رمضان المبارک ،نیکیوں کا موسم بہار اورمسلمانوں کے لئے تربیت کامہینہ

محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی
صحافی و ادیب ۔ روزنامہ کے بی این ٹائمزگلبرگہ
رحمتوں کی برسات اور مغفرتوں کی سوغات لیے سارے مہینوں کا سردار آیاہے۔اس ماہ مقدس کی آمد کا ہر مسلمان کو بے تابی و بے صبری سے انتظار رہتا ہے ۔رمضان جیسے مبارک مہینہ کاایک بارپھر زندگی میں لوٹ کر آنا،ہمارے لئے حق تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لہذا اس پر ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔پھر اللہ رب العزت نے رمضان کوخصوصی رحمت، گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے آزادی کا سبب بنایا ہے،سال بھر گناہوں کی گرد میں اٹا ہوا،،نفس کی فریب کاریوں سے بدحال اور شیطان کی مکاریوں سے درماندہ، بندہء خداکے حق میں ماہ رمضان ذریعہ نجات بھی ہے اور معافی و مغفرت کا سبب بھی ہے،اس لیے اس پر بھی ہمیں اس کا شکر بجا لاناچاہئے۔ساتھ ہی ساتھ اس بات کا تصور بھی کرنا چاہیے کہ ایسے کتنے ہی مسلمان بھائی تھے جو سال گذشتہ رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ موجود تھے اور عبادتوں میں شریک تھے؛ مگر اب مشیت ایزدی سے پیوند خاک ہوچکے ہیں اور اللہ نے ہمیں ایک اورمہلت و موقع عنایت فرمایا ہے لہذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔رمضان المبارک بڑابابرکت اورمسلمانوں کے لئے تربیت کامہینہ ہے اللہ رب العزت چاہتا ہے کہ اس کے بندوں میں تقوی پیدا ہو، روزوں کی فرضیت کے ساتھ اللہ نے اسکا مقصد بھی یہی بیان کیا ہے کہ روزے تم پر فرض کئے گئے تا کہ تم میں تقوی پیدا ہو لیکن ہم مسلمانوں پر روزہ فرض ہے یہ سمجھ گئے لیکن اس کے مقصد کو بھول گئے نتیجہ جب سے شعور آیا ہے روزہ پابندی سے رکھ رہے ہیں 30,20,10 سال گزرگئے روزہ رکھتے ہوئے لیکن تقوی پیدا نہیں ہوا مقصد سے لاعلمی نے ہمیں اس کے فائدہ سے محروم رکھا ہوا ہے ۔اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی سرکش شیاطین کو قید فرمادیتا ہے روزہ سے نفس قابو میں رہتا ہے دوسرے معنوں میں اللہ رب العزت اپنے بندوں کیلئے نیک اعمال کرنے او راپنی مغفر ت کروانے کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔ آج علم عام ہے سینکڑوں کتابیں مطالعہ میں ہیں لائبریریاں کم پڑرہی ہیں علم ہر کوئی حاصل کررہا ہے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عمل کے میدان میں سناٹا چھایا ہواہے جبکہ اسلام عمل کی دعوت دیتا ہے لیکن مسلمان عمل کے معاملے میں کوتاہی برت رہا ہے ۔حضرت سیّدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری دن ہم سے خطاب فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ بڑی برکت والا ہے۔ اِس ماہِ مبارک میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اِس ماہِ مبارک کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اِس کی راتوں کا قیام (بصورت ِنمازِ تراویح) زائد عبادت ہے۔جو کوئی صاحبِ اِیمان اِس ماہِ مبارک میں رَبِّ ذوالجلا ل والاکرام کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لئے غیر فرض عبادت (یعنی سُنّت یا نفل) ادا کرے گا وہ گویا ایسے ہو گا جیسے اُس نے دوسرے مہینے میں ایک فرض ادا کیا اور جو اِس ماہِ مبارک میں ایک فرض اَدا کر ے گا وہ گویا ایسے ہے جیسے اُس نے دُوسرے مہینے میں سترّ فرض ادا کئے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ ہے اور یہی وہ ماہِ مبارک ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اِضافہ کیا جاتا ہے۔ اِس عظیم اور بابرکت مہینے کی برکتوں کا ظہور مؤمن کے رزق میں بھی ہوتا ہے ، چنانچہ حضرت سلمان فارسی کی اُسی طویل حدیث میں آپﷺکا یہ اِرشاد منقول ہے :شَہْرٌ یَزْدَادُ فِیہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِرمضان المُبارک کا مہینہ وہ عظیم مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھ جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ1888)(شعب الایمان :3336 )اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتا ہے کہ ایک غریب اور مفلس شخص کو بھی رمضان المُبارک میں وہ عُمدہ اور بیش بہا کھانے نصیب ہوتے ہیں جس کی بعض اوقات اُسے سال بھر شکل دیکھنے کو بھی نہیں ملتی،یہ سب یقیناً رمضان المبارک کی برکتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ ہر صاحبِ ایمان کو نصیب فرماتے ہیں۔
رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے اس ماہ مبارک میںقر آن نازل کیا گیا لیکن مسلمان اس عظیم کلام الہی سے جس کو اللہ رب العزت نے ساری انسانیت کیلئے ہدایت بنا کے نازل فرمایا۔ اس سے بھی غافل ہے ۔ہم خود بھی قرآن کی تلاوت کریں اس کو سمجھیں اس کی تعلیمات پر عمل کریں اپنی آل اولاد کو بھی قرآن کریم کی تعلیم دیں ،دورحاضر میں عصری تعلیم کیلئے بے شمار سہولتیں دستیاب ہیں قرآن کریم کی تعلیم کے لئے بھی اس طرح کی بہترین سہولتیں فراہم کرکے قرآن کو پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے کا اہتمام کریں۔رسول اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ نے فر ما یا تم لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے ے اور سکھائے قرآن کریم کی تلاوت کر نا یقینا ًباعث ثواب ہے لیکن اگر اس کو سمجھا جائے تو اس سے ایک خاص تعلق پیدا ہو گا اور زندگی گذارنے کا صحیح سلیقہ و طریقہ سمجھ میں آجائیگا اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کر نے کی سعاد ت بھی نصیب ہو گی اور وہ دنیا و آخرت میںکامیاب ہو جائیگا ۔تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآن کو سمجھیں اور اس کے پیغام کو اوروں تک پہنچائیںِ قرآن کریم سے ہدایت پانے کے لئے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ آج امت قرآن سے دور ہوگئی تو خیرو برکت سے محروم ہوگئی امت پھر سے قرآن سے رشتہ جوڑلے تو اللہ انہیں ا س کی برکت سے بلندی عطا فرمائے گا ،اپنے گھروں کو تلاوت کلام پاک سے آباد رکھیں ،قرآن قیامت تک کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے امت جب تک قرآن سے ہدایت حاصل کرتی رہے گی اور حضور اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرتی رہے گی کامیاب رہے گی ۔ اور جب قرآن کریم سے ہدایت لینا چھوڑ دے گی اور اتباع سنت سے منہ موڑ لے گی ، پستی اور گمراہی میں پڑ جائیگی ۔ قرآن کریم کے مطابق اور حضور ﷺکی سنتوں کے مطابق اپنی زندگی گذاریں اسی میں اصل کامیابی ہے ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے نماز قائم کرو، اس کا مطلب ہے کہ دن میںپانچ وقت بلاناغہ پابندی سے نماز پڑھیں تبھی اللہ کے حکم نماز قائم کرو کی تعمیل ہوگی لیکن مسلمان آج نماز سے بھی غفلت برت رہا ہے ۔اس ماہ مبارک میں اللہ کو راضی کر نے کی فکر کریں نمازوں کی پابندی کریں،نماز ہر برے کام سے روکتی ہے اور یہ اللہ کے ذکر کا بہترین ذریعہ ہے ، جس بندہ کو ایمان کی قدر ہے اور جس بندہ کے ایمان کی اللہ کے پاس قدر ہے وہی بندے نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں،تلاوت کرتے ہیں تمام نیک اعمال کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ورنہ کتنے ہی ایسے ہیں جو بلا عذر روزے نہیں رکھتے نماز نہیں پڑھتے ۔ رمضان کا مہینہ آپ سے مجاہدہ چاہتا ہے اس ماہِ مبارک میں بے شمار گھڑیاں قبولیت دعا کی ہیں۔ اس لئے اس ماہ مبارک میں عبادتوں کے ساتھ دعا کا بھی خاص اہتمام کریں اور اپنے لئے ہدایت کی دعا مانگتے رہیں،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگاکہ ہمارے کس عمل کے سبب دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔ جس کے والدین اس سے ناراض ہوں ایسے بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور عصر حاضر میں اکثریت والدین سے نافرمانی کر رہی ہے۔ اگر ہمارا رزق حلال نہیں ہے تو اللہ دعا قبول نہیں کرتا دعا کی قبولیت کیلئے بندہ پہلے تو اللہ سے توبہ کرے اور پھر والدین کو راضی کرے اور رزق حلال کا پابند ہوجائے پھر اسکی دعائیں قبول ہونگی۔ اس ماہ مبارک میں اللہ نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا کر عطا فر ما تا ہے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70؍درجہ بڑھا کر عطا کر تا ہے اس لئے مسلمان زکوٰۃ رمضان المبارک میں ادا کر تا ہے تاکہ اس کا ثواب 70؍درجہ بڑھا ہو احاصل کر ے ۔انسان کی مو ت کے ساتھ تمام معاملے ختم ہو جاتے ہیں لیکن تین اعمال اسے فائدے پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ دوسرا علم نافع اور تیسرا نیک اولاد اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرو اور جوکچھ تم علم رکھتے ہو دوسروں تک پہنچائو اور مال میںسے ایساخرچ کرو کہ وہ طویل وقت تک فائدہ پہنچاتا رہے ۔گناہوں سے توبہ کریں،اللہ سے جو بندہ گناہوں پر نادم ہوکر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کر کے سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ اگر بندہ توبہ بھی کرے اور اس کو اپنے گناہوں پر ندامت نہ ہو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا مصمم ارادہ نہ ہو تو اس کا دوبارہ گناہوں کی طرف لوٹنے کا اندیشہ رہتاہے ۔
اس ما ہ مبارک کے آخری عشرے میں ایک رات ہے جس میں عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔اللہ رب العزت نے اپنے نبی ﷺکی برکت سے یہ رات یعنی شب قدر عطا فرمائی ہے جس میں اللہ تقدیروں کا فیصلہ فرماتا ہے اللہ رب العزت کو امت محمدیہ ؑسے بہت محبت ہے اس لئے اللہ نے اس پر کئی احسان اور انعام فرمایا ہے،شب قدر سے جو محروم رہا وہ سال بھر کی برکتوں اور نعمتوں سے محروم رہا۔ طاق راتوں میں تلاش شب قدرکااہتمام کریں،آپ ﷺنے اِرشاد فرمایا: یہ وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس کے اوّل حصّہ میں رَحمت ہے، درمیانی حصّہ میں مغفرت ہے اور آخری حصّہ میں آگ سے آزادی ہے اور جو صاحبِ اِیمان اِس مہینہ میں خادم یا ملازم کے کام یا اوقاتِ کار اور اوقاتِ مزدوری میں تخفیف کرے گا۔ اللہ اُسے بخش دے گا اور اُسے دوزخ کی آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، صحیح ابن خزیمہ،الترغیب والترہیب، الجامع لشعب الایمان للبیہقی)اِس مُبارک مہینے میں نفل کا ثواب دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اور فرض کا ثواب دوسرے مہینوں کے 70 فرائض کے برابر ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت سلمان فارسی کی وہ طویل حدیث جس میں آپﷺنے شعبان کے آخر میں خطبہ دیا تھا اُس میں رمضان کی ایک فضیلت یہ بھی ذکر کی گئی ہے،آپﷺنے اِرشاد فرمایا :جو شخص اِس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ اُس نے غیر رمضان میں فرض کو اداء کیا اور جو شخص اِس مہینے میں کسی فرض کو اداء کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں 70 فرض اداء کرے۔(شعب الایمان :3336)
