استقبال رمضان اورہماری سرگرمیاں

شارق سلطان مدہوبنی
گرمی کی یہ شدت و حدت ،لو کے یہ تھپیڑے، دھوپ کی یہ تمازت،سورج کی یہ تپش انہیں دشوار و کٹھن گھڑیوں میں اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت اور خیر و برکت والا مبارک مہینہ آرہا ہے، اعلان ہوگا ” اے خیر کے متلاشی آگے بڑھ اور اے شر کے متلاشی پیچھے ہٹ ” یا باغی الخیر أقبل و یا باغی الشر ادبر آ رہا ہے تمہارے أعضاء کو معاصی سے بچانے کے لئے، خواہشات کے پیچھے سرگرداں اس میں مست و مگن ہو کر تمہاری چھنی ہوئی روحانی صلاحیت کو واپس لانے کیلئے،تمہارے ظاہر و باطن کی اصلاح و تربیت کے لئے، رب کریم کی رحمتوں ،برکتوں،مغفرتوں کی تابش سے ساری دنیا کو جگمگانے،رنگارنگ پھولوں کا گلدستہ لیکر پاکیزہ خوشبوؤں سے دنیا کو معطر کرنے ،تمہاری طبیعتوں کے بحر منجمد میں شورش بپا کرنے ،رب کی دیار مہر و وفا کا راہی بنانے,
لا یعنی اور غیر ضروری باتوں سے روکنے کیلئے، بےکراں رحمتوں کی بارش سے نہلانے کے لئے ،تمام گناہ اور پاپوں سے پاک صاف کرنے کے لئے، غنی و فقیر ,شاہ وگدا سب کو ایک جگہ لانے کے لئے، مساوات کا بے مثال ماحول بنانے کے لیے ،صبح سے شام تک ایک وقت میں سب کو بھوک پیاس کا احساس دلانے اور افطار وسحر میں برابر خوشیاں بانٹنے کے لیے، بخششوں اور نوازشوں کی جھڑی لے کر آ رہا ہے، رب کریم کے بے پایاں انعام و اکرام اور رحمت بے کراں لے کرتوفیق خداوندی سے مالا مال کرنے، نورانیت وسکینت کا ایک وسیع شامیانہ لے کر، تمہیں تکتی نگاہوں سے صد مرحبا کہنے،تمہاری زندگی کو حسین ،منور اور مطمئن و مسرور بنانے ،تمہارے عظیم مقصد کی یافت کیلیےء مالک الملک کیطرف واپس لانے ،تمہارے برے کرتوتوں ،نافرمانیوں کا معافی نامہ لے کر ،تمہارے نفس کو پاکیزہ اور باطن کو طاہر بنا نے،نور خدا کے تڑکوں سے تمہیں جاویداں بنانے ، تمہارے زنگ آلود جسم کے ہر ایک جوڑ کو صیقل کرنے،تمہیں دنیا کے گدلے تالاب کے گدلے پانی سے نکال کر شیریں پانی سے سیراب کرنے،
اے بندہ مومن اپنی زندگی کے بیتے ہوئے ایک ایک لمحہ کی غلطی، خامی ،کوتاہی پر افسوس و ندامت کے آنسو بہانے اور توبہ و استغفار کے پانی سے دھونے کا یہی سنہرا موقع ہے۔
دیکھ ذرا اب تو ماہ رمضان کی آمد آمد ہے جس کے استقبلال کے لئے جنت کو پورے سال سنوارا جاتا ہے اور اس کی آرائش و زیبائش ہوتی رہتی ہے آپ کے یہاں کوئی تقریب ہوتی ہے یا کسی مہمان کی آمد ہوتی ہے تو کس ذوق و شوق کے ساتھ اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ تو ذرا سوچئے اس جنت کی آرائش و زیبائش میں کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا جس کو سنوارنے والا خود ہی فرماتاہے
ما لا عين رأت ولا أذن سمعت”جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا ہے”
خدا یہ سب کس کے لئے کر رہا ہے صرف ایک مشت خاک کے اعزاز و تکریم کے لیے ، کتنا نادان ہے وہ انسان جو دنیا کے دھوکے اور فریب میں آ جائے جس کی رعنائی وزیبائی، زیب وزینت محض دھوکا اور سراب ہے یہ تمول و آسودگی ، یہ عمدہ لباس اور زرق برق پوشاک ،یہ زیب وزینت، یہ ناز و نعمت اور دلکشی و رعناعی ، یہ حسن و جمال اور یہ زلفوں کی تراش خراش ،یہ ظاہری خوش پوشی اور ٹیپ ٹاپ ، یہ بناوٹ و سجاوٹ اور یہ چاہتوں کی دنیا۔۔۔۔۔کیا یہی سب تجھے مانوس کر رہا ہے ارے ناداں یہ صرف امتحان و آزمائش کے لئے ہے یہاں جو کچھ ہے فانی ہے وہاں جو کچھ ہے اس کو بقا و دوام حاصل ہے
اس آقا کے کرم بے پایاں کی انتہا ہے کہ وہ خود با خبر کر رہا ہے
انا جعلنا ما علی الأرض زينة لها لنبلوهم ايهم أحسن عملاً و إنا لجاعلون ما عليها صعيدا جزرا "اور جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لئے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور جو چیز زمین پر ہے ہم اس کو بنجر میدان کر دیں گے”
تم اس کے دام فریب میں نہ پڑو, ایثار و قربانی کی گھریوں میں دشواریوں ،کٹھنائیوں کو برداشت کر بھول چوک پر توبہ و استغفار کر تم اس کے صلے میں جنت کے سدابہار بالاخانوں میں اعجاز و اکرام کے ساتھ رہو گے فرشتے تمہیں سلام کریں گے مبارکبادی دیں گے۔
