب کی روشنی میں پناہ لے کر اپنے اندر ایک نئی نرمی، ایک نیا رحم پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے دلوں میں ماضی کے زخم اب بھی تازہ ہوتے ہیں، اور ان کی روحوں میں کبھی کبھی انتقام کی چنگاریاں سلگتی ہیں، پھر بھی وہ خود کو اس آگ میں جھلسنے سے روک لیتے ہیں۔ وہ معاف کر دیتے ہیں — اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی اصل عظمت نمایاں ہوتی ہے۔
لیکن، صد افسوس! ایسے لوگ آج کے تیز رفتار، خود غرض زمانے میں بہت کم رہ گئے ہیں۔ آج دلوں میں رحم سے زیادہ زخم ہیں، نرمی سے زیادہ تلخی ہے۔ جب کوئی انسان دوسرے کے دل میں نفرت کا بیج بو دیتا ہے، تو وہ بیج وقت کے ساتھ تناور درخت بن جاتا ہے — ایسا درخت جس کی شاخیں صرف درد، غصّہ اور انتقام ہی اُگاتی ہیں۔ معاف کرنا تب ایک خواب سا لگتا ہے، ایک ایسا خواب جو فقط کچھ خاص دلوں میں پنپتا ہے۔
نفرت اور انتقام کے یہ زہریلے جذبات، جو انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتے ہیں، صرف شفقت، محبت اور توجہ سے ہی ٹھنڈے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ایسے لوگ، جو ہر وقت دنیا سے شاکی اور دوسروں سے کٹے ہوئے نظر آتے ہیں، اندر سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں — ٹوٹے، تھکے، اور بعض اوقات خود سے بھی بیگانہ۔ وہ نہ کسی روشنی کے متلاشی ہوتے ہیں، نہ کسی آواز پر کان دھرتے ہیں۔ ان کے لیے دنیا ایک بے رنگ تصویر بن چکی ہوتی ہے — ایسی تصویر جس میں کسی امید، کسی مسکراہٹ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ایسے بیزار، مایوس اور غمزدہ لوگوں کو نظر انداز کر دینا سب سے بڑی ناعاقبت اندیشی ہے۔ وہ دراصل پکار رہے ہوتے ہیں — بغیر کچھ کہے، بنا کسی فریاد کے، وہ صرف احساس مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے درد کو محسوس کریں، انہیں وقت دیں، اُن کی خاموشیوں کو سنیں، اور انہیں ماضی کی گرفت سے نجات دلوائیں۔ کیونکہ بعض زخم مرہم سے نہیں، بلکہ محبت سے بھرے لمس سے بھرتے ہیں۔ بعض دل نصیحت سے نہیں، بلکہ محض توجہ اور خلوص سے جڑتے ہیں۔ اور بعض انسانوں کو بدلا نہیں جاتا — بس تھاما جاتا ہے، سنبھالا جاتا ہے۔
کبھی کبھی کسی کا ٹوٹا ہوا دل، بکھری ہوئی سوچ، اور بجھی ہوئی آنکھیں صرف ایک احساس کی طالب ہوتی ہیں — ایسا احساس جو اسے یہ یقین دلا سکے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم اس کی محرومیوں کو ختم نہ کر سکیں، اس کے گزرے زخموں پر مرہم نہ رکھ سکیں، مگر ہم اسے زندگی کو پھر سے دیکھنے کی ایک نرمی، ایک نئی امید ضرور دے سکتے ہیں۔ بس ایک سچی، بے غرض اور ہمدردی سے بھری کوشش کی ضرورت ہے۔ کسی ٹوٹے ہوئے انسان کو زندگی کی رنگینیوں کی طرف لوٹانا ایک مشکل عمل ضرور ہے، مگر نا ممکن نہیں۔ جس دل کو زمانے کی ٹھوکریں توڑ چکی ہوں، وہ کسی مخلص جذبے کے لمس سے جڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے — اگر خلوص نیت سے کیا جائے۔