حضرت ابوہریرہ سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺاِرشاد فرماتے ہیں ،رمضان کے مہینے میں(اللہ تعالیٰ سے)ڈرتے رہنا کیونکہ اِس مہینے میں نیکیوں(کے اجر)کو اِس قدر بڑھادیا جاتاہے جتنا رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں بڑھایا جاتا، اِسی طرح گناہوں(کے وَبال)کو بھی (اِس قدر بڑھادیا جاتا ہے جتنا رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں بڑھایا جاتا)۔(طبرانی اوسط:4827)
حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺرمضان المُبارک کے آنے سے پہلے لوگوں کو خطبہ دیتے اور اِرشاد فرماتے:تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے پس تم اُس کیلئے تیاری کرواور اُس میں اپنی نیتوں کو درست کرلو اور اُس کی حُرمت کی تعظیم کرو اِس لئے کہ اِس کی حُرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی حرمت ہے ،پس تم اُسے پامال مت کرنا،بیشک رمضان میں نیکیاں اور بُرائیاں دونوں بڑھا دی جاتی ہیں(یعنی اُن کا ثواب اور وَبال بڑھادیا جاتا ہے)۔(کنز العمال عن الدّیلمی: 24269 )
رمضان کا بابرکت مہینہ جیسے ہی ہمارے پر سایہ فگن ہوتا ہے ظاہری اور باطنی معاملات بدل جاتے ہیں دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور وہ مسلمان جو صرف نام کے ہوتے ہیں وہ بھی نماز روزہ کی پابندی کی فکر میں لگ جاتے ہیں دوسری قوموں کے لئے یہ کوئی معجزہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس مہینے میں صرف خیر ہی خیر دیکھتے ہیں مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں سروں پر ٹوپیاں نظرآتی ہیں ہر طرف ایک دینی ماحول چھا جاتا ہے جسے ساری دنیا محسوس کرتی ہے اہل فکر دن اور رات اللہ کو راضی کرنے میں لگے رہتے ہیں طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرتے ہیں اور جب زکوۃ ادا کرتے ہیں تو غریبوں کی بھی عید ہوجاتی ہے اس ماہ مبارک میں سبھی پر اللہ کی رحمتیں برستی محسوس ہوتی ہیں مسلم سماج میں اتنی بڑی تبدیلی سے دوسری قومیں رشک کرتی ہیںَ،کاش کہ اس ماہ مبارک میں مسلمان جتنی پابندی کرتے ہیں وہ بقیہ مہینوں میں بھی اسی طرح پابندرہیں ۔خاص کر رمضان المبارک میں ہم کھیل کود اور دیگر لایعنی مصروفیات سے مکمل اجتناب کریں،غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کریں۔امام ابن خزیمہ،ابن حبان،اورامام حاکم نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو لغو اوربے ہودہ باتوں سے رکنے کانام ہے۔اسی طرح حضرت عمربن خطاب اورعلی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہما کاقول ہے:روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں؛بلکہ روزہ توجھوٹ، باطل اوربے ہودہ ولغو باتوں سے رکنے کا نام ہے۔اور حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے:جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان، اورتمہاری آنکھیں، اورتمہاری زبان جھوٹ اورگناہ سے روزہ رکھے، اورملازم کو اذیت دینے سے باز رہو، اورروزے کی حالت میں تم پروقار وسکینت ہونی چاہیے، اورتم روزے والے دن اوربغیر روزے کے دن کو برابر نہ بناؤ!یعنی ہمارے اعمال و کردار سے معلوم ہو کہ ہم روزہ سے ہیں۔ عید کے معنی خوشی کے ہیں اور اصل خوشی اس کو حاصل ہوتی ہے جس نے رمضان کو پایا او راپنی مغفرت کروالی بلکہ جس نے رمضان کو پایا اور اپنی مغفرت نہ کرواسکا اس کے لئے جبرئیل امین نے ہلاک و برباد ہوجانے کی بددعا فرمائی اور رسول رحمت ﷺ نے اس پر آمین فرمائی ہے تو اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ اصل عید اس کی جس نے اس ماہ مبارک میں مغفرت کروالی او رجو اس سے محروم رہا اس کے لئے یہ وعیدبن جائے گیَ۔بارگاہِ الٰہی میں دُعا ئیں بھی کرتے رہیں کہ حق تعالیٰ ہمیں اِس عظیم مہینہ کے برکات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.