مولانا سلمان ندوی اور ماضی قریب کے” تاریخی حقائق”

مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مولانا سلمان ندوی کو ـ ـ ـ ہوگیا ہے انھوں نے ایک نیا شگوفہ چھوڑ دیا ہے، ساتھ ہی انھوں ایک ویڈیو بھی بھیجا ہے، ویڈیو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس میں صرف ایک شگوفہ نہیں بلکہ کئی "عبرتناک شگوفے ” ہیں ـ
ویڈیو میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے مولانا مودودی سے متعلق ان سے سوال کیا ہے، ( ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیئے کہ واقعی سوال کیا گیا ہوگا ـ) اس کے جواب میں مولانا نے جو گل افشانی فرمائی ہے وہ انتہائی حیرتناک ہے ـ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو صدیوں پرانے ” تاریخی حقائق ” تو ازبر ہیں مگر ماضی قریب اور سامنے کی تاریخی حقیقتیں ذہن سے نکل گئی ہیں ( یہ سمجھنا تو ایک عالم کی شان میں گستاخی اور بد گمانی ہوگی کہ موصوف سے جان بوجھ کر غلط بیانی صادر ہوگئی ہے)
ابتدا میں انھوں نے مودودی صاحب کی تعریف کرتے ہوئے ان کی وسعت نظری، مطالعہ، الجہادفی الاسلام اور پردہ جیسی کتابوں کا تعارف کرایا ہے، پھر اس کے بعد مودودی صاحب کی تصنیف ” خلافت وملوکیت ” پر آگئے ہیں، فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں چونکہ صحابیت کے سلسلے "عام علماء ” کے رجحان اور ان کی فکر کے خلاف باتیں تھی، تحریر میں شدت بھی تھی اس لئے علماء دیوبند اور سہارنپور نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا، چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ زکریا نے ان کے خلاف کتابیں لکھیں ـ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ مولانا تھانوی اور مولانا عبد القادر رائے پوری خاموش رہے انھوں نے خلافت و ملوکیت کی حمایت یا مخالفت میں کچھ نہیں لکھا ـ
مولانا سلمان ندوی کو یا تو معلوم نہیں تھا یا وہی ماضی قریب کی "تاریخی سچائیوں ” کو بھولنے کی عادت، ……. مودودی صاحب کی خلافت وملوکیت 1965 میں ان کے رسالے ترجمان میں قسط وار چھپنا شروع ہوئی تھی اور 1966 یا 1967 میں کتابی شکل میں شایع ہوئی ـ حضرت تھانوی کا وصال اس سے کہیں پہلے 1943 میں ہوچکا تھا، حضرت مدنی کی وفات 1957 میں ہوئی اور حضرت رائے پوری نے 1962 میں رحلت فرمائی ہے ـ کتاب چھپنے سے پہلے یہ حضرات اس کتاب پر کیسے تنقید وتبصرہ کرسکتے تھے یہ شیخ سلمان صاحب ہی بتا سکتے ہیں ـ
دوسری قریبی سچائی جو شیخ کے ذہن میں نہیں رہی کہ مودودی صاحب اور علماء کا اختلاف ان کے افکار اور نظریات کو لے کر خلافت ملوکیت کی اشاعت سے قبل سے ہی رہا ہے، چنانچہ حضرت مدنی نے اپنی وفات سے قبل ” مودودی دستور وعقائد کی حقیقت ” نامی رسالہ تحریر فرمایاتھا، مولانا علی میاں اور مولانا منظور نعمانی، امین احسن اصلاحی جیسے علماء بھی اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہی مودودی صاحب سے الگ ہوچکے تھے ـ
آگے مودودی صاحب کی سیاسیات کا ذکر کرتے ہوئے سلمان صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستانی انتخابات میں مولانا مودودی نے محمد علی جناح کی بہن ( مولانا سلمان ان کو جناح کی بیٹی بتاتے ہیں) فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی اس کی وجہ سےبھی مودودی صاحب کو ہند وپاک میں روایتی علماء کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ـ …….. آگے مولانا نے علماء پر طنز کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہی علماء جوفاطمہ جناح کی حمایت پر مودودی صاحب کے خلاف ہنگامہ کررہے تھے سب بے نظیر بھٹو، حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کے ساتھ بیٹھے نظر آئے ـ
ہندوستانی سیاست میں مولانا نے جمیعۃ علماء کا نام لیا اور حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب پر بغیرنام لئے یوں تیر اندازی فرمائی، کہ جن کے والد محترم نے فاطمہ جناح کے سلسلے میں مودودی صاحب کی مخالفت کی تھی انھیں کے فرزند ارجمند نے اندرا گاندھی کی حمایت کی اور جب اندرا کو گرفتار کیا گیا تو ان کو بچانے کے لئے ملک بچاو تحریک چلائی جس میں علماء اور طلبا مدارس کا بھی استعمال کیاگیا، مولانا یہ آیت بھی پڑھی ہے ” تلک الایام نداولھا بین الناس ” ـ
