ماہِ رمضان اور اس کے تقاضے

رمضان المبارک جو کہ در اصل نیکیوں کا موسم بہار ہے ،اس کی آمد آمد ہے ، یہ اللہ عزوجل کا خاص فضل وکرم ہے کہ اس نے سال میں کچھ راتیں اور کچھ ایام ایسے فضیلت کے نصیب فرمائے ہیں جس کی صحیح قدر دانی اور اس میں اللہ عزوجل کی جانب صحیح توجہ سے انسان سے گذشتہ ایام میں جو کچھ کمی کوتاہیاں اور قصور ہوئے ہیں، ان کی تلافی کرسکتا ہے ، اس لئے اس ماہِ مبارک کا تقاضا یہ ہے کہ خصوصا مادی مصروفیات اورزیادہ دنیاوی انہماک سے علاحدہ ہو کر اپنے مولاسے لولگائے، اور حتی الامکان اس ماہِ مبارک کو عبادت وریاضت ، تلاوت قرآن، عبادتوں اور نوافل میں گذارے۔
اس لئے کہ رمضان صرف روزہ ، اور تراویح کانام نہیںہے، بلکہ اس کا صحیح اور حقیقی فائدہ تو یہ ہے کہ اس مہینے میں اپنے آپ کو مکمل یکسو کر کے نفلی عبادات میں مصروف رکھاجائے، اپنی مادی مصروفیات کو ذرا کم کر کے ، مادی غذاؤں سے تھوڑا سے جان چھڑا کر روحانی غذا کا جسم کے لئے سامان کیا جائے ، تاکہ انسانی کی جسمانی سفر کی رفتا جو تیز ہوچکی تھی اب روحانی سفر کی مقدار کو تیز کر کے دونوں کو نقطہ اعتدال پر لایا جاسکے ۔
۱۔ا س لئے ہر شخص کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں اپنی مادی مصروفیات کو کچھ کچھ کم کر کے روحانی مصروفیات اور اعمال وعبادات میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرے ، غیر ضروری کاموں ، یا جن کاموں کو کچھ موخر کیا جاسکتا ہو ان کو موخر کر کے اپنی اخروی زندگی کا سامان کیا جائے ، اپنے آپ کو نفلی عبادتوں ، ذکر اور دعا اور تلاوت وغیرہ میں مصروف عمل رکھے۔چونکہ احادیث مبارکہ میں اس ماہِ مبارک میں ایک نیکی کا ثواب فرض کے برابر اور ہر فرض کا ستر فرضوں کے برابر قرار دیا گیا، ’’ فمن تطوع فیہ بخصلۃ من الخیرکان کمن ادی فریضۃ فیما سواہ ، ومن أدی فیہ فریضۃ کان کمن أدی سبعین فریضۃ ‘‘(مسند الحارث، باب فی فضل شہر رمضان، حدیث: ۳۲۱)
۲۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں انسان روزے کی وجہ سے عام حالات میں جو چیزیں اس کے لئے حلال ہیںوہ اللہ عزوجل کی بندگی اوراس کے احکام کے آگے سرنگوں ہو کر ترک کردیتا ہے ، لیکن یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ انسان اللہ عزوجل کی بندگی اوراس کے روزے کے لئے حلال امور تو چھوڑے دے ؛ لیکن جو امور عام حالات میں بھی حرام ہیں ان کا دھڑلے سے دن بھر ، رات بھر مرتکب ہوتا رہے ۔لہٰذا کھانا پینا تو ترک کیا جاتا ہے ، لیکن غیبت ، جھوٹ، دل شکنی ، رشوت ستانی، دھوکہ دہی ، ہراسانی وغیرہ یہ امور جو ہر حال میں حرام ہیں، یہ ترک نہیں کئے جاتے تو ایسا روزہ انسان کو کتنا روحانی ترقی کا مستحق بناسکتا ہے ؟
اس لئے خصوصا رمضان المبارک میں آنکھ ناک، کان اور دیگر اعضاؤں کے گناہوں سے خصوصا اجتناب ہو، حالت روزہ میں اللہ عزوجل کے احکام کی تابعداری میں کھانے پینے کے ترک کا مقصود بھی یہی ہے کہ انسان ہر موقع اور محل اور ہر حالت میں اللہ عزوجل کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اس کے اندر اور خو آجائے ۔ اسی لئے اس مہینہ کو ’’شہر الصبر‘‘ صبر وضبط اور اپنے عام دنوں کی خواور عادت پر بند لگانے کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ۔
۳۔ رمضان المبارک کو ’’مواساۃکا مہینہ ‘‘ قرار دیا گیا ہے ، اس میں غریبوں کی غم خواری ، ان کی دلجوئی اور ان کی ضروریات کی تکمیل کا اہتمام خصوصا ہو،زکاۃ ، صدقات اور پاس پڑوسی اور غریبوں کا خوب خیال کیا جائے ، ہر مسلمان کا اس مہینے میں یہ خصوصی وصف ہوناچاہئے، اسی لئے اس مہنے کو ’’مواساۃ کا مہینہ ‘‘ کا مہینہ کہاکہکہ اس مہینہ میں غریبوں کی خوب امداد واعانت کی جائے ، ان پر فراخی کی کوشش کی جائے ، اسی لئے اس ماہِ مبار ک میں افطار کرانے کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا گیا :
اسی لئے فرمایا اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھ جاتا ہے ، ایک تو من جانب اللہ مومن کے لئے کشادگی رزق کا یہ مہینہ سبب بنتا ہے ، دوسری اس لئے کہ یہ مہینہ چونکہ مساوات وغم خواری اور غریبوں اور ناداروں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا مہینہ ہے ، اس طرح اس عطا وجود سخاوت کے اس وصف کے حامل مہینہ میں مومن کا رزق یوں کر بڑھا دیا جاتا ہے اور فرمایا جو شخص رمضان میں روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو یہ اس کو جہنم سے خلاصی اور گناہوں سے مغفرت کا پروانہ بنتاہے، حسب استطاعت ایک گھونٹ دودھ، یا ایک کھجور یا لسی پلانے پر بھی اسی طرح کا وعدہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے ، اور فرمایا جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلاتا ہے تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے اور اس کو اس کے عوضروزہ محشر حوض کوثر سے ایسا شراب پلایا جائے گا جس کے بعد اسے جنت میں جانے تک پیاس نہ لگی گی۔(مسند الحارث، باب فی فضل شہر رمضان، حدیث: ۳۲۱)
۴۔ اور ایک روایت میں اس ماہِ مبارک کو صلح وصفائی کا مہینہ قرار دیا گیا، اس لئے فرمایا گیا کہ بے جا جھگڑوں اور گالی گلوچ سے اس مہینہ میں احتراز کرے ،اس حوالہ سے نبی کریم ﷺ کا ارشادگرامی ہے کہ : ’’ اگر تم میں سے کوئی شخص روزہ ہو تو نہ وہ گالی گلوچ کرے اور اس جہالت پنے کا مرتکب ہو، ، اگر کوئی شخص اس سے لڑائی کرنا چاہے یا اس کو برا بھلا کہے تو یوں کہے کہ : میں روزہ سے ہوں ، میں روزہ سے ہوں ۔(موطا امام مالک:جامع الصیام، حدیث: ۳۲۳)
۵۔ اس مہینہ کے اول حصہ کو رحمت خداوندی کے نزول کا مہینہ قرار دیا، اور درمیان کو بخش اور مغفرت کا حصہ اور اخیر حصہ کو جہنم سے نجات اور آگ سے خلاصی کا کی وجہ قرار دیا ۔ ’’وہو شھر اولہ رحمۃ، واوسطہ مغفرۃ ، وآخرہ عتق من النار ‘‘ ۔ اس لئے اس کے ہر ہر لمحہ کو قیمتی جانے ، اس کی رحمتوں کی سوغات، مغفرتوں کے تمغات، اور جہنم سے خلاصی اور نجات کے اعزازات وانعامات کا نیکیوں کے ذریعہ مستحق بنائے ۔
خلاصہ یہ کہ ہر وقت یہ پیش نگاہ رہے کہ رمضان صرف یہ سحری اور افطار کا نام نہیں، بلکہ دراصل رمضان کا مہینہ سال کے دیگر مہینوں کے مقابل ایک خصوصی تربیت اور ٹریننگ کا موقع ہے ، اس تربیتی کورس سے ہر مسلمان کو سال میں ایک دفعہ گذارکر اس کو کندن بنایا جاتا ہے ، اس کے خالق ومالک کے ساتھ اس کی وابستگی اور تعلق بڑھایاجاتا ہے ، وہ ریاضت اور مجاہدہ اور رجوع إلی اللہ کے ذریعے اپنے کو اوصاف رذیلہ سے پرہیز کا عادی بنایا جاتا ہے ، اور اعلی اوصاف واخلاق کو اپنے اندر پیدا کراتا ہے ۔
اس لئے رمضان المبارک کے مبارک مہینے سے سرسری اور روایتی انداز میں گذرنا نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے ہر لمحہ کو قیمتی ازقیمتی بنانا ہے ، اور فرائض ، نوافل، روزہ تراویح اور دیگر عبادات ، اذکار واورادمیں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر ہمہ تن اللہ عزوجل سے لو لگانا ہے ، دنیا اوراس مادی مصروفیات سے کٹ کر اس ماہ میںماہ عبادت وریاضت کے ذریعے زندگی اور جسم کا روحانی سامان کرنا ہے ۔
ماہِ رمضان – فضائل وبرکات
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
استاذ فقہ وحدیث دار العلوم دیودرگ
رمضان رمض(بمعنی جلنا) سے ماخوذ ہے ، چونکہ یہ مہینہ بھی گناہوں کو جلادیتا ہے ، اس لئے اس کو ماہِ رمضان کہتے ہیں، یا رمضان رمض بمعنی(زمین کی گرمی سے پاؤں کا جلنا) سے ماخوذ ہے ،چونکہ ماہ رمضان بھی تکلیف نفس اور جلن کا سبب ہوتا ہے ، اس لئے اس کو رمضان کہتے ہیں۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ، یہ مہینہ ایک مسلمان کے لئے نہایت برکت وفضیلت کا حامل مہینہ ہے ، اس کی بے شمار خیر وخوبیاں اور بے حساب فضائل ومناقب ہیں، یہ مہینہ ایک مومن کے لئے گناہوں کی بخشش ومغفرت اور نیکیوں اور بھلائیوں کے حصول اور رضائِ رب کے جویا اور متلاشی کے لئے گویا ایک سیزن اور اللہ کو راضی کرنے اور منوانے اور اپنے گناہوں کے دھلوانے اور اس کے بخشوانے کا بہترین موقع ہے۔اس ماہ میں اللہ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے ، مغفرت کا پروانہ ملتا ہے اور جہنم کی آگ سے آزادی ملتی ہے ، خیرکے طلبگار آگے بڑھتے ہیں ،شر کے متلاشی پیچھے ہٹائے جاتے ہیں، ہر عبادت کا ثواب بڑھادیا جاتا ہے ، نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب سترفرضوں کے مقدار میں عطا کیا جاتا ہے ۔مومنوں کے لئے جنت سجائی جاتی ہے۔
رمضان کی فضیلت:
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیںمیں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کی حقیقت کیا ہے تو میری یہ امت تمنا کرے گی کہ سارا سال رمضان ہوجائے پھر (قبیلہ خزاعہ) کے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! (رمضان کے بارے میں ) ہمیں کچھ بتلائیے، آپ نے ارشاد فرمایا: رمضان المبارک کے لئے جنت شروع سال سے اخیر سال تک سجائی جاتی ہے ، جب رمضان شریف کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش(الٰہی) کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے ، جس سے جنت کے درختوں کے پتے ہلتے ( اور بجنے ) لگتے ہیں اور حور عین عرض کرتی ہیں ، اے ہمار ے رب ! اس مبارک مہینے میں ہمارے لئے اپنے بندوں میں سے کجھ شوہر مقرر کردیجئے جن سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریںاور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کا روزہ رکھے مگر یہ بات ہے کہ اس کی شادی ایسی حور سے کردی جاتی ہے جو ایک ہی موتی سے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں فرمایا ہے:’’حور مقصورات فی الخیام‘‘(الرحمن:۷۲) (خیموں میں رکی رہنے والی حوریں) اور ان عورتوں میں سے ہر عورت کے جسم پر ستر قسم کے لباس ہوں گے ، جن میں سے ہر لباس کا رنگ دوسرے لباس سے مختلف ہوگا اور انہیں ستر قسم کی خوشبو دی جائے گی ، جن میں سے ہر خوشبو کا انداز دوسرے سے مختلف ہوگا، اور ان میں سے ہر عورت کی (خدمت اور) ضرورت کے لئے ستر ہزار نوکرانیاں اور ستر ہزار خادم ہوں گے ، ہر خادم کے ساتھ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہوگا جس میں کئی قسم کا کھاناہوگا( اور وہ کھانا اس قدر لذیذ ہوگا کہ) اس کے آخری لقمے کی لذت پہلے لقمے سے کہیں زیاد ہ ہوگی اور ان میں سے ہر عورت کے لئے سرخ یاقوت کے تخت ہوں گے ، ہر تخت پر ستر بستر ہوں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے اور ہر بستر پر ستر گدے ہوںگے اور اس کے خاوند کو بھی اسی طرح سب کچھ دیا جائے گا (اوروہ) موتیوں سے جڑے ہوئے سرخ یاقوت کے ایک تخت پر بیٹھا ہوگا ، اس کے ہاتھوں میںوہ کنگن ہوں گے ، یہ رمضان المباک کے ہر روزہ کا بدلہ ہے ( خواہ) جو (شخص) بھی روزہ رکھے ( اور روزہ دارنے) روزہ کے علاوہ جو نیکیاں (اعمال صالحہ) کی ہیں، ان کا اجر وثواب اس کے علاوہ ہے ،مذکورہ ثواب صرف روزہ رکھنے کا ہے (مجمع الزوائد: باب فی شہور البرکۃ ، وفضل شھر رمضان، حدیث: ۴۷۷۳،علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کو