امتحاں ہے ترے ایثار کا خود اری کا

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
نواب بہادر یار جنگ کا نام عہد حاضر کی مسلم شخصیتوں میں بہت روشن نام ہے ۔ اس عبقری شخصیت کے اوصاف وکمالات متعدد ہیں ، لیکن ان کا نمایاں ترین وصف ان کا تبلیغ کا جذبہ ہے یہ جذبہ ان کی روح آٓرزو ہے ، جان تمنا ہے ۔ایک مضمون نگار نواب بہادر یار جنگ کے بارے میں ر قم طراز ہیں :
’’ اسلام کی تبلیغ کو وہ مسلمانوں کا بنیادی فرض سمجھتے تھے ۔انہیں اس بات کا افسوس تھا کہ ہندوستان کو فتح کرنے
اور حکمراں بننے کے بعد مسلمان حکومت اور دولت میں غرق ہوگئے اور اسلام کی تبلیغ کافرض بھول گئے ،
ورنہ ہماری یہ کیفیت نہیں ہوتی ۔چنانچہ قائد ملت نے اپنی ڈیوڑھی میں تبلیغ اسلام کا دفتر قائم کیا اور اس کے
لئے ایک جامع منصوبہ بنایا اور اپنے آپ کو تبلیغ اسلام کے لئے وقف کردیا اور انہوں نے اپنی کوششوں سے
پانچ ہزار اچھوتوں کو اور انجمن تبلیغ اسلام کے ذریعہ پچیس ہزار اچھوتوں کو مسلمان کیا ‘‘
( نور ولایت ۔ بہادر یار جنگ نمبر اپریل ۲۰۰۵)
تبلیغ اسلام کا جذبہ آتشیں جونواب بہادر یار جنگ کے دل میں تھا وہ درحقیقت پیغمبرانہ آتشکدہ غم کی چنگاری تھی ۔ تمام پیغمبروں کے یہاں قوموں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا جذبہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں یہ جذبہ اتنا شدید تھا کہ اللہ تعالی نے ان خطاب کرکے فرمایا ’’ لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مؤمنین ‘‘ (الشعراء۳) یعنی شاید آپ اپنے کو ہلاک کرلیں گے اس لئے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔
تبلیغ کے سلسلہ میں جذبہ کی یہی شدت مطلوب ہے تمام انبیاء کے یہاں جذبہ کی یہی حرارت پائی جاتی تھی افسوس ہے کہ یہ جذبہ ہمارے علماء اور صلحاء کے یہاں سے بھی رخصت ہوگیا ہے ۔اوردنیا میں ہماری تمام محرومیوں ناکامیوں اور زوال وشکست کا یہی سبب ہے ۔ ہندوستان میں بھی ہمارا اقتدار اسی سبب سے ختم ہوا ہے ۔ ہمارے ملک میں اس وقت جو صورت حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے نہ عظمت باقی ہے نہ عزت باقی ہے ۔
اس ملک میں مغربی ثقافت کی آندھی تو بہت زمانہ سے چل رہی تھی اس کے ساتھ اب’’ ہندتو ‘‘کا طوفان بھی داخل ہوگیا ہے اس آندھی اورطوفان دونوں نے مل کر مسلمانوں کی زندگی کوایک ملبہ سے تبدیل کردیا ہے اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کی باعزت زندگی اس ملک میں معرض خطر میں ہے ۔وہ جوکبھی سریر آرائے سلطنت تھے انہیںراستہ چلتے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کا مذہب ان کی تہذیب ان کی ثقافت ، ان کی زبان ان کی جان ان کا مال ،ان کا پرسنل لا ، ان کے تعلیمی ادارے ،کوئی چیز اب محفوظ نہیں۔ بر سر عام مسلمانوں کے خلاف تقریریں ہوتی ہیں بیحداشتعال انگیز۔نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی تقریریں کرتی ہیں،، ان کی زبانیں مسلمانوں کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔ موت وحیات کی کشمکش سے یہ امت دوچار ہے ۔مسلمانوں کے تمام ادارے تمام تنظیمیں اس وقت بوسیدہ خیموں کے مانندہو گئے ہیں جنہیں مخالف بادصرصرمنہدم کرنے کے درپے ہے ۔روایتی انداز کے جو دینی مدرسے اور ادارے قائم ہیں وہ مسلمانوںکے لئے اب ڈھال نہیں بن سکتے ہیں ۔اسلام دشمنی کی باد صرصر خس وخاشاک کی طرح انہیں کسی دن ختم کرسکتی ہے ۔
