شہریت ترمیمی بل:مضمرات اور سوