ایک ماہ کے لیے الیکٹرانک میڈیا سے دور رہئے!

فضیل احمد ناصری

آج 7 مئی سے رمضان کا پہلا روزہ شروع ہو گیا، رات پہلی تراویح بھی پڑھی جا چکی ہے۔ رمضان کا مہینہ بارانِ رحمت کا مہینہ ہے۔ اس مبارک ماہ میں بخشش کے اتنے مواقع ہیں کہ بیان سے باہر۔ ان ایام کی چھوٹی سے چھوٹی عبادت دیگر ایام کی بڑی بڑی عبادتوں پر بھاری ہے، الا ماشاءاللہ! اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ سرکش شیاطین کو پا بہ زنجیر کر دیا گیا، کیوں کہ نیکیوں کی راہ میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ شیاطین پر یہی وہ بندش ہے کہ مسلمان اس ماہ میں نہایت سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ اس کا دل بدل جاتا ہے۔ اس کی طبیعت دگرگوں ہو جاتی ہے ۔ اس کا مزاج ماضی سا نہیں رہتا۔ عبادات میں دل لگتا ہے۔ تواضع اور انابت الی اللہ اس میں از خود آ جاتی ہے۔ پوری شخصیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔

ٹیلی ویژن بند کر دیجیے!

لیکن بڑے اور سرکش شیاطین کے پا بجولاں ہونے کے باوجود بہت سے مواقع ہیں جہاں ان کے چیلے اپنی منوا لیتے ہیں۔ ان مواقع میں سے ایک ٹیلی ویژن ہے۔ ٹیلی ویژن ایک انتہائی بری چیز ہے۔ کسی زمانے میں اس پر عذابِ قبر کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ مسلمانوں پر ان واقعات کا اتنا اثر تھا کہ ٹی وی کے نام سے ایسے بھاگتے تھے، جیسے عذاب سے بھاگتے ہیں، مگر رفتہ رفتہ اس سے توحش جاتا رہا۔ اب یہ ہر گھر کی زینت، بلکہ سب سے پہلی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر گھر کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ عوام تو عوام، خواص میں بھی اس کا چلن عام ہو گیا۔ رہی سہی کسر کیمرے کے جواز والے اہلِ علم نے پوری کر دی۔ علما خود کیمرے پر آنے لگے اور اس اصرار کے ساتھ کہ گویا دعوتِ دین کا کام اس کے بغیر متصور ہی نہیں،حتیٰ کہ اصلاحِ معاشرہ کے اجلاسات بھی اس کے بغیر دم بریدہ سمجھے جانے لگے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ مسجد کی محرابیں بھی اس سے پاک نہیں رہی۔ جب کیمرے کو اس قدر تقدیس مل جائے تو مسلمان اپنے گھر میں ٹیلی ویژن کیوں نہ رکھے؟

میں ہر مسئلے کی طرح ٹیلی ویژن والے مسئلے میں بھی دارالعلوم دیوبند کے دارالافتا کے ساتھ ہوں اور میں اسے حرام سمجھتا ہوں، لیکن جو لوگ اسے کسی نہ کسی صورت حلال، بلکہ مقدس بھی سمجھتے ہیں اور اس بنیاد پر عوام کے گھر اس بلائے بے درماں سے آباد ہیں، ان سے درخواست ہے کہ کم از کم ایک ماہ کے لیے اپنا ٹی وی مکمل بند کر دیں۔ ان ایام میں کسی بھی عنوان سے اسے ہر گز ہرگز نہ کھولیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین کی تراویح کے عنوان سے بھی نہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ٹی وی حرمین شریفین کی تراویح کے لیے کھولیں گے اور چھوٹے شیاطین آپ کو رفتہ رفتہ دوسرے لایعنی کاموں میں لگا دیں گے۔