ہمیں بہت گہرائی کے ساتھ تحلیل وتجزیہ کرنا چاہئے کہ وہ امت جس نے تاریخ میں درخشاںرول ادا کیا اور اس ملک میں باعزت طریقہ سے حکمرانی کی ہے اب اس حالت زارسے کیوں دوچار ہورہی ہے ۔ اصل وجہ وہی ہے جس کا ذکر نواب بہادر یار جنگ نے کیا ہے یعنی مسلم حکمرانوںکی کار تبلیغ سے پہلو تہی ۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مکہ میں جب مسلمان بے کمزور تھے اوربہت چھوٹی اقلیت میںتھے اس کی تصویر قرآن میں اس طرح کھینچی گئی ہے (یاد کرو جب تم کم تھے اور زمین میںبے حد کمزور تھے ڈرتے تھے کہ لوگ ( دشمن)تمہیں اچک نہ لے جائیں)۔ آج وہ حالت دوبارہ واپس آگئی ہے آدمی گھر سے نکلتے ہوئے سفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے( کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائے ) )کہیں وہ ہجومی تشدد کا نشانہ نہ بن جائے ۔مکی دور میں مسلمانوں کو اس خوفناک مرحلہ سے نکلنے میں اور بہتر حالات پیدا کرنے میں اور طاقت اور اقتدار تک پہونچانے میں دو چیزوں نے مدد کی ایک دین اسلام پر غیر متزلزل ایمان دوسرے دعوت اسلام یا اشاعت اسلام کا کام ۔ اشاعت اسلام کا کام اس زمانہ میں مسلمان اس لئے انجام دے سکے کہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان Communication Gap نہیں تھا رابطے موجود تھے اور زبان بھی ایک تھی اور مسلمان مشرکین کے عقیدوں سے بھی واقف تھے ۔ اور اسلام کے پیغمبر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قوم ( مشرکین وکفار ) سے لسان قوم میں خطاب کرتے تھے جیساکہ تمام انبیاء اپنی اپنی قوم سے لسان قوم میں خطاب فرمایا کرتے تھے ۔آج صورت حال بالکل بدلی ہوئی ہے مسلمانون اور غیر مسلموں کے درمیان رابطے موجود نہیں ہیں زبان بھی مشترک نہیں ہے ، علماء برادران وطن کے عقیدوں سے اوران کے مذاہب سے واقف بھی نہیں ہیں ،ہمارے علماء کرام کو لسان قوم آتی نہیں ہے ،انہیں صرف لسان المسلمین آتی ہے اور وہ اسی لسان المسلمین میں صرف مسجدوں میں صرف مسلمانوںکے سامنے خطابت کے اوراردو رسالوں میں انشاپردازی کے جوہر دکھاسکتے ہیں ۔سیکڑوں مدارس سے ہزاروں علماء جو ہر سال نکلتے ہیں وہ صرف لسان المسلمین میں بلکہ لسان العلماء میں تقریر کرنے کے اہل ہوتے ہیں ۔کیا یہ بات حکمت کے خلاف نہیں ہوگی کہ قوم ( براران وطن ) کو لسان قوم کے بجائے لسان المسلمین( فصیح اردو ) میں ( اور لسان العلماء میں یعنی عربی فارسی آمیز اردو ) میں دعوت دی جائے دعوت کا کام نہ لسان قوم میں ہوتا ہے نہ لسان المسلمین میں ۔قرآن میں ہے ( اپنے رب کے راستہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور دانائی سے اور اچھی نصیحت سے بلاؤ اور ان سے مناظرہ کرو تو اس طریقہ سے جو بہترین ہو )کیا قوم کے ساتھ لسان القوم کے بجائے لسان المسلمین کے ذریعہ مناظرہ یاڈائلاگ یا ڈسکورس بہترین طریقہ کہلائے گأ ؟صورت حتال یہ ہے کہامت دعوت میں دعوت کا کام مفقود ہو چکا ہیٍ ۔ صرف مسلمانوں کے درمیان تقریر در اصل اصلاح و تذکیہ کا کام ہے نہ کہ دعوت وتبلیغ کا ۔دعوت وہی ہے جو قوم کے درمیان ہو اور لسان قوم میں ہو ۔
