Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابوڑد
قرآنی دعاؤں اور اذکار میں لفظی تبدیلی
سوال:- قرآن مجید کی بے شمار آیات دعائیں بھی ہیں ، بعض ائمہ مساجد ان آیات کو جب دعا کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو آیات کے الفاظ کو بدل دیتے ہیں ، مثلاً : ’’ ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ کو ’’ اللہم اتنا في الدنیا حسنۃ ‘‘ اسی طرح ’’ لا إلہ إلا أنت سبحانک إني کنت من الظالمین ‘‘ کو ’’ لا إلہ إلا أنت سبحانک إنا کنا من الظالمین ‘‘ پڑھتے ہیں ، یعنی ’’ ربنا ‘‘کی جگہ ’’اللہم ‘‘ اور ’’ إني کنت ‘‘ کی جگہ ’’ إنا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں ، کیا آیات کے الفاظ کو دعاؤں میں استعمال کرتے وقت اس طرح تبدیلی کرنا صحیح ہے ؟ برائے کرم رہنمائی کیجئے ۔(سلیم الدین ہاشمی، کرناٹک)
جواب:- قرآن مجید میں جو دعائیں اور اذکار مذکور ہیں ، بہتر ہے کہ اُن کو اسی طرح پڑھا جائے ؛ کیوںکہ قرآن کے الفاظ میں خود ایک برکت اور نورانیت ہے ؛ لیکن اگر اس میں کچھ تصرف کردیا جائے ، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے ؛ کیوںکہ جب ان قرآنی فقروں کو دعاء اور ذکر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو ان کی حیثیت بدل جاتی ہے اورکلمات قرآنی کی حیثیت سے ان کی تلاوت نہیں کی جاتی ہے ؛ اسی لئے فقہاء نے ایسی دعاؤں اور اذکار کے پڑھنے کی اجازت حائضہ عورتوں کو بھی دی ہے ؛ حالاںکہ حیض کی حالت میں قرآنِ مجید کی تلاوت جائز نہیں ، واللہ اعلم۔
اگر پٹی کا کھولنا دشوار ہو ؟
سوال:- میرے ہاتھ پر زخم آگیا ، خون بند کرنے کے لئے ڈاکٹر نے ایک بنی بنائی پٹی چپکادی اور خون رک گیا ، اب پانی سے بھگو کر نکالنے کی کوشش کررہی ہوں ؛ لیکن پٹی نکل نہیں پارہی ہے ، اگر اسے کھرچنے کی سعی کی جائے تو اندیشہ ہے کہ پٹی کے ساتھ خون نکلنے لگے گا اور زخم ہوجائے گا ، ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیں ، چند دنوں میں خود بہ خود پٹی نکل جائے گی ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ ( سید عطاء اللہ، مہدی پٹنم)
جواب:- فقہاء نے لکھا ہے کہ زخم پر دوا لگائی ہو ، دوا کی وجہ سے چمڑے تک پانی نہیں پہنچ پائے اور دوا کے صاف کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کے اوپر سے پانی کا بہادینا کافی ہے ، یہ بھی اسی طرح کی صورت ہے ؛ اس لئے پٹی کے اوپر سے پانی گذار دیں اوراس کو نکالنے کی طرف متوجہ رہیں ، جب پٹی اپنی جگہ چھوڑ دے اور زخم پیدا کئے بغیر نکلنے کے لائق ہوجائے تو نکال دیں ۔
رکوع سے اٹھتے ہوئے دامن جھٹکنا
سوال:- رکوع میں جاتے ہوئے بعض دفعہ کپڑے جسم سے چپک جاتے ہیں ، خاص کر کمر کے نیچے کپڑے کا چپک جانا اچھا نہیں معلوم ہوتا ، ایسی صورت میں اگر رکوع سے اٹھتے ہوئے دامن جھٹک لیا جائے تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑے گا ؟ (محمد جاوید، نلگنڈہ)