رمضان اور کرکٹ

ادھر کئی برسوں سے رمضان میں کرکٹ مقابلوں کا زور بھی چل پڑا ہے، کبھی عالمی کپ کے عنوان سے، تو کبھی کسی اور نام سے۔ آپ کھیلوں کی دنیا سے بالکلیہ کٹ جائیں۔ آپ کھیل دیکھیں گے، وقت برباد کریں گے، ہار جیت کے بعد پھر تبصرے کریں گے، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ کرکٹ اسی طرح دیگر کھیلوں کے درمیان غیر محرم لڑکیوں کی تصویریں گھومتی ہیں، جو اپنی حیا باختگی میں کوئی نظیر نہیں رکھتیں، آپ چاہیں یا نہ چاہیں، ان پر نظر پڑے گی ہی اور دماغ وساوس کا مرکز بنے گا ہی، اس لیے مقابلوں کے عنوان سے بھی اپنا ٹی وی سیٹ بند رکھیں۔ اگر آپ نے رمضان جیسی ساعتوں میں بھی یہ فضول کام انجام دیے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نیکیوں کی یہ بہار آپ کے پاس سے گزر جائے گی اور آپ کو ہوا بھی نہ لگے گی۔

کیو ٹی وی اور رمضان اسپیشل بھی عذاب

کچھ لوگ رمضان میں ٹی وی بڑے نیک مقاصد کے لیے دیکھتے ہیں، مثلاﹰ مسائل معلوم کرنے کے لیے، یا دعائیں یاد کرنے کے لیے، مگر ان مقاصد کے لیے بھی ٹی وی ہرگز ہرگز نہ کھولیں۔ یہ شیطان کا ہتھیار ہے۔ اولاً تو یہ چینل گمراہ اور باطل فرقوں کے ہیں۔ اگر حق جماعت کا چینل ہو تو بھی اس سے دور رہنا ہمارے باطن کی پاکیزگی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ ٹیلی ویژن کے سارے پروگرام شیاطین کے آلات ہیں، آپ ایک ماہ کے لیے ٹی وی بہر صورت بند کر دیں۔ ٹی وی پر کسی کی گھنی اور خوب صورت داڑھی دیکھ کر آپ قطعی یہ باور نہ کریں کہ چینل مقدس ہو چکا۔ کیو ٹی وی ہو، یا القرآن ٹی وی، یا کوئی اور، یہ سب شیاطین کے بچھائے ہوئے جال ہیں۔ سب سے دامن بچا کر چلیں۔ شیطان اپنی شکل میں برائے نام ہی آتا ہے، ٹیلی ویژن کے روپ میں اس کا آنا بکثرت ہے۔

یوٹیوب اور فیس بک سے بھی کنارے رہیں

اگرچہ ٹیلی ویژن جیسی خرابیاں موبائل میں بھی موجود ہیں، مگر موبائل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کا اختیار اپنے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے ٹی وی جیسی خرافات کو مستلزم نہیں۔ آپ بچ بچا کر اورط سنجیدہ ہو کر اس کا استعمال کریں تو بہت حد تک بچ بھی سکتے ہیں، مگر میں نے محسوس کیا ہے کہ یوٹیوب اور فیس بک بھی کسی کسی وقت ایسے مواد تک پہونچا دیتے ہیں جو روزے کے لیے کراہت کا سبب بن جاتے ہیں۔ یوں تو سوشل میڈیا پورا کا پورا فطرتاً بدی کا محور ہے، مگر یہ دونوں اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ آپ نیک مقاصد کے لیے استعمال کرتے وقت بھی اچانک ایسے مقامات پر پہونچ جائیں گے کہ آپ کا نفس شرارت کیے بغیر رہ نہیں پائے گا۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ ایک ماہ کے لیے ان سے دوری بنا کر رکھیں۔

حلال کو چھوڑ دیا، حرام کو تو چھوڑ ہی دیں

رمضان کا مہینہ آتے ہی آپ نے کھانا کھانا چھوڑ دیا، حالانکہ وہ حلال تھا، پانی پینا چھوڑ دیا، جب کہ وہ بھی حلال ہی تھا۔ روزے کی حالت میں بیوی سے اختلاط ترک کردیا، جب کہ اس کے حلال ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں تھا۔ یہ بڑے اور کڑے مجاہدے صرف اللہ کے لیے کیے، تو اللہ کی رضا کے لیے حرام کو بھی چھوڑ ہی دیجیے۔ جب حلال کو راہ نہیں دی، تو حرام کو راہ کیوں دیں؟ جھوٹ، غیبت، لڑائی جھگڑے، چغل خوری اور بدنظری سے بچیے، اللہ کے واسطے بس ایک ماہ ایسا کر لیجیے، اللہ نے چاہا تو ایک ماہ کا یہ مجاہدہ آپ کی زندگی کو بدل دے گا اور آپ اللہ کی رضا والی حیات گزارنے والے بن جائیں گے۔

Comments are closed.