صلہ رحمی : دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجئے رشتہ

ڈاکٹر سلیم خان

اپنے حسب و نسب کی معلومات انسان کی ایک فطری خواہش ہے۔ نبی کریم ؐ نے بھی فرمایا نسب کی معلومات حاصل کرو۔ اس فقرے سے ذہن میں کئی سوالات پیداہوتے ہیں مثلاًآخر اس کا کیا فائدہ؟ بلکہ کئی نقصانات بھی سجھائی دیتے ہیں جیسےاگر انسان کو اپنے آباو اجداد کےمقام ِ بلند کا علم ہو جائےبعید نہیں کہ وہ کبرو غرور میں مبتلا ہوکر دوسروں کو اپنے سے کمر اور خود کو بہتر سمجھنےلگےحالانکہ اس برتری میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خوشنما ماضی کا تصورا سے حال اور مستقبل سے غافل کردے ۔ ان سارے مسائل کاحل حدیث مبارکہ کے اگلے حصے میں ہے جہاں فرمایا گیا ‘تاکہ تم صلہ رحمی کرسکو ’۔ یہ تلقین انسان کو ماضی کے نہاں خانوں سے حال کی پتھریلی زمین پر لے آتی ہے اوروہ خیالی تفاخر سے نکل کر عملی دنیا میں آجاتاہے ۔ یہ حدیث جس ذمہ داری کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس میں دنیوی خیرو برکت اور آخرت کی فلاح و کامرانی مضمرہے۔

ایک بندۂ مومن صلہ رحمی کے پیش نظر اپنے آس پاس نظر دوڑا کر ان لوگوں کو تلاش کرتا ہے جو اس کی توجہات کے مستحق ہوتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے اس کے اندرفخرو کبر کے سفلی جذبات نہیں بلکہ شکرو رحم کےاعلیٰ اوصاف پیدا ہوتے ہیں ؟ وہ اپنے اعزہ و اقرباء کی خدمت میں لگ جاتا ہے۔ ہمدردی و غمخواری کے مستحق تو ویسے عامتہ الناس ہیں لیکن رشتے داروں کی مدد کرنا سہل ترہے۔ اس سے اگرجذبۂ تعاون کی ابتدا ہوجائے تو اسے بہ آسانی وسیع کیا جاسکتا ہے۔ مالی اعتبار سے کمزور رشتے داروں پر حتی الامکان انفاق کیا جانا چاہیے لیکن ان میں ایسے بھی لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں عملی تعاون درکار ہو۔ وقت نکال کر ان کےکام کردینا بلکہ ان کے پاس بیٹھ کر ان کی باتوں کو سننا اور دلجوئی کرنا بھی صلہ رحمی میں شامل ہے۔ فرمانِ ربانی ہے ‘‘اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو۔’ یعنی جولوگ اپنا مال اور وقت ضائع کرتے ہیں وہ صلہ رحمی کا حق نہیں ادا کرسکتے نیز یہ ان کا حق ہے ۔اس لیےبندۂ مومن صلہ رحمی پر نہ احسان جتاتا ہے اورنہ احسانمندی کی توقع رکھتا ہے۔اس حکم کی بجاآوری وہ صرف اور خوشنودیٔ رب کی خاطر کرتا ہے ۔

حدیث نبویﷺ ہے: وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے،بلکہ وہ ہے،جو قطع رحمی کیے جانےپر بھی صلہ رحمی کرے۔اس حسن سلوک کا حقیقی بدلہ تو آخرت میں محفوظ ہے لیکن اس کا فوائد وہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دنیا میں بھی اس کی بشارت ہے ۔ حدیث میں آتا ہے ‘‘جو اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اور لمبی عمر پانے کا خواہش مند ہو، تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ صلہ رحمی کی خیرو برکت سے انسان کم مال سے زیادہ فائدہ اوراضافی خوشی حاصل کرتاہے ۔وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کرکے اجر عظیم کا مستحق بن جاتا ہے۔ صلہ رحمی کا یہ دنیوی فائدہ محرومینِ ایمان پر بھی محیط ہے ۔ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی ایک قوم کو ان کے علاقوں میں آباد کرتا ہے، اور ان کے اموال میں بھی اضافہ فرماتا ہے ؛ حالانکہ اللہ تعالی نے ان سے نفرت کی بنا پر ان کی طرف کبھی نظرِ رحمت سے نہیں دیکھا ہوتا۔ سوال کیا گیا : اے اللہ کے رسول ؐ !یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا:ان کے صلہ رحمی کرنے کے سبب ۔ عام لوگوں کایہ فائدہ ہے مگر اللہ کے مقرب بندوں کے لیے خوشخبری اس حدیث قدسی کے مکالمہ میں دیکھیں : ‘‘تخلیق کائنات کی تکمیل کے بعد رشتہ داری سےاللہ تعالیٰ نے عرض کیا ‘کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے (تعلق)جوڑوں جو تجھ سے جوڑے اور اور اس سے قطع (تعلق )کروں جو تجھ سے قطع کرے(توڑے)، رشتہ داری نے عرض کیا کیوں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بس تجھےیہ حاصل ہے۔یعنی صلہ رحمی مخلوق کے ساتھ ساتھ خالق کائنات سے بھی جڑ جانے کا بہترین وسیلہ ہے۔

قطع رحمی کریں گے وہ صلہ رحمی کریں گے ہم

محبت کرنے والوں کا یہی انداز ہوتا ہے

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.