اگر آپ اور کچھ نہ کر سکیں، تو کم از کم اُن کی کیفیت کا مذاق نہ اُڑائیں۔ خاموش چہروں کے پیچھے اکثر ایسی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں جو زبان تک نہیں آتیں۔ کسی کی مسکراہٹ کے پیچھے سسکیاں، اور کسی کے سکوت کے پردے میں درد کے سمندر چھپے ہوتے ہیں۔ کبھی بھی کسی کے ماضی کو کریدنے کی کوشش نہ کیجیے، کیونکہ ہر شخص کا ماضی اس کا ذاتی مزار ہوتا ہے — کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جن پر خاموشی ہی پردہ ڈال سکتی ہے۔ اگر کوئی آپ کو اپنا ہمراز نہیں بناتا، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے حس ہے — ہو سکتا ہے وہ کسی گہرے کرب، کسی شکستہ اعتماد یا کسی ناقابلِ بیان اذیت میں الجھا ہو۔ ہمارے لیے بہتر یہی ہے کہ ہم اسے کریدنے کی بجائے، سہارا دیں، ساتھ نبھائیں، اور اسے "اپنے ہونے” کا احساس دلائیں۔
اسے جتائیے کہ وہ اکیلا نہیں، وہ اہم ہے، وہ قابلِ قدر ہے۔ اُس کے غم میں شریک ہوکر، اُس کی خوشیوں میں شامل ہوکر، اُس کے وجود کو مان کر ہم اسے ایک ایسا احساس دے سکتے ہیں جو اس کی سوچ، مزاج، اور رویے کو بدل کر رکھ دے۔ یہی احساسِ وابستگی دراصل اُس احساسِ کمتری اور محرومی کا اصل علاج ہے، جو انسان کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں — جو غریب ہوں، نظر انداز کیے گئے ہوں، تنہا، مایوس یا بیزار ہوں — جنہیں جرائم کی دنیا سب سے پہلے اپنی آغوش میں لیتی ہے۔ وہ جو معاشرے کی نظروں سے گر چکے ہوں، وہ جنہیں اپنے وجود کا یقین تک نہ ہو — وہی سب سے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ اگر ہم ایک بھی ایسا دل جیت لیں، ایک بھی ایسے بیزار چہرے پر مسکراہٹ لا سکیں، تو سمجھ لیجیے ہم نے ایک چراغ جلایا ہے — ایک چراغ جو شاید کسی اور کی زندگی کی رات کو روشن کر دے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کے نہ صرف ظاہری اعمال، بلکہ اس کے دل، جذبات، اور باطنی کیفیات کا بھی خیال رکھتا ہے۔ قرآن ہمیں بارہا بتاتا ہے کہ "اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللّٰہ ہر گناہ کو معاف کرنے والا ہے” (الزمر: 53)۔ مایوسی، نااُمیدی اور تنہائی جیسے احساسات کو اسلام شیطان کی چال سمجھتا ہے، جو انسان کو اللّٰہ کی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن کا معاملہ عجیب ہے، ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اُسے کوئی خوشی ملتی ہے تو شکر کرتا ہے، اور اگر آزمائش آتی ہے تو صبر کرتا ہے — اور دونوں حالتیں اس کے حق میں بہتر ہیں” (صحیح مسلم)۔
اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مایوسی کا مقابلہ صبر، دعا، ذکر اور مثبت سوچ سے کیا جائے۔ نماز، جو کہ مومن کی معراج ہے، دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہے اور انسان کو اللّٰہ سے جوڑ کر اسے ایک نئی توانائی عطا کرتی ہے۔ مایوسی کی تاریک رات میں ایک سجدہ، ایک آنسو، اور ایک دعا — وہ روشنی بن سکتی ہے جو اندھیرے کو چیر کر روح کو پھر سے زندہ کر دے۔ یاد رکھیں، اللّٰہ دلوں کے حال جاننے والا ہے، اور وہ کبھی کسی ٹوٹے ہوئے دل کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا اگر آپ یا آپ کے قریب کوئی مایوسی کے اندھیروں میں ہے، تو اللّٰہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ وہ جو ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے، وہ کبھی مایوس نہیں کرتا۔
Comments are closed.