استقبال رمضان کیوں اور کیسے؟

تحریر: عروج خان
رمضان کا بابرکت مہینہ امت مسلمہ پر اپنی رحمت کا سایہ پھیلانے والا ہے ۔اسی طرح ہر شخص رمضان کی آمد کا منتظر ہے اور خوب اہتمام کے ساتھ تیاریوں میں مصروف ہے۔فضائل رمضان کے ذمن میں احادیث مبارکہ ذکر کرنے سے پہلے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کا قول ذکر کرتی ہوں فرماتے ہیکہ! نبی کریم ﷺ کی رحمت للعالمین کی ذات نے مسلمانوں کیلئے دین کے ہر باب میں جس قدر فضائل اور ترغیبات ارشاد فرمائی ہیں ان کا اصل شکریہ اور قدردانی تو یہ ہیکہ ہم ان پر مر مٹے مگر ہماری کوتاہیاں اور دینی بے رغبتی اس قدر روزافزوں ہیکہ ان پر عمل تو درکنار ان پر التفات اور توجہ بھی نہیں رہی حتٰی کے لوگوں کو ان باتوں کا علم بھی بہت کم ہوگیا ہے۔بہرکیف رمضان کے فضائل کے ذمن میں ایک حدیث مبارکہ میں مذکور ہیکہ! نبی کریم ﷺ نے ارشاد ْ فرمایا : میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں ۵چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیںجو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں: ۱۔روزے دار کی منہ کی بدبو اللہ پاک کی نزدیک مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے
۲۔روزیدار کے لیئے دریا کی مچھلیاں تک دعاء کرتی ہیں اور افطار تک کرتی رہتی ہیں ۳۔جنت ہر روز ان کے لیئے آراستہ کی جاتی ہے ۴۔اس ماہ میں سرکش شیاطین قید کر لیئے جاتے ہیں ۵۔رمضان کی ا ٓخری شب میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہاکرامؓ نے عرض کیا (یارسول اللہﷺ)یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور کے موافق مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ رمضان کی فضیلت کے ذمن میں جتنی احادیث مبارکہ ذکر کی جائے کم ہے مگر ان سب فضیلتوں کے فوائد انسان کو تب ہی پہنچیے گے جب وہ اندر سے پاک وصاف ہو۔ رمضان کے استقبال کے لیئے ہم سب نے اپنے گھروں کو صاف کرلیا اپنے کپڑوںکو بھی صاف کرلیا غرض یہ کہ ہر چیز کو بہترین طریقے سے رمضان کی آمد کی خوشی میں تیار کرلیا ہے مگر سب سے اہم چیز (دل)ہے کیا ہم سب نے اپنے دلوں کو صاف کیا ؟کیا اسکی پاکیت کیلئے کوئی تیاری کی ؟کیا اس دل کے ساتھ جسمیں بغض،حسد،کینہ اور ناراضگیاں بھری پڑی ہیں ہم عبادت کریں گے؟ اور کیا پھر ہماری عبادات قبول ہوںگیں؟نہیں بلکل بھی نہیں ! بلکہ مزدور کے کام کی قدروقیمت بھی اس وقت لگائی جاتی ہے جبکہ اس نے اپنا کام ایمانداری اور خلوص دل سے پورا کیا ہو۔
حدیث مبارکہ ہیکہ! اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ تو اگر ہمارے دل ہی برائی سے پاک نہ ہوں گے تو نیت کیسے صاف ہوگی اور پھر اعمال کیسے مقبول ہوںگے؟خدارا رمضان کے استقبال میں سب سے پہلے اپنے دلوں کو صاف کریں سب کو معاف کریں اور اپنی نیتیں صحیح کریں صلح رحمی اختیار کریں تاکہ ہمارے صوم وصلوۃبارگاہ الہی میں قبول ہو اور اللہ پاک کی طرف ہمارے دل متوجہ ہوں۔اب دل کی صفائی کے بعد سب سے پہلے زبان کا ذکر آتا ہے دل کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زبانوں کو بھی بدزبانی سے روکنا چاہیئے۔ آپﷺ نے فرمایا ہیکہ! جس نے روزہ رکھ کر بھی بد زبانی اور جھوٹ نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسکا کھانا پینا چھوڑ دینے کی ضرورت نہیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ جو آدمی روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور بری باتوں سے پرہیز نہ کریں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھوکا پیاسا رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔جھوٹ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا سچ ہے اور ہم میں سے ہر شخص جھوٹ کا شکار ہے۔تو اگر ہمیں اس بابرکت مہینے کو اپنے لیئے رحمت کا باعث بنانا ہے تو ہمیں بدزبانی،غیبت،چغلخوری اور جھوٹ سے بھی خود کو پابند کرنا پڑھے گاتاکہ زبان کو پاک کر کے ہم اس بابرکت مہینے میں کلام اللہ کی تلاوت کر سکے اوراللہ اسکے رسول کو یاد کر سکے ۔تیسری اور اہم بات رمضان کے استقبال میں خدمت خلق اور ادائیگی فرض (زکوٰۃ)ہے۔حدیث شریف ہیکہ! ہرشئے کے لیئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔جس طرح ہم اپنے جسم کی زکوٰۃ نکالتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے مال سے بھی زکوٰۃ نکالنی چاہیئے جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے سب کی کمر توڑ ڈالی ہے تو اس دور میں غریب غرباء کہاں جائیں؟خاص طور سے رمضان میںجب ہر چیز کی قیمتیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ایسے وقت میں استطاعت رکھنے والے اشخاص اپنے فرائض کو ادا کرے اور رمضان سے پہلے ہی اپنی اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائیں تاکہ ضرورت مند کی ضرورت وقت پر پوری ہو اور وہ بھی اپنا رمضان سکون سے گزار سکے ۔
رمضان کے استقبال میں صرف ظاہری چیزوں کواہمیت و فوقیت نہ دیں ان کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ باطنی چیزوں کو اہمیت دیں اور خدمت خلق کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کریں تاکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے اور اس بابرکت مہینے میں ہمارے مغفرت ہوجائے۔
دل میں پھر سے خوشیوں کا پیغام آرہا ہے
مبارک ہو مئومنوں رمضان آرہا ہے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.