جواب:- نماز عملِ کثیر سے فاسد ہوتی ہے اور عمل کثیر سے ایسا کام مراد ہے کہ دیکھنے والے کو اس کے نماز میں رہنے کا شک بھی باقی نہ رہے ، اگر اس سے کم درجہ کا عمل ہو ، لیکن بے فائدہ اور بے مقصد ہو تو مکروہ ہے ، لیکن اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ، جیسے کپڑے سے یا ڈاڑھی سے معمولی طور پر کھیلنا ، البتہ جو عمل کثیر کے درجہ کا نہ ہو اور نہ بے مقصد ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی ، اور نہ کراہت ہوگی ، چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کپڑے کو اٹھائے ؛ تاکہ رکوع میں جسم سے چمٹ نہ جائے تو ایسے عمل سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا : ولا بأس بأن ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع (ہندیہ:۱؍۵۰۱)رکوع سے اٹھتے ہوئے دامن کو ہلکے طریقے پر جھٹک دینا تاکہ وہ جسم سے چپکے نہیں ، اور بد ہیئتی پیدا نہ ہو ، اسی طرح کا عمل ہے ؛ اس لئے یہ بلا کراہت جائز ہوگا ؛ البتہ ایک ہی ہاتھ کا استعمال کرنا چاہئے ، اس لئے کہ بعض اہل علم کی رائے کے مطابق دو ہاتھ کی مدد سے جو کام کیا جاتا ہے ،وہ عمل کثیر کے دائرہ میں آجاتا ہے ۔
رمضان المبارک میں نظام الاوقات کی طباعت
سوال:-رمضان المبارک میں لوگ نظام الاوقات طبع کراکر تقسیم کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رمضان گزر نے کے بعد ادھر ادھر نالیوں میں یہ نظام الاوقات ڈال دئے جاتے ہیں، کیا یہ گناہ نہیں،؟ اور اس کا گناہ کس پر ہوگا؟ چھاپنے والے پر یا پھینکنے والے پر ؟ ( ابرار حسن، نامپلی)
جواب:- نظام الاوقات طبع کرانے سے روزہ داروں کو سہولت بہم پہنچتی ہے، اور سحر وافطار کا وقت معلوم ہوتا ہے ،بعض لوگ اس میں افطار کی دعاء اور روزہ کی نیت بھی طبع کرتے ہیں ، اس سے بھی آسانی ہوتی ہے ، اس لئے طبع کرنے والوں کو تو بہر حال اس کااجر و ثواب حاصل ہوگا،جو لوگ بے احتیاطی سے اسے گندی جگہوں پر ڈال دیتے ہیں، وہ یقینا غلطی کرتے ہیں، انہیں چاہئے کہ یا تو وہ اسے محفوظ کردیں، یا کسی پاک جگہ پر دفن کردیں ۔

روزہ میں کن باتوں سے پرہیز ضروری ہے ؟
سوال:-روزہ میں کن کن باتوں سے پرہیزکرنا ضروری ہے ؟( نیاز احمد، چرلا پلی)

جواب:- روزہ میں تین طرح کی باتوں سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے :اول : یہ کہ جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، جیسے : کھانا پینا ، بیوی سے ہمبستری وغیرہ ،دوسرے: ان چیزوں سے بچنا چاہئے جن سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں ، لیکن روزہ کی حالت میں ان کا کرنا مکروہ ہے ،جیسے : کھانے کی چیز کا صرف ذائقہ چکھنا، اسے صرف چباکر پھینک دینا ، بیوی کے ساتھ ایسا عمل کرنا کہ بے قابو ہوجانے کا اندیشہ ہو، منہ میں خاص طور سے تھوک جمع کرنا اور پھر اسے نگل جانا، ایسے افعال کا مرتکب ہونا کہ جس سے بہت زیادہ کمزوری ہوجاتی ہے اور اندیشہ ہے کہ تاب نہ لاکر روزہ توڑ دے گا،(طحطاوی علی مراقی الفلاح:۳۷۱)تیسرے: وہ باتیں جو روزہ میں آداب کے درجہ میں ہیں، اگر ان کا لحاظ نہ کیا جائے تو قانونی اعتبار سے تو روزہ ہوجائے گا ،لیکن اندیشہ ہے کہ اللہ تعالی کے یہاں روزہ مقبول نہ ہو، اور اس پر اجر و ثواب حاصل نہ ہو سکے ، جیسے : روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا ، یا غیبت کرنا وغیرہ کہ اس سے جھوٹ اورغیبت کا گناہ تو ہوگا ہی ، اندیشہ ہے کہ روزہ بھی اللہ کے یہاں مقبول نہ ہو۔
رشتۂ نکاح کی تحقیق
سوال:- آج کل لڑکیوں کی شادی میں بعض ادارے یا ملاقاتی افراد پیامات کی رہبری کرتے ہیں ، والدین بغیر کسی تحقیق کے رشتہ کرلیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا کمزور ، بیمار اوربیروزگار ہے ، دھوکہ بھی دیا جاتا ہے ، اس سلسلہ میں شرعی احکام کیا ہیں ؟ (اقبال احمد، مغل پورہ)
جواب:- رشتہ کا انتخاب بڑا اہم مسئلہ ہے ؛ کیوںکہ اس سے لڑکے اور لڑکی کی پوری زندگی متعلق ہوتی ہے ؛ اس لئے اس معاملہ میں سرپرستوں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اوررہنمائی کرنے والوں کو بھی ، عام حالات میں غیر محرم لڑکی کو دیکھنا جائز نہیں ہے ؛ لیکن رشتہ کے انتخاب کے لئے لڑکے کو لڑکی کے اور لڑکی کو لڑکے کے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے ، غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے ، کسی بھی انسان کی برائی کو بیان کرنا جائز نہیں ؛ لیکن اگر کسی شخص سے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا جائے تو سچ سچ بتادینا واجب ہے ، اور اس کے صحیح حالات کو چھپانا جائز نہیں ، اگر چہ کہ غیبت کی نوبت آجائے ؛ اس لئے سر پرستوں کا فریضہ ہے کہ وہ رشتوں کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کرلیں اور کسی رشتہ کے سلسلہ میں رہنمائی کرنے والے اور مشورہ دینے والے پر واجب ہے کہ وہ کوئی بات چھپانے سے گریز کرے ، ورنہ عند اللہ گناہ ہوگا ۔
بل میں تاخیر کا جرمانہ
سوال:- ٹیلیفون اورلائٹ بل وقت پر نہ بھرا جائے ، تو حکومت اس پر تاخیر کا جرمانہ وصول کرتی ہے اورجرمانہ کی ایک رقم متعین ہوتی ہے ، پہلے سے بھی صارفین کو معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر پر انہیں اتنے زائد پیسے ادا کرنے ہوں گے ، تو کیا اس کا شمار سود میں ہوگا ؟ ( سراج الدین شیخ، اکبر باغ)
جواب:- شرعی اصول یہی ہے کہ جب کسی سے کوئی چیز خرید کی جائے تو حسب وعدہ بروقت اس کی قیمت ادا کی جائے ، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ گورنمنٹ ہمیںجو سہولت دیتی ہے اورجسے ہم استعمال کرتے ہیں ، بروقت اس کی اجرت ادا کی جائے ، اس کی اجرت ادا نہ کرنا اجتماعی حق تلفی ہے ، گورنمنٹ تاخیر پر جو پیسے لیتی ہے ، وہ مالی جرمانہ ہے نہ کہ سود ، جیسا کہ ٹریفک یا ریلوے و غیرہ کے اصول کی خلاف ورزی پر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے ، اس کے بغیر لوگوں کو بر وقت ادائیگی پر مجبور کرنا ممکن نہیں ؛ اس لیے اس زائد رقم کی ادائیگی کو سود شمار نہیں کیاجائے گا ۔
تین سال میں رقم دو گنی
سوال:- ایک تجارتی تعمیری کمپنی اپنے یہاں اس طور پر کام کرتی ہے کہ وہ لوگوں سے نقد لے کر تین سال میں دوگنا کرکے دیتی ہے ؛ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ وضاحت فرمائیں ۔ (محمد شعیب، سنتوش نگر )
جواب:- جائز اور ناجائز نفع کے سلسلہ میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر نفع کی مقدار متعین کردی جائے اور نقصان کا خطرہ قبول نہ کیا جائے تو ایسا نفع جائز نہیں ؛ بلکہ یہ سود میں داخل ہے ، اسی کی ایک صورت وہ ہے ، جو آپ نے تحریر کی ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر سرمایہ حاصل کرتا ہے کہ وہ تین سال کے بعد اس کی دوگنی رقم آ پ کو بہ طور نفع کے ادا کرے گا ، —- جائز صورت یہ ہے کہ نفع کی قطعی مقدار کے بجائے اس کا تناسب متعین کیا جائے ، مثلا کہا جائے کہ تمہارے سرمایہ پر جو کچھ نفع آئے گا ، اس کا پچاس فی صد میں تمہیں دوں گا ، اور اتنے نفع کی امید ہے کہ ان شاء اللہ تین سال میں یہ رقم دوگنی ہوجائے گی ، تو اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے ، اب اس کی ذمہ داری ہوگی کہ تین سال بعد نفع کا حساب کرے اور پچاس فی صد نفع کے لحاظ سے جو رقم آئے وہ اسے ادا کرے ، خواہ یہ رقم دو گنی ہو یا اس سے زیادہ یا کم۔
۰ ۰ ۰
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.