Baseerat Online News Portal

ملک میں اتحادی سرکاریں اور عوامی مینڈیٹ

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
مہاراشٹر میں لمبے سیاسی ڈرامہ کے بعد شیوسینا تیسری بار حکومت بنا چکی ہے۔ اس نے بی جے پی کے بجائے اس بار این سی پی اور کانگریس کی حمایت سے سرکار بنائی ہے۔ یہ صرف نئی سرکار ہی نہیں بلکہ نئے سیاسی تجربہ کی شروعات بھی ہے۔ جس میں پہلی مرتبہ ٹھاکرے خاندان سیدھے طور پر شریک ہوا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نومنتخب حکومت کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اسے ایک عجوبے کی طرح دیکھا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کے مزاج و سیاسی نظریہ پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ کیوں کہ ماضی میں شیوسینا اور این سی پی دونوں کے ہی کانگریس سے اختلافات رہے ہیں۔ اس لئے امید جتائی جا رہی ہے کہ تینوں پارٹیوں میں جلد پھوٹ پڑے گی جس کی وجہ سے حکومت چھ ماہ بھی نہیں چل سکے گی۔ بی جے پی جان بوجھ کر اس طرح کے پروپیگنڈہ کو ہوا دے رہی ہے۔ اس اتحاد سے گٹھ بندھن کی سیاست اپنے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جس کا ملک کی سیاست پر گہرا اثر مرتب ہوگا۔ مگر مہاراشٹر میں بی جے پی کی زمین کھسکنا اب طے مانا جا رہا ہے۔ جہاں وہ شیوسینا کو بڑا بھائی کہہ کر لگاتار اس کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
شیوسینا سے اتحاد سے پہلے مہاراشٹر میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ 1989 میں اس کا شیوسینا کے ساتھ اتحاد ہوا جو 2014 تک چلا۔ 1990 میں پہلی مرتبہ شیوسینا نے مہاراشٹر اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا اور 52 سیٹوں پر جیت درج کی۔ بی جے پی چھوٹے بھائی کی طرح اس کے ساتھ تھی۔ دو مرتبہ شیوسینا نے مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ پہلی بار شیوسینا کے منوہر جوشی اور دوسری بار نارائن رانے وزیر اعلیٰ بنے۔ اس دوران بی جے پی نے شیوسینا کے کندھے پر سوار ہو کر اپنی گرفت اتنی مضبوط کر لی کہ 2014 کا اسمبلی الیکشن اکیلے لڑنے کو تیار ہو گئی۔ شیوسینا نے بی جے پی کے ارادوں کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا لیکن اس کا اظہار 2019 کے اسمبلی نتائج سامنے آنے کے بعد اس وقت کیا جب شیوسینا نے ففٹی ففٹی کے فارمولہ پر حکومت سازی کی شرط رکھ دی جو بی جے پی کو منظور نہیں تھی۔ شیوسینا نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے ساتھ اس نے ایسا معاہدہ کیا تھا۔ حالانکہ بی جے پی نے اس طرح کے کسی بھی وعدے سے انکار کیا ہے۔
حکومت سازی کی بات بنتی نہ دیکھ بی جے پی نے صدر راج نافذ کر بلا واسطہ مہاراشٹر میں اپنی سرکار قائم کر لی۔ این سی پی کے اجیت پوار کی حمایت کا خط ملنے پر راتوں رات صدر راج ختم کر صبح ہی صبح پھڑنویس کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلا دیا گیا۔ اکثریت ثابت کرنے کے لئے اتنا وقت دیا کہ اس میں مشن لوٹس چلا کر اکثریت کا نمبر آسانی سے جٹایا جا سکتا تھا۔ گوا، کرناٹک، منی پور کی طرح یہاں بھی پھڑ نویس کی حکومت سازی میں گورنر کا رول اہم رہا۔ شیوسینا، این سی پی اور کانگریس نے اس نومنتخب حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ نے بی جے پی کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی کے ساتھ مہاراشٹر کے سیاسی ڈرامہ کا خاتمہ ہوا، شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔
بھارت کی سیاست میں حکومت سازی کے لئے ہم خیال جماعتوں کے ایک ساتھ ہونے کی بات اسی دن غیر اہم ہو گئی تھی۔ جس دن رام منوہر لوہیا کی قیادت میں سماجوادی اور جن سنگھ نے نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہونے کے باوجود غیر کانگریس واد کے نام پر اتحادی حکومت بنائی اور چلائی تھی۔ 1971 میں سماجوادی پریوار، جن سنگھ اور کانگریس سے نکلے ہوئے لیڈروں کی سوتنتر پارٹی نے مل کر گرینڈ الائنس بنا کر ایک ساتھ الیکشن لڑا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اندرا گاندھی کے سامنے یہ مہا گٹھ بندھن ٹک نہیں سکا۔ 1977 میں جنتا پارٹی کا تجربہ بھی نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک ساتھ حکومت بنانے کا تھا۔ وی پی سنگھ اور بی جے پی کا ملن اصول و نظریہ کے بجائے سیاسی ضرورت کی بنیاد پر تھا۔
