آرٹیکل 370 کا خاتمہ؛ کشمیر کا کیا ہوگا؟

شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
آرٹیکل 370 کا خاتمہ آئینی ہے یا غیرآئینی؟
اس سوال کا جواب تو ماہرین ہی دے سکتے ہیں یا پھر سپریم کورٹ، لیکن ایک عام شخص یہ تو سمجھ ہی سکتا ہے ۔۔۔ اور کہہ بھی سکتا ہے ۔۔۔ کہ ریاست کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کسی انسانی جسم سے روح نکالنے کے مترادف ہے ۔ کچھ لوگ اس روح کو ’ کشمیریت‘ کا نام بھی دیتے ہیں ۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’ را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کے مطابق مرکز کی نریندر مودی سرکار کے اس عمل نے ’’ کشمیری سائیکی کو اس شدید طور پر متاثر کیا ہے ، اب ہم کشمیریت کو الوادع کہہ سکتے ہیں ، میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آج بھی کشمیریت زندہ ہے، آج ہم نے اسے دفن کردیا ہے ۔‘‘
یہ ’کشمیریت‘ کیا ہے ؟
میں جب پیچھے گھوم کر کشمیر میں اپنے گذرے چند دنوں کو دیکھتا ہوں ۔۔۔ میرا دوبار وہاں جانا ہوا ہے ۔۔۔ تب جس ’ کشمیریت‘ کا ذکر کیا جارہا ہے وہ میری نظر کے سامنے ٹھوس شکل میں آموجود ہوتی ہے ۔ گلمرگ جاتے ہوئے ، ہمارا ۔۔۔ ہمارے ساتھ کئی انگریزی اور مراٹھی اخباروں کے صحافی بھی تھے ۔۔۔ گذر ایک گاؤں سےہوا ، کشمیر کے گاؤں ملک کی دوسری ریاستوں کے گاوؤں سے کچھ ہٹ کر نہیں ہیں ۔۔۔ اس گاؤں میں ایک خوبصورت سے مندر نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ، تلک اور جنیودھاری ایک نوجوان برہمن بھی نظر آیا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ گاؤں مسلمانوں کا ہے ، اور کبھی اس گاؤں میں اچھے خاصے پنڈت رہا کرتے اور اسی مندر میں پوجا ارچنا کرتے تھے ۔ پنڈت تو نہیں رہے کہ اس وقت کے کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر جگموہن نے انہیں کشمیر سے نکال باہر کیا تھا لیکن مندر اور پنڈتوں کے گھر رہ گئے ۔۔۔ ان مندروں اور گھروں کی حفاظت کشمیری مسلمان کرتے رہے ہیں ۔ اس گاؤں کے مندر کی بھی ، اورپنڈتوں کے بند پڑے گھروں کی بھی ، دیکھ ریکھ مسلمان ہی کرتے تھے ۔۔۔ ایک نوجوان پنڈت کو کہیں سے بلالیا گیا تھا جو مندر ہی میں رہتا تھا اور مندر کی صفائی وغیرہ کا خیال رکھتا تھا۔۔۔ سارے کشمیر میں ایسا ہی تھا ۔ اور یہی وہ عمل ہے یا وہ عمل تھا جسے ’ کشمیریت‘ کہا جاتا ہے ۔۔۔ اسی سفر میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر بہت سے عالیشان مندر دیکھے ۔ چند ایسے ہندوؤں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جن کی ’شناخت‘ ایک ہندو کے نہیں ایک کشمیری کے طور پر تھی ، اسی کو ’ کشمیریت‘ کہا جاتا ہے ۔۔۔ کسی زمانے میں کشمیر میں اگر مسجدوں سے اذانیں گونجتی تھیں تو مندروں سے شنکھ اور گھنٹیوں کی آوازیں بھی آتی تھیں ، اگر کوئی ہندو میلہ لگتا تھا تو مسلمان اس میلے میں اگر جاتے تھے تو سبزی کھاکر ، گوشت کھاکر نہیں ، یہی وہ عمل ہے یا وہ عمل تھا جسے’ کشمیریت‘ کہا جاتا ہے ۔۔۔ اور یہ ’ کشمیریت‘ ابتک نہ صرف کہ زندہ تھی بلکہ ایک امید بندھائے ہوئے تھی کہ کسی نہ کسی دن پنڈت واپس کشمیر لوٹیں گے اور کشمیرکے ہندو اور مسلمان مل کر کشمیرکو پرانی ڈگر پر لے آئیں گے ۔ لیکن بقول اے ایس دلت آرٹیکل ۳۷۰ ہٹاکر ’’آج ہم نے اسے دفن کردیا ہے ۔‘‘
