چاہ بہار:ایران بھارت کاتجارتی معاشقہ

سمیع اللہ ملک
چاہ بہار میں بندرگاہ کے منصوبے پر بھارت نے ایران کے ساتھ مل کرگزشتہ برس کام کا آغاز کر چکا ہے، نئی دہلی کاخیال ہے کہ اس نے درحقیقت وسطی ایشیا میں ایک اقتصادی اور تزویراتی سنگ میل عبور کیا ہیاور چاہ بہار میں پہنچ کر بھارت اقتصادی لحاظ سے اہم آبنائے ہرمز تک پہنچ جائے گا کیونکہ یہ دنیا بھرمیں تیل کی ترسیل کی ایک بڑی گزر گاہ ہے،اس طرح وہ گوادربندرگاہ کی عالمی اہمیت کونقصان پہنچاکرسی پیک میں کوئی رخنہ ڈال سکتاہے حالانکہ چین اس علاقے میں پہلے سے موجود ہے اور آنے والے برسوں میں سی پیک معاہدے کے تحت چین پاکستان کی بندرگاہ گوادر میں تجارتی شراکت داربن جائے گا۔گوادر چین پاک اقتصادی راہداری کا مرکز ہے جہاں 40سال تک چین کی موجودگی یقینی ہے۔ بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ چاہ بہار میں موجود صرف72 کلو میٹر کے فاصلے پرگوادر میں چین کی ہر سرگرمی پر گہری نظر رکھ سکتا ہے لیکن امریکاکیلئے یہ کافی ہے کہ وہ بھارت کے ذریعے ایران کی سرگرمیوں پرمکمل نظررکھ سکتاہے۔
بھارت اپنے مربی امریکااوراسرائیل کے تعاون سے چاہ بہار کی بندرگاہ پر سرمایہ کاری اورترقیاتی کام سے ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چاہ بہار دنیا کی تیسری بڑی تیل مہیا کرنے والی بندرگاہ بننے کے ساتھ ساتھ افغانستان کااہم تجارتی اقتصادی راستہ بھی ہے۔ چاہ بہار کے ذریعے بھارت افغانستان میں تعمیری منصوبوں میں اہم کردار اداکرسکتا ہے، جو چاہ بہار کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ پاکستان بھارت کو افغانستان تک پہنچنے کیلئے کبھی بھی اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گاجبکہ پاکستان اورچین کئی مرتبہ بھارت اور ایران کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں اوربھارت اس معاملے میں دنیاکودھوکہ دینے کی کھلی کوشش کررہا ہے۔
تاہم بھارت کاکہناہے کہ وہ چا ہ بہار کی بندرگاہ کووسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کیلئے استعمال کرنے کاخواہشمندہے۔اس وقت بھارت کی ان ریاستوں کے ساتھ کل تجارت محض ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہے جبکہ بھارت چاہ بہارکے بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ساتھ رابطہ ہونے کے بعد اس بندرگاہ کویوریشیا کی طرف سے ایک گیٹ وے کا کام لیناچاہتاہے اور ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی شمالی جنوبی ترسیلی راہداری کے ذریعے تجارت کا حجم 170/ارب ڈالر تک لیجاناچاہتاہے۔
بھارت چاہ بہار پر شاہد بہشتی ٹرمینل کی تعمیر کر رہا ہے،جو کہ پانچ مرحلوں میں مکمل ہو گی۔اس ٹرمینل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد بندرگاہ کا سالانہ حجم 82 میڑک ٹن تک پہنچ جائے گا۔ چاہ بہار کی بندرگا ہ کا انتظامی کنٹرول فی الحال تو18 ماہ تک بھارت کی سرکاری کمپنی انڈین پورٹ گلوبل لمیٹڈ کے پاس ہوگا لیکن دونوں ممالک کی رضامندی سے یہ مدت 10 سال کی لیزمیں تبدیل ہوسکتی ہے۔ بھارت چاہ بہار میں برتھوں کی تعمیرکیلئے2185 ملین کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اپنی سالانہ آمدنی کا 9522ڈالر چاہ بہار کے فیز ون میں آلات کی مد میں بھی خرچ کررہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت، ایران افغانستان سرحد کے قریب چاہ بہار سے زاہدان تک61ارب ڈالر سے ریلوے لائن بچھا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی سرکاری اور غیر سرکاری کمپنیاںچاہ بہار فری ٹریڈ زون میں 20بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جبکہ ایک اطلاع کے مطابق غیرسرکاری کمپنیوں کاتعلق اسرائیل سے ہے۔
اس علاقے میں گہرے پانی کی گوادربندرگاہ جغرافیائی لحاظ سے ایک خاص اقتصادی اور تزویراتی اہمیت رکھتی ہے جس کے مقابلے میں چاہ بہارکو ابھارنے کی کوشش جاری ہے کیونکہ ایران سمجھتاہے کہ خلیج عمان اور ایران کی مکران ساحلی پٹی پر واقع چاہ بہار بندرگاہ اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بحرہند تک ایران کوبراہ راست راستہ فراہم کرتا ہے، اگر ایران کے دشمن آبنائے ہرمز کو ایران کیلئے بند بھی کرتے ہیں توچاہ بہار آبنائے ہرمز سے تقریبا 300 کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے ایران کیلئے مشرقی سمندری راستے کو کھلا رکھنے کا باعث بنے گا،اور اس طرح ایران بین الاقوامی دبا کا مقابلہ کر سکے گاجبکہ گوادرمیں شمولیت کی وجہ سے ایران اس سے بدرجہابہترسہولتوں سے مستفیذ ہوسکتاہے۔
یقیناچاہ بہار بندرگاہ ایران کی گہرے سمندر میں پہلی بندرگاہ ہیاورگہرے پانی کی بندرگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک ایرانی کمپنیوں پر اس حوالے سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ بندر عباس بندر گاہ پرایک لاکھ ٹن وزن اٹھانے والے جہازوں کی گنجائش ہے، یہاں پانی کی سطح بھی کم ہے۔ ایک لاکھ ٹن سے زیادہ کیلئے ایران دبئی کی بندرگاہ پر انحصار کرتا ہے۔ وہاں وہ جہاز اپنا سامان چھوٹے جہازوں پر منتقل کرتے ہیں تو اس سامان کی ترسیل بندر عباس کی بندرگاہ پر ہوتی ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کھلنے کے باوجود ایران کا دبئی پر انحصار ختم نہیں ہو سکے گاجبکہ وہ گوادر کی بندرگاہ کے استعمال سے لاکھوں ڈالر فیس کی مد میں بھی بچا سکے گااورآئندہ معاشی ترقی کیلئے درآمدوبرآمدکی وسیع ترترسیل کیلئے بڑے تجارتی جہازوں کی ضرورت ہوگی جوچاہ بہارکی بندرگاہ سے پوری نہ ہوسکے گی ۔
چاہ بہارکی بندرگاہ افغانستان کا سمندر تک پہنچنے کیلئے پاکستان پر سے انحصار توختم کردے گی لیکن کاروباری لحاظ سے یہ بہت مہنگاسودہ ثابت ہوگا۔ یہاں سے وہ افغانستان، ترکی، روس، بالٹک ریاستوں سمیت چین اور ایران تک رسائی کوممکن بناسکتاہے ۔ چاہ بہار کے ذریعے بحری راستے کی تجارت کیلئے مختصر راستے بہرحال کھل نہ سکیں گے۔ بھارت کا تجارتی سامان چاہ بہار پر اترے گا، وہاں سے یہ ٹرین اور ٹرک کے ذریعے افغانستان کے مختلف شہروں میں پہنچے گا، رنگ روڈ کے ذریعے سامان تجارت افغانستان کے ہر شہر میں پہنچایا جائے گا۔تجارتی سامان افغانستان سے وسط ایشیائی ریاستوں میں اور پھر وہاں سے افغانستان منتقل ہوگا۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے آنے والا سامان ایران کے ریلوے ٹریک کے ذریعے زاہدان سے ہوتا ہوا چاہ بہار پہنچے گا اور وہاں سے کشتیوں کے ذریعے بھارت اور دوسرے ممالک روانہ کیا جائے گاگویاتجارتی لحاظ سے یہ ایک مشکل اورمہنگا کام ہوگا۔
2013 میں پہلی بار ایران نے بھارت کو اپنے چاہ بہار بندرگاہ کے منصوبے میں شامل کیا ہے، اس منصوبے کو شروع کرنے میں کافی وقت لگا ہے ۔ مغرب نے ایران پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی وجہ سے بھارت شکوک وشبہات کاشکار تھا اس کے علاوہ وہ منصو بے کی سست روی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا تھا یہاں تک کہ کچھ مہینے پہلے ایران پر امریکا کی سخت ترین پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ مکمل طور پر رک چکا تھا۔ لیکن گزشتہ برس نومبر میں ٹرمپ نے چاہ بہار اور افغان ریلوے لائن منصوبے پر سے پابندی کو ختم کیا، اس کے بعد دوبارہ ایران نے اس منصوبے پر کام شروع کیا۔ سوال یہ ہے کہ امریکانے ایران پراس قدرکڑی پابندیوں کے باوجودیہ مہربانی کیوں کی؟
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر گلشن شادیو نے سفارت کاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے اس سال بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،اس میں ایران اور امریکا کے درمیان اختلافات اور افغانستان میں سیکورٹی جیسے اہم مسئلے شامل ہیں۔دوسری طرف طویل زمینی فاصلے پر تجارت اورمعاشی استحکام پر ابھی بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ٹرین کے ذریعے جانے والا سامان کشتی کی بہ نسبت جانے والے سامان سے کم وقت میں منزل تک پہنچتا ہے بلکہ کبھی کبھی سمندری راستہ ٹرین کی نسبت دوگنا وقت لیتا ہے، اس منصوبے کااصل مقصد طویل فاصلہ کم وقت میں طے کرنا ہے اور اسی مقصدکا حصول چاہ بہار منصوبے سے پوراہونااگرناممکن نہیں تومشکل ضرورہے۔ ابھی یہ بحث باقی ہے کہ اقتصادی راہداری افغانستان کیلئے چاہ بہار سے زاہدان کا راستہ زیادہ مناسب ہے یا ایشیا کیلئے بھارت براستہ وسط ایشیائی ریاستیں زیادہ مناسب ہے۔پروفیسر شادیو کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار معاشی استحکام پر ہیاورمستقبل میں کچھ بھی ہوسکتاہے۔
چاہ بہار کا مستقبل یہ ہے کہ تجارتی سامان کی روزانہ کی بنیاد پر مسلسل ترسیل اور حجم طے کرلیا جائے۔اس وقت بھارت صرف افغانستان سے تجارت پر زور دے رہا ہے، جو کہ راہداری کے استحکام کیلئے ناکافی ہے۔ دوسرے ممالک جیسے خلیج تعاون کونسل کے ارکان ممالک اور وسط ایشیائی ممالک کی بھی اسی راستے تجارتی ترسیل اس راہداری کی ضرورت ہے۔ صرف افغانستان سے تجارت کافی نہیں، دوسری طرف ایران کے خلیج تعاون کونسل کے ارکان ممالک سے اختلافات انہیں چاہ بہار کی طرف راغب نہیں کرسکیں گے۔ خطے میں ممالک کے درمیان رابطے اور تعلقات بڑھانا اس منصوبے کی اصل کامیابی ہے لیکن معاشی خسارے کی وجہ سے چاہ بہار اور زاہدان کے ریلوے لائن کا منصوبہ ابھی تک قابل عمل نہیں بن سکا ہے جبکہ تاحال بین الاقوامی جنوبی شمالی راہداری بھی بند ہے۔
چین اس منصوبے پر ایک خاص اثر ڈال سکتا تھالیکن وہ پہلے سے ہی گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر اور انتظام میں مصروف ہے۔ مبصر ین کے مطابق مستقبل میں یہی بندرگاہ چاہ بہار کا مقابلہ کرے گی، آنے والا وقت یہ بتائے گا کون سی بندرگاہ زیادہ منافع بخش ہے۔ گوادر نہ صرف چاہ بہار سے بڑا منصوبہ ہے بلکہ چین ا س پر بڑی تیزی سے سرمایہ کاری بھی کررہا ہے اور اسی تیزی سے سی پیک میں شامل گوادر سے کاشغر کیلئے ریلوے ٹریک بھی تعمیر کر رہا ہے۔ اس حوالے سے گوادر چاہ بہار سے کہیں زیادہ منافع بخش بندرگاہ بنے گی اور دنیا بھر کے تاجروں کو اپنی طرف راغب کر سکے گی۔پروفیسر شادیو کے مطابق چین چاہ بہار میں بھی شراکت داری کر سکتا ہے، ا یران نے اس بات کا اظہار کئی بار کیا ہے کہ وہ چاہ بہار کے منصوبے میں پاکستان اور چین سمیت کئی دوسرے ممالک کو بھی شامل کر سکتا ہے لیکن ایران کے معاشی ودفاعی ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ بھارت اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہواہے اورجلدیابدیربھارت وایران کایہ تجارتی معاشقہ اپنے انجام کوپہنچ جائے گالیکن کہیں ایران کیلئے بہت دیرنہ ہوجائے ۔
پالیسی سازوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کو چین کی شمولیت اور ایران سے چین کے بڑھتے تعلقات پر اعتراض ہوسکتا ہے، خصوصا ًجب سے چین اور ایران کے معاشی اور عسکری تعلقات مضبوط ہوئے ہیں تب سے اس طرح کے خدشات ظاہر ہوئے ہیں۔ پروفیسر شادیو کے مطابق چاہ بہار میں چین کی شمولیت اس منصوبے کو دوام بخشے گی اورچین کی شراکت سے چاہ بہار اور گوادر کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا ہوگی لیکن بھارت کے آقاایساکرنے کی اجازت دیں گے؟ایران اس معاملے کو بھارت سے زیادہ سمجھتا ہے۔ ایران کو اس بات کاخدشہ ہے کہ چین نہ صرف چاہ بہار بندرگاہ کے ساحلوں کو اپنے قبضے میں رکھے گا بلکہ اس پر سرمایہ کاری کرے گا اور اس کے بنیادی ڈھانچے پر بھی خرچ کرے گا، لیکن اپنی خود مختاری مقدم رکھنے والے ملک ایران کیلئے یہ سب برداشت کرنا ذرا مشکل ہو گاجبکہ چین نے ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کوایک اہم ملاقات میں ان تمام خدشات کوبے بنیادقراردیاہے ۔چین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ چاہ بہار پر برتھوں کا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کا خواہاں ہے، لیکن چونکہ فی الحال گوادر کا مکمل کنٹرول چین اورپاکستان کے
پاس ہے، اس لیے انہیں چاہ بہار کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.