اس کو طبرانی نے کبیر میں روایت کیاہے اس میں ہیاج بن بسطام ضعیف ہے ، علامہ ابن حجر مطالب العالیۃ میں فرماتے ہیں: اس کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، پھر کہا ہے کہ اگر یہ خبر صحیح ہے ، لیکن جریر بن ایوب کی وجہ سے یہ کھٹکتی ہے ، لیکن چونکہ یہ رغائب اور فضائل سے تعلق رکھتی ہے ، اس لئے اس سے تساہل برتا ہے)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو رمضان میں پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو اس سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں(۱) روزہ دار کے منہ کی بواللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے(۲) افطار تک فرشتے ان کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں (۳)اللہ تعالی روزانہ جنت کو مزین فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے اپنے اوپر سے محنت و تکلیف کو اتار پھینکیں گے اور تیرے پاس آئیں گے(۴) اس مہینے میں سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ لہذا غیر رمضان میں انہیں جو آزادی حاصل ہوتی ہے وہ اس میہنے میں نہیں ہوتی (۵) ماہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی بخشش کردی جاتی ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہی شب قدرہے ؟ فرمایا نہیں البتہ بات یہ ہے کہ جب مزدور اپنی مزدوری پوری کرلے تو اسے اس کی تنخواہ پوری پوری دے دی جاتی ہے۔(مسند احمد: مسند أبی ہریرۃ، حدیث: ۷۹۰۴، علامہ منذری فرماتے ہیں ، اس کو احمد، بزار، بیہقی، ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب الثواب میں نقل کیا ہے ، پھر ایک دوسری سند سے اس روایت کونقل کرکے فرماتے ہیں ، یہ پہلی والی روایت سے زیادہ اصلح ہے )
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ بھی رمضان کی آخری رات آنے تک بند نہیں کیا جاتا اورکوئی مسلمان بندہ ایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کی راتوں میں سے کسی رات میںنماز پڑھے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر سجدے کے بدلے میں ڈھائی ہزار نیکیاںلکھے گا اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا ایک مکان بنادے گا، جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر سونے کا ایک محل ہوگا جو سرخ یاقوت سے آراستہ ہوگا ، پھر جب رزوہ دار رمضان المبارک کے پہلے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گذشتہ سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور روزہ دار کے لئے روزانہ صبح کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ستر ہزار فرشتے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے ہیں اور رمضان شریف کی رات یا دن میں ( اللہ کے حضور میں) کوئی سجدہ کرتا ہے تو ہر سجدہ کے عوض اس کو (جنت میں) ایک ایسا درخت ملتا ہے جس کے سایہ میں سوار پانچ سو برس تک چل سکتا ہے ۔
رمضان مغفرت کا مہینہ:
رمضان بخشش اور مغفرت کا مہینہ، گنہ گاروں اور پاپیوں کے گناہوں کے دھلوانے اور خدا کے حضور اپنی انابت وخشوع وخضوع اور اپنی عبادات اور لقاء رب کے شوق کو دکھلا کر اپنے آپ کو ذنوب وعصیان سے پاک وصاف کرنے کا مہینہ ہے ، اس لئے حضور اکرم ﷺ نے اس شخص کے حق میں بددعا فرمائی ہے جو رمضان کا مہینہ پائے ، پھر اپنی مغفرت کا سامان نہ کرسکے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ منبر پرچڑھے، تین مرتبہ آمین کہا، پھر فرمایا: تم جانتے ہو کہ میں نے آمین کیوں کہا: تو حضرات صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: میرے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے تھے، انہوں نے مجھے بتلایا کہ اے محمد (ﷺ) جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے اور اس کو اللہ عزوجل اپنے سے دور کردے، انہوں نے آمین کہنے کو کہا تو میںنے آمین کہا، جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور ان کی اطاعت نہ کرسے تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے اوراللہ عزوجل اس کو اپنی رحمت سے دور کردے تو میں نے کہا: آمین، پھر فرمایا:جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور اس کی مغفرت وبخشش نہ ہوسکے تو وہ جہنم میں جائے اور اللہ عزوجل اس کو اپنے رحمت سے دور کردے تو میں نے کہا: آمین(علامہ ہیثمی فرماتے ہیں : اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ، اور یہ ضعیف ہے اور اپنے دیگر شواہد کی وجہ سے صحیح ہوجاتی ہے )۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمان پر ماہ رمضان سے بہتر کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا اور منافقین پر رمضان سے زیادہ سخت کوئی مہینہ نہیں آتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس مہینے میں عبادت کے لئے طاقت مہیا کرتے ہیں اور منافقین لوگوں کی غفلتوں اور عیوب کو تلاش کرتے ہیں۔(مسند احمد :مسند أبی ہریرۃ، حدیث:۸۳۶۸)
رمضان جہنم سے آزادی کا مہینہ:
اللہ عزوجل کے یہاں رمضان کے ہر دن لوگ جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان مرد وعورت کی ایک دعا قبول ہوتی ہے ، یعنی یہ دعا کی قبولت اور نماز ، روزوں ، تلاوت قرآن ، تراویح اور دیگر اعمالِ صالحہ سے مسلمان کے اپنی زندگی سے معمور کر کے اپنے آپ کو جہنم سے آزادی دلانے کا مہینہ ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دورازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے اے خیر کے طلبگار آگے بڑھ اور اے شر کے طلبگار ٹھہر جا اور اللہ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے(ترمذی:باب فضل شھر رمضان، حدیث:۶۸۲)اور ایک روایت میں ہے : رمضان کے ہر غروب کے وقت ایک فرشتہ آواز لگاتا ہے ، اے خیر کے طلبہ گار آگے بڑھ،ہے کوئی دعا مانگنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ، ہے کوئی سوال کرنے والا کہ اس کو عنایت کیا جائے ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کی جائے ، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ، اللہ عزوجل ہر رات افطار کے وقت رمضان میں اپنے کچھ بندے اور بندیوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں (فضائل شھر رمضان لابن شاہین:۳۶، مکتبۃ المینار، اردن)۔
رمضان میں نیکیوں کا ثواب دوچند کردیا جاتا ہے :
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے (جمعہ کا یا بطور تذکیر و نصیحت) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! باعظمت مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے، یہ بڑا ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں قیام (عبادت خداوندی) جاگنا نفل قرار دیا ہے جو اس ماہ مبارک میں نیکی (یعنی نفل) کے طریقے اور عمل کے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہوتا ہے)اور جس شخص نے ماہ رمضان میں(بدنی یا مالی) فرض ادا کی تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں ستر فرض ادا کئے ہوں (یعنی رمضان میں کسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میں ستر فرض کی ادائیگی کے ثواب کے برابر ہوتا ہے )اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے (کہ روزہ دار کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے)وہ صبر جس کا ثواب بہشت ہے ماہ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے لہذا اس ماہ میں محتاج و فقرا کی خبر گیری کرنی چاہئے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں (دولت مند اور مفلس ہر طرح )مومن کا (ظاہر اور معنوی) رزق زیادہ کیا جاتا ہے جو شخص رمضان میں کسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے) افطار کرائے تو اس کا یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ کی آگ سے اس کی حفاظت کا سبب ہو گا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند ثواب ملے گا بغیر اس کے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سب تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ثواب اللہ تعالی اس شخص کو بھی عنایت فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور یا ایک گھونٹ پانی ہی کے ذریعے افطار کرا دے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے تو اللہ تعالی اسے میرے حوض (یعنی حوض کوثر) سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ(اس کے بعد) پیاسا نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو جائے اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ بخشش ہے یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے اور اس کے آخری حصے میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے (مگر تینوں چیزیں مومنین کے لیے ہی مخصوص ہیں کافروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے)اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام و لونڈی کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا۔( الترغیب: کتاب الصوم ، الترغیب فی الصوم، حدیث:۱۴۸۳،علامہ منذری فرماتے ہیں: اس کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، پھر فرمایا یہ خبر صحیح ہے )
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رمضان کے مہینہ کی ہم جس قدر ممکن ہوسکے قدر کریں ، اس کے فضائل اور برکات کے استحضار اور یاددہانی کا مقصود بھی یہی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے سایہ فگن ہونے اور اس کی آمد آمد سے پہلی ہی ہم اسکے خیر وبرکات اور اس کے فضائل ومناقب کو جان کر اس کا اہتمام کرنے ولے بنیں اور اس کی تمام عبادت میں دلجمعی اور دلچسپی کامظاہرہ کر کے رضاء رب، لقاء رب ، جنت اور اس س کی نعمتوں اور اس کے آسائش وآرام کے مستحق بنیں۔لوگوں کو افطار کروائیں، یکسو ہو کر عبادات میں لگ جائیں، دعاؤں کا خوب اہتمام کریں ، یہ قبولت دعا کے موقع ہے ، خیر اور بھلائی کے کاموں میں خوب خرچ کریں، تلاوت قرآن کریم سے اپنے رات ودن کو معمور کریں، نماز پنج گانہ باجماعت ادا کریں۔ذکر وفکر میں اپنے اوقات صرف کریں استغفار کی کثرت کریں، دعاؤں کے ذریعہ جنت کا سوال اور جہنم سے پناہ چاہیں۔
آج امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ اس نے رمضان کو بجائے اس کے کہ وہ نیکوں کے اکٹھا کرنے کا سیزن ہوتا ہے ، ہم نے اسے کمائی کا سیزن بنالیا ہے، اس لئے تجار کو اور دیگر پیشوں سے وابستہ حضرات کو دن بھر اپنے کاموں سے فارغ ہو کر یکسوئی کے ساتھ عبادات میں لگ جانا چاہئے ، اس کے ساتھ ساتھ مسلمان تجار اپنے ماتحت پر کام کے بوجھ کو ہلکا کریں، ان کو بھی نماز اور روزوں کا موقع عنایت کریں ، ان کی نیکیوں کے وہ بھی حصہ دار ہوں گے ،رمضان کو گراں فروشی کا مہینہ نہ بنائیں مصنوعی قلت ، ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ مسلمان بھائیوں کا خون نہ چوسیں۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.