جنہیں ہے شوق کہ کھیلیں وطن کی عصمت سے

محمد انس عباد صدیقی
(مکہ مکرمہ سعودی عرب )
ہم مسلم قوم ہیں ہمارے وجود کی بنیاد صداقت وسچائی , محبت وھمدردی , وفاء شعاری اور انسانیت نوازی پہ ہی رکھی گئ ہے اسلام ہی پوری دنیا میں ایساپاکیزہ مذہب ہے جس نے سب سے پہلے دنیا میں انسان کو انسانیت کی راہ دکھلائی اور ایساجامع قانون ودستور دیا جس میں انسانیت کی بقاء اور فلاح وبہبود کاراز مضمر تھا
ہندوستان کے چپے چپے اور اس کے سینے کی ایک ایک جگہ پہ ہماری محبت والفت کے نشان ثبت ہیں ہم نے تو اس ملک کو گل گلزار بنایا تھا انصاف پسند آنکھیں اگر عدل ومساوات کی عینک لگاکر تاریخ ہند کا مطالعہ کریں گی تو ضرور ان ہیں ورق ورق پہ ہمارے ایثار وفاء خلوص وارتقاء کے روشن کارنامے ملیں گے
بدقسمتی کہئے یا قدرت کی آزمائش کانام دیجیئے ہمارے اس جنت نشان ملک کی خوبصورتی اس کے قدرتی حسن ومناظر کو سرکش قوم انگریز کی آنکھ لگ گئ وہ بدطینت قوم اپنی دسیسہ کاری کے بل پہ ہمارے ملک کے عنان حکومت پہ قابض ہوگئے اور مسلسل اپنی طاقت و قوت سے اس ملک کے حقیقی شہریوں کو غلامانہ زندگی گزارنے پہ مجبور کر کےان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کوروا رکھا!!!
اس ملک میں ہمارے مذہبی ثقافت , دینی شعار اور گنگاجمنی تہذیب کو مٹانے کے فرامین جاری ہونے لگے ہمارے اس ملک کی ترقی اور یہاں کی دولت اپنی عیش کوشی اور اپنی گندی ذہنیت کے فروغ کےلئے استعمال کرنے لگے
توسب سے پہلےاس ملک کے علماء کرام نے آزادی کی فضاء ہموار کی مسلسل تگ ودو اور جدوجہد کے ذریعہ عوام کو آزاد انسان بن کر زندگی گزارنے کی راہ دکھلائی بلکہ حقیقی آزادی کاتصور عام کیا1857عیسویں میں دومحاذ بنائے گئے ایک شاملی میں جس کی قیادت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۂ اللہ فرمارہے تھے اس محاذ پہ جنگ کرنے والے ہندوستانی علماء کرام کی ایک بڑی جماعت تھی بلکہ ان ہی پاک بازوں کی اولعزمی اور جان سوزی کی وجہ کر انگریز سے محاذ آرائی کا حوصلہ ملاتھا اس جنگ میں مولاناقاسم نانوتوی مولانا رشید احمد گنگوہی حافظ ضامن شہید رحمہم اللہ وغیرہ تھے
اور دوسرا محاذ انبالہ میں تھا جسکی قیادت مولاناجعفر تھانیسری رحمہ اللہ فرمارہے تھے
اس جنگ میں بدقسمتی سے ہزیمت اٹھانی پڑی
اس جنگ کی ناکامی کے فوراً بعد ملک کی تہذیب وتمدن کی بازیابی اور ملک کوانگریزی وجود سے پاک کرنے کیلیے مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے دیوبند میں ایک ایسے تعلیمی وتربیتی قلعے کی بنیاد رکھی جہاں سے ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں نے اس ملک کی آزادی کیلیے وہ کارنامے انجام دئیے ہیں کہ تاریخ میں ملک کے آزادی کے سلسلے میں ایسی مثالیں تلاشنے سے بھی نہیں ملے گیں مولانامحمود الحسن جسے شیخ الہند کے نام سے جانا جاتا ہے یہ دارالعلوم کے پہلے سپوت ہیں جنہوں نے ریشمی رومال تحریک کا آغاز کیاتھا مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا حسین احمدمدنی کی عزیمت وبہادری کے تذکرے سے تاریخ آزادئ ہند کے ورق روشن ہیں
انگریز 15 اگست 1947 عیسوی تو اس ملک کو چھوڑ گیا لیکن اپنا مکر ,اپنی دسیسہ کاری, عیاری اور فریب وفتنے کی راہ ہموار کرگیا ایک ایساملک چھوڑ گیا جہاں آزادی کی طلوع سے خون سے یہ ملک لالہ زار بناہوا ہے ملک کو صرف دوٹکروں میں اس مکار قوم نے نہیں تقسیم کیا بلکہ ابدی بغاوت ودشمنی کی لکیر چھوڑ گیا ایک ایسا شوشہ چھوڑ گیا جس کی وجہ سے یہ ملک ہمیشہ اسی شوشے کی گیسو کوسلجھانے میں لگاہوا ہے
اب جبکہ ملک آزادی کے سترویں سال کی جشن کی تیاری میں لگاہوا ہے بہت چوبھتا ہوا سوال ہے کہ کیا یہ ملک آزاد ہے ؟؟؟؟
کیا اس ملک میں ایک ایسی ناپاک طاقت تو نہیں دندنا رہی ہے حس نے ملک کو ہمیشہ توڑنے کی کوشش کی ہے؟؟؟ ی
یہ ملک تو سیکولر ہےنا جمہوریت اس ملک کی شان ہے نا؟؟؟
لیکن اس ملک کو ایک خاص نظریے کے حامل خون سے رنگنے کے درپہ ہے یا نہیں ؟؟؟؟
جمہوریت خطرے میں ہے مسلمانوں کو شک کی نگاہ سےدیکھا جارہاہے آزادئ وطن میں ہمارے کردار سے انکار کیاجارہاہے ہے حالانکہ یہ ملک ہمارا ہے ہم نےاس ملک کو آزاد کرایاہے لال قلعہ کی مضبوطی ہماری یادگار ہے تاج محل کی خوبصورتی ہماری شاہکار ہے قطب مینار کی بلندی ہماری وفاء کی گیت گارہی ہے جامع مسجد دہلی کی پاکیزگی ہماری تہذیب کو لوری دے رہی ہے سونے کی چڑیاء اس ملک کو ہم نے بنایاتھا
یہاں گنگا کی روانی ہے کوسی اور ستلج کی جوانی ہے من موہن جھیل اور آبشار ہیں اونچے اونچے پربت ہیں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں سب کے اپنے اپنے سنسکار ہیں کوئی ایک خدا کو مانتا ہے تو کوئی سینکڑوں دیوی دیوتا کا پجاری ہے سب اپنےاپنے ہردے کی شانتی کے لئے پن اور نیکی کا سامان تلاش تا ہے یہی ہمارے ملک کی شان ہے.. یہی ہماری روایت رہی ہے
لیکن کیا ایک مخصوص نظریئے کے حامل افراد کو یہ بھارہاہے……..
جنہیں ہے شوق کہ کھیلیں وطن کی عصمت سے
انہیں کادعوی ہے کہ وطن ہمارا ہے….
Comments are closed.