کشمیر کی ملی جلی تہذیب وثقافت کی بنیادی وجہ وہاں ڈوگرا خاندان کا راج رہا ہے ۔ راجہ ہری سنگھ کا ہندوستان سے الحاق ’ مشروط‘ تھا۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ۱۹۴۷ء میں ملنے والی آزادی اور تقسیم کے المیے سے گذرنے کے بعد شاہی ریاستوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ چاہیں تو ہندوستان سے الحاق کرلیں یا پاکستان سے ، راجہ ہری سنگھ نے چند ’ شرائط‘ پر ہندوستان سے الحاق کیا تھا۔ جو شرائط تھیں وہ درج ذیل ہیں۔۔۔
ے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت ہندوستانی پارلیمنٹ کو جموں وکشمیر میں محض دفاعی ، خارجی اور مواصلاتی امور میں قانون بنانے کا اختیار ہے ۔ مرکز کو دیگر امور میں قانون کو نافذ کروانے کے لئے ریاستی حکومت کی منظوری مطلوب ہے ۔
ے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں وکشمیر ریاست پر ۱۹۶۷ء کا شہری زمینی قانون نافذ نہیںہوتا جس کی وجہ سے ملک کی دیگر ریاستوں کے عوام جموں وکشمیر میں زمین نہیں خرید سکتے ۔
ےچونکہ آرٹیکل ۳۷۰ مرکز کو سوائے دفاعی، خارجی اور مواصلاتی امور کے دیگر امور میں قانون سازی سے روکتا ہے اس لئے جموںوکشمیر ریاست پر آئین کی دفعہ ۳۵۶ نافذ نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے صدر جمہوریہ کے پا س ریاست کے آئین کو ختم کرنے کاکوئی حق نہیں ہے ۔۔۔ یہی نہیں مرکز کو آئین کی دفعہ ۳۶۰ کے تحت ملک میں آئینی ایمرجنسی کے نفاذ کا جو حق ہے، جموں وکشمیر ریاست میں وہ حق حاصل نہیں ہے ۔
ےآرٹیکل ۳۵( الف) ریاست جموں وکشمیر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ طے کرے ریاست کا شہری کون ہے ، کسے سرکاری نوکریوں میں خصوصی ریزرویشن دیا جائے ، ریاست میں جائیداد کون خریدسکتا ہے ، کن افراد کو اسمبلی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے ، اور کون ہیں جو اسکالر شپ اور دیگر عوامی تعاون اور سماجی فلاح وبہبود کے پروگراموں کا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ آرٹیکل جموں وکشمیر کو ایک خصوصی ریاست کا درجہ دیتا ہے اور ریاست کے ’ مقامی باشندوں‘ کو خصوصی حقوق ۔۔۔
مذکورہ شرائط کی روشنی میں یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ مرکزی سرکار نے ایک ایسے ’ قانونی معاہدے‘ کو جس نے جموں وکشمیر کو ہندوستان کے آئین سے باندھ رکھا تھا ، جموں وکشمیر کے قائدین کی مرضی کےخلاف اور انتہائی غیر جمہوری انداز میں ختم کردیا ہے ۔ غیر جمہوری انداز اس لئے کہ یہ سارا عمل ریاست میں جو کہ پہلے ہی لاکھ سے زائد فوجیوں سے اٹاپڑا ہے ، مزید ۴۳ ہزار فوجیوں کو پہنچاکر اورقائدین کو ، جن میں سیاست داں بھی شامل رہے ہیں ، حراست میں لے کر اور ریاست کے لوگوں کو انٹرنیٹ اور فون کی خدمات سے محروم کرکے ، کیا گیا ۔ انتہائی افسوسناک امرتو یہ ہیکہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے آرٹیکل ۳۷۰ کے ختم کرنے کی وجوہات اور اس کے ریاست پر ’ مثبت نتائج‘ اور ’ اثرات‘ کو اُجاگر کرنے کے لئے قوم سے جو خطاب کیا کشمیری اسے بھی سُننے سے تقریباً محروم رہے۔۔۔!!
آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد حالانکہ وزیراعظم مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں کو یہ یقین دلایا ہیکہ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمہ سے ریاست میں ، جسے کہ اب دوحصوں لداخ اور جموںوکشمیر میں تقسیم کرکے مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقوں ، یعنی یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کردیا گیا ہے ، ’ امن‘ کی فاختہ اڑتی پھرے گی ۔۔ ان کے بقول آرٹیکل ۳۷۰ اور آرٹیکل ۳۵(الف) جموں وکشمیر میں ساری خرابیوں کی جڑ تھے ، ان ہی کی وجہ سے دہشت گردی تھی ، کرپشن تھا، بھائی بھتیجہ ہ واد تھا اور علیحدگی پسندی تھی مگر اب مرکز کے زیرانتظام جموں وکشمیر میں ترقی ہوگی، لوگ آگے بڑھ سکیں گے اور نوجوان قیادت ابھر کر سامنے آئے گی یہاں تک کہ جموں وکشمیر کو پھر سے ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا ۔۔۔ سینئر صحافی نلنجن مکھوپادھیائے کے مطابق یہ ’ سیاسی تقریر‘ تھی۔۔ اور سیاسی تقریرکیوں نہ ہو، ملک کے وزیرداخلہ امیت بھائی شاہ کا پارلیمنٹ میں آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا اعلان بی جے پی کے انتخابی منشور کے ایک وعدے کی تکمیل ہی تو ہے ! بلکہ ایک ’ سیاسی وعدے‘ کی تکمیل ۔۔۔ اور یہ ’ سیاسی وعدہ‘ کہیں اور سے نہیں آر ایس ایس کے فکری مواد سے ہی نکلا ہے ۔ آر ایس ایس نے کبھی نہیں چاہا کہ جموں وکشمیر کو کوئی خصوصی درجہ حاصل ہو ۔۔۔ اور اس کی یہ خواہش اب جاکر پوری ہوئی ہے ۔ حالانکہ اس خواہش کی تکمیل کی سمت قدم کانگریس کے دور میں اٹھ چکے تھے کہ کانگریس کے دور ِ حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر مختلف قوانین میں کی جانے والی ترمیمات کا جموں وکشمیر کی منظوری سے وہاں نفاذ ہوتا رہا ۔جموں وکشمیر کی خودمختار ی کے جو ۹۷ شعبے ہیں ان میں سے ۹۴ شعبوں میں مرکزی حکومت کے قوانین نافذ تھے ، پر کانگریس نے کبھی بغلیں نہیں بجائیں ، جبکہ آج بھلے ہی مودی بغلیں نہ بجارہے ہوں، بی جے پی بغلیں بجارہی ہے ۔۔۔ اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے ’ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت‘ کا نعرہ دیا تھا، انسانیت تو کشمیر میں گذشتہ پانچ برسوں میں بری طرح سے دم توڑ چکی ہے اس کا ثبوت نوجوانوں کے چھروّں کی ما ر سے چھلنی چہرے اور بے نور آنکھیں ہیں ، جمہوریت دھیرے دھیرے دم توڑتی رہی اور اب کشمیریت بھی دفن کردی گئی ہے ۔۔۔
مودی نے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے امن کی بات کی ہے پر وہاں احتجاج ابھرآیا ہے اور لوگ شدیدتشدد کے اندیشے کا اظہار کررہے ہیں ۔ کیا کبھی کسی کو تشدد سے دبایا جاسکا ہے؟ مودی نے اپنےخطاب میں بی جے پی کے ان عناصر کی سرزنش نہیں کی جو یوں باتیں کررہے ہیں جیسے کہ اب کشمیر ان کی جائیداد بن گیا ہے اور وہ کشمیریوں کو بے دخل کرکے وہاں زمینیں خریدیں اور صنعتیں لگائیں گے اور ’کشمیری لڑکیوں‘ کو ’لائیں‘ گے ، ان عناصر میں ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر بھی ہیں ۔ نہ ہی مودی کی زبان پریہ تھا کہ جموں وکشمیر سے فوجوں کو کب ہٹائیں گے اور کب اسے ریاست میں تبدیل کریں اور وہاں کے مقبول عام قائدین کو آزاد کریں گے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کشمیر اور کشمیریوں کی ’ شناخت ‘ پر راست حملہ ہیں ۔ یہ ’ کشمیریت‘ پر بھی حملہ ہیں ۔ اور یہ کشمیر کے خوبصورت وجود کے لئے بھی خطرے کی علامت ہیں ۔ مجھےیاد آرہا ہے کہ لال چوک میں مختلف اخباروں کے دفاتر میں لوگوں سے ملاقات کے دوران ایک صحافی نے کہا تھا کہ اب کشمیر بھی آلودہ ہورہا ہے ، افواج نے جگہ جگہ قبضے کرلئے ہیں، یہاں کے قیمتی درختوں کو کاٹ کاٹ کر پیسے کمارہے اور ماحولیات کو خراب کررہے ہیں ، یہ کہیں بھی بول وبراز کردیتے ہیں جس سے یہاں کا شکر سے بھی میٹھا پانی گدلا ہورہا ہے ۔ ۔۔۔ اب تو کشمیر سب کے لئے کھل گیا ہے ، تو کیا اب کشمیر وہ جنت نظر کشمیر نہیں رہے گا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے
اگرفردوس برروے زمین است
ہمین است و ہمین است وہمین است
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.