بنگال میں لسان قوم بنگلہ زبان ہے اڑیسہ میں اڑیا زبان ہے پنجاب میں پنجابی زبان ہے بہار یوپی مدھ پردیش میں ہندی ہے، تلنگانہ اور آندھرا میں تلگو زبان ہے ٹامل نادو میں ٹأمل ہے اور مرہٹ واڑہ میں مرہٹی ، کرالا میںملیالم اور کرناٹک میںکنڑ ۔لیکن ان تمام ریاستوںمیں برادران وطن کا جوکریم طبقہ ہے جو تعلیم یافتہ ہے اس کی زبان انگریزی ہے ہر زبان میں اشاعت اسلام ضروری ہے لیکن انگریزی کے ذریعہ ان تمام زبانوں کی ریاستوں میں اشاعت اسلام کا کام تحریر وتقریر ڈسکشن ،ڈسکورس، لکچرز، ڈائلاگ کے ذریعہ انجام پاسکتا ہے اس لئے انگلش میڈیم دار العلوم کے پڑھے ہوئے علماء دین پورے ملک میں خدمت دین اور اشاعت اسلام اور غلط فہمیوں کے ازالہ کا کام بہتر انجام دے سکتے ہیں لیکن یہ انگلش میڈیم دار العلوم کہیں نہیں پایا جاتا ہے ۔یہ انگلش میڈیم دار العلوم اگر قالئم ہوجائے تو یہ مسلمانوں کے’’ امپاورمنٹ ‘‘ کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا ۔اور ایسے دار العلوم کے فارغین کودنیاکے ہر ملک میں عزت کی جگہ ملے گی اور ہر جگہ وہ اسلامک کی خدمت انجام دے سکیں گے۔ ایسے علماء کا وجود مسلمانوںکے خلاف جارحانہ رویہ کا مسکت جواب ہوگا یہ علماء کرام الزامات کے جواب میں گونگے نہیں ہوں گے ۔ مکی زندگی میں جس طرح سب سے بڑا کام، سب سے مقدم کام حق کاپیغام اللہ کے بندوںتک پہونچانا تھا اسی طرح اب سب سے مقدم کام یہ ہے کہ اسلام کا پیغام برادران وطن تک حکمت کے ساتھ پہونچایا جائے اور ان سے تعلقات استوار کئے جائیں ہندوستان میں ایسے علماء موجود نہیں ہیں جو انگریزی زبان پر پوری قدرت رکھتے ہوں اور قوم سے تعلقات رکھتے ہوں اور قوم کو خطاب کر سکتے ہوں انگلش میڈیم کا ایک بھی مدرسہ پورے ملک میں موجود نہیں ہے جہان قرآن وحدیث اور اسلامی علوم کی تعلیم انگریزی زبان میں ہو ۔اس عظیم الشان منصوبہ کی تکمیل کے لئے اور مسلمانوں کے مسیتقبل کو روشن بنانے کے لئے درسگاہ کی ایک اچھی عمارت ،مسجد اور ہوسٹل کی ضرورت ہے اور اساتذہ اور عملہ کی تنخواہ کے لئے تقریبا تین لاکھ روپے ماہانہ کا انتظام ۔شہر حیدراباد میں علماء اور تعلیم کے میدان میں متعدد کام کرنے والوں کی کئی مشاورتی نشست بھی ہوچکی ہے نصاب تعلیم بھی تیار ہوگیا ہے اور بعض حضر ات نے لکھنو جاکر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی سے اس تعلیمی ادارہ کی سرپرستی کی منظوری بھی حاصل کر لی تھی۔معاملہ جب دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا تھا اس وقت ایک ادارہ کے ذمہ دار نے اپنے ادارہ کی ایک عمارت کی پیشکش واپس لے لی۔اس لئے آگے پیش رفت نہیں ہوسکی ۔انگلش میڈیم دار العلوم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اہل خیر حضرات سے اپیل کے سوا اب اور کوئی چارہ کار نہیں ۔ اہل خیر حضرات اپنا سرمایہ اس کار خیر میں لگا سکتے ہیں پورے ملک میں کہیں بھی جائداد وقف کرسکتے ہیں اس انگلش میڈیم دار العلوم کا مینجمنٹ ایک ٹرسٹ یا سوسائٹی کے ذریعہ ہوگا جس میں اور لوگوں کے علاوہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا رحیم الدین انصاری ( دار العوم حیدراباد) جناب رفیق احمد ( رکن جماعت اسلامی ) اور ڈاکٹر فخر الدین ( میسکو) اور دیگر حضرات شامل ہوں گے ۔ ان حضرات سے اور راقم سطور سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.