یہاں پھر حد ادب کا خیال کرتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ پارہے ہیں کہ اتنا بڑاعالمی سطح کا نامور عالم ” تلبیس ” سے کام لےرہا ہے، مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ شاید مولانا کو اپنی ضروری وغیر ضروری مصروفیات کی وجہ سے مولانا مودودی کے افکار ونظریات سمجھنے کا موقع نہیں ملا ـ
حلانکہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کی غرض "حکومت الہیہ اور خلافت علی منہاج النبوت ” کا قیام رہا ہے، اور مولانا اپنے اسی نظریہ کی وجہ سے حضرت معاویہ، حضرت عثمان اور دیگر صحابہ پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ـ ……. اس لئے اگر کوئی اعتراض کرتا ہے کہ حکومت الہیہ کا سب سے بڑا داعی ایک عورت کو اسلامی مملکت کا سربراہ کیوں بنا رہا ہے تو اس میں کیا غلط ہے، ……اپنے اس اقدام کی مودودی صاحب نے جو صفائی دی ہے جس طرح دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اس میں بھی اہل نظر کے لئے کافی دلچسپی کا سامان موجود ہے ـ ……. اور صرف فاطمہ جناح کی حمایت ہی نہیں مودودی صاحب کے دوسرے بھی کچھ ایسے اقدامات تھے جو ان کے بنیادی نظریات سے میل نہیں کھاتے تھے، مثلا ایک اشپیشل ٹرین کے ذریعے پورے پاکستان میں غلاف کعبہ کی نمائش کرکے اپنے سیاسی استحکام کی کوشش، جبکہ وہ غلاف پاکستان ہی میں تیار ہوا تھا اور ابھی کعبے کو پہنایا بھی نہیں گیا تھا کہ کعبے کی برکت اس میں حلول کئے ہوتی، اس نمائش کے دوران کیا کیا نہیں ہوا، ہار پھول نقد،بوسے استلام یہ ساری تفصیلات اس زمانے کے اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہیں ـ
پڑوسی ملک کی سیاست سے متعلق ہمیں اور کچھ نہیں کہنا وہاں کی سیاست وہاں والے جانیں،……… مگر اپنے ملک کے تعلق سے ہم یہ ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک مذہبی بنیاد پر قائم نہیں ہے، یہاں ایک سیکولر دستور کے تحت سیکولر حکومت قائم ہے، یہاں سیاسسی اعتبار سے دیگر جمہوریتوں کی طرح مرد و عورت مساوی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں اگر کوئی خاتون کسی سیاسی پارٹی کی سربراہ یا حکومت کی سربراہی کرتی ہے تو کوئی تعجب نہیں ہے، اندرا گاندھی نے اپنی سیاسی پارٹی کی سربراہی بھی کی ہے اور ملک کی بھی، اگر ان کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لئے جمہوری طور پر احتجاج کرتا ہے، جیل جاتا ہے تو وہ اپنے جمہوری حق کا استعمال کررہا ہے، ویسے جب اندرا گاندھی کی ہندوستان میں حکومت تھی تو مولانا سلمان صاحب بھی بقید ہوش وحواس ہندوستان ہی میں تشریف رکھتے تھے، ہجرت نہیں فرمائی تھی، تاہم مولانا سلمان صاحب کو یہ حق ہے کہ حضرت مولانا اسعد صاحب سے اختلاف رکھیں ـ
مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ مولانا کی یادداشت یہاں بھی دھوکا دے گئی ہے، ابھی بے شمار لوگ حیات ہیں جو بتائیں گے کہ جب اندرا گاندھی کو گرفتار کیا گیا تھا تو کانگریس کے ایک رکن کی حیثیت سے مولانا اسعد مدنی صاحب احتجاجا جیل ضرور گئے تھے مگر علماء اور طلبا مدارس کا استعمال قطعی نہیں ہوا تھا یہ صریح غلط بیا نی ہے ـ
ہاں مولانا اسعد صاحب نے ملک و ملت بچاو تحریک ضرور چلائی تھی جس میں کثیر تعداد میں علماء وعوام نے حصہ لیا تھا، مگر وہ تحریک اندرا کی رہائی کے لئے نہیں تھی اندرا گاندھی ان دنوں جیل میں نہیں تھیں ـ
ہمارے قریبی احباب جانتے ہیں کہ ملک وملت بچاو تحریک جب چلائی گئی تھی تو ہمیں اس سے اتفاق نہیں تھا، حضرت مولانا اسعد مدنی کے بعض دیگر اقدامات کے بھی ہم ناقد رہے ہیں، مگر ” تاریخی حقائق ” کا اظہار بھی ضروری ہے اس لئے عرض کرتے ہیں کہ مولانا اسعد صاحب نے ملت کے کئی مطالبات کو لے کر چار مرتبہ ملک وملت بچاو تحریک کا اعلان کیا، ایک بار مرارجی ڈیسائی کے زمانے میں، دوسری بار چرن سنگھ، تیسری بار خود اندرا گاندھی اور چوتھی بار اٹل بہاری باچپئی کے زمانے میں …… جب بھی تحریک چلی اندرا گاندھی کبھی جیل میں نہیں تھیں ـ
اپنی اس تحریر کے آخر میں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ جلد ہی مولانا سلمان صاحب کا ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئے گا جس میں مولانا اپنے پورے جاہ وجلال، گرجدار الفاظ اور خطیبانہ آہنگ میں ایک بار پھر اپنی پچھلی باتوں کو دھرائیں گے اور پھر اس کو رجوع کا نام دے دیا جائیگا ـ
Comments are closed.