تو کیوں نہ ہم رمضان المبارک کا استقبال اس طرح کریں جس طرح خدا ہم سے چاہتا ہے چند گھنٹوں کی بھوک پیاس رضائےالہی کے لیے ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے جب بندہ ہمت کرتا ہے تو اللہ کی رحمت شامل حال ہوا کرتی ہے اور ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
دنیا میں انسان معمولی نفع اور فائدہ کے یقین پر ہر طرح کے سفر کی سختی ،دھوپ کی گرمی، سردی کی شدت برداشت کرتا ہے یہ یقین ہی تو ہے جو کسان کو سخت گرمی کے موسم میں اپنے نرم گداز بستر سے اٹھا دیتا ہے لوگوں کو سورج کی تپش میں کھیت جوتنے اور مشقت اٹھانے پر آمادہ کرتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا ہے کہ وہ اسے عاجز کرے یا زچ یہ یقین ہی تو ہے جو ایک تاجر کو گھربار ، بال بچہ ، آرام و راحت چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے اسی امید و یاس میں میلو سفر طے کرتا ہے، کس چیز نے یہ کرنے پر اکسایا وہ نفع کا یقین اور مستقبل میں کسی فائدے کی توقع ہے جب انسان فانی نفع کے لیے اتنا سب کچھ کر سکتا ہے تو دائمی اور سدا بہار نفع کے لیے کیوں نہیں کیا وہ نہیں چاہتا کہ اس کا مسکن وٹھکانہ جنت ہو۔
یہ ایک مہینہ بھوکا رہنا کچھ نہیں ہے ذرا یاد کرو اس وقت کو جسکے ہوش ربا مناظر تاریخ نے اپنی آبدیدہ آنکھوں سے دیکھا ہے ۔
قرن اول کے ان مردان حر ، غیور نوجوانوں اور علمبردارن اسلام کو کس کس قدر زد و کوب کیا گیا ، جفاکاروں اور ظالموں کے ٹھوکروں ، کچوکوں سے گزرنا پڑا ، خود کو شعلہ بار آتشوں کے ہوالے کردیا ، چھالے ڈال دینے والی ریت کی تپش پہ جانوروں کی طرح گھسیٹے گیےء لیکن اسلام کی عزت و سربلندی پر حرف تک نہیں آنے دیا۔
یاد کرو شعب أبی طالب کی گھٹا ٹوپ تاریخ کے اس وحشت ناک ماحول کو جسمیں خرد و نوش کی ہلکی سی جھلک کے لئے خدا کے نیک بندے ترس ترس کے رہ گیےء سب کی شدت پیاس سے حلق میں خشکی اتر آئ تھی یاد کر اس وقت کو عماربن یاسر کی ماں کو ابو جہل نے اسکے جسم کے گوشت گوشت تو کیا ہڈیوں تک کو کروٹ کروٹ انگاروں میں تپایا گھٹنوں بھر پانی میں غوطہ دیا نسوانیت کا پاس رکھے بغیر جوش انتقام میں سمیہ کے نازک حصہ میں برچھی سے وار کردیتا ہے ۔
ارے یاد کر حضرت بلال رضی کے کرب والم کوتپتی ہوئی ریت ، جلتے ہوئے سنگریزوں اوردہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے، مشرکین کے لڑکوں نے گلے مبارک میں رسیاں ڈال کر کرکھینچا، ابوجہل ان کو منہ کے بل سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے پتھر کی چکی رکھ دیتا اورآفتاب کی تمازت بیقرار کردیتی تھی
ارے یاد کر کہ طاءف کے اوباشوں نے اس قدر مارا کہ پتھروں کی چوٹوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک زخم سے چور چور ہوگیا جن سے خون رس رس کر بہ رہاتھا جوتے مبارک خون سے لہولہان ہوگیےء جب آپ چلتے تو جوتے سے خون چھلک جاتا یہی نہیں بلکہ آپ کو گالی بھی دیتے پھر بھی اتنا سب کچھ ہونے کے بعد آپ تبسم فر ماتے اللہ کیا سماں رہا ہوگا ۔
آؤ یاروں ہماری ایک مہینے کی بھوک پیاس ان کی قربانیوں کے سامنے کچھ نہیں ہے ہمیں تو صرف چھوٹا کام سونپا گیا ہے بس خدا کا حکم بجا لانا ہے میں نے صرف تاریخ کی طرف آپ کی توجہ دیلایء ہے ورنہ ایسی جاں نثاری ، دلبری، ثابت قدمی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے ان علمبردارن اسلام نے وقت پر جام شہادت نوش کیا ٹال مٹول سے ان کا رشتہ دور دور تک نہیں تھا خدا کو راضی کرلیا خدا بھی ان سے راضی ہوا کیا ہم بھی خدا کے حکم کی تعمیل کرکے اسکو راضی نہ کرلیں پوری زندگی اسکی عبادت میں گزاریں اسی سے لو لگائیں اسی سے مانگیں ۔
اللہ رب العزت ماہ مبارک کی مبارک گھڑیوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے کہ دل کا میل دھل جائے زنگ دور ہوجائے تاکہ پورا سال ایسا ہی ماحول بنارہے ہم سب اس ماہ کی قدردانی کریں کہ آتی نہیں فصل گل روز روز۔۔۔۔۔۔۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.