پھر جب این ڈی اے اور یو پی اے کی شکل میں الگ الگ سیاسی جماعتوں کے گروپ متحد ہوئے تو تصوراتی تغیرات سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ یہ دونوں ہی الائنس لمبے وقت تک حکومت میں رہے اور ان کی سرکاروں نے اپنی میقات پوری کی۔ 1996 سے 2014 تک کسی بھی سیاسی جماعت کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ اس زمانہ میں مختلف پارٹیوں کے الائنس کی حکومت بنی۔ جن کے درمیان خیال کی ہم آہنگی نہیں تھی۔ یہاں بھی سماجوادی خیمہ کے جارج فرنانڈیز، شرد یادو، نتیش کمار اپنے مخالف نظریہ والی پارٹی بی جے پی کے ساتھ لمبے وقت سے سرکار میں رہے اور ہیں۔ پی ڈی پی اور بی ایس پی نے بھی بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور چلائی۔جبکہ ان کے درمیان اصول اور نظریہ کی ہم آہنگی نہیں تھی۔ کرناٹک اور ہریانہ اس کی تازہ مثال ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رشتے اب اقتدار کے سمیکرن کی بنیاد پر بن رہے ہیں، نہ کہ اصول و نظریہ کی بنیاد پر۔ اسی لئے حکومت سازی میں ہم خیال یا ہم نظریہ جماعت ہونے کا سوال غیر اہم ہو گیا ہے۔ اب شیوسینا کے معاملہ میں یہ بحث بے وقت کی راگنی جیسی ہے۔
البتہ خیالات میں تال میل نہ ہونے کی وجہ سے آپسی کھینچ تان اور کشمکش کا امکان بنا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی بار وقت سے پہلے سرکار گر جاتی ہے یا پھر گرادی جاتی ہے۔ مگر زیادہ تر سرکاریں اپنی میقات پوری کرتی رہی ہیں۔ بہار میں جے ڈی یو، بی جے پی کی حکومت اس کی مثال ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے خلاف اتحاد کی صورت میں بہتر کارکردگی کی امید کم اور عدم استحکام کا خطرہ زیادہ لاحق رہتا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں رائے دہندگان اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں اور وقت آنے پر دل بدل کرنے والوں کو سبق سکھاتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ میں پانچ ایسے لیڈر عوام کے بیچ چناؤ ہار گئے جو کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتے تھے، لیکن بعد میں پالا بدل کر دوسری پارٹی میں شامل ہو گئے۔ ان میں گجرات کے الپیش ٹھاکر کانگریس اور ادے راج بھونسلے این سی پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو کر اس کے ٹکٹ پر چناؤ لڑے اور ہار گئے قابل ذکر ہیں۔ آج عوام کافی سمجھدار ہے وہ اپنے مینڈیٹ سے لیڈران کی غلطی کو سدھار دیتے ہیں۔
سیاسی اتھل پتھل سے عوام میں پیدا ہو رہی مایوسی کو دیکھتے ہوئے جانکاروں کا یہ ماننا ہے، کہ الیکشن سے پہلے بنے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہئے۔ کیوں کہ عوام نے اتحاد کو مینڈیٹ دیا ہوتا ہے۔ انتخابی کمیشن نے اس سلسلے میں متعدد سفارشات حکومت کو بھیجی ہیں۔ اس پر کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ لیکن کئی مرتبہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے کا گٹھ بندھن باقی نہیں رہتا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف چناؤ لڑنے والی پارٹیاں مل کر حکومت بناتی ہیں۔ مہاراشٹر ان میں سے ایک ہے جہاں شیوسینا، این سی پی اور کانگریس نے کامن منیمم پروگرام کے تحت "مہا وکاس اگھاڑی” گٹھ بندھن بنایا۔ اس نئے سیاسی تجزیہ نے راج نیتی کے پنڈتوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ اس اتحاد سے قبل لمبے وقت تک تینوں جماعتوں کے درمیان بات چیت چل رہی تھی۔ دوستی قائم نہیں ہو رہی تھی، مگر جیسے ہی بی جے پی نے چالاکی کی، تینوں پارٹیاں ساتھ آگئیں۔ بحران میں ہوئی دوستی کے دیر تک چلنے کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ اگر یہ دوستی کامیاب ہوئی تو اس کی آہٹ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی سنائی دے گی۔ اس سے دیش کی سیاسی آب و ہوا ہی نہیں بدلے گی بلکہ سمت اور ماحول بھی بدل سکتا ہے۔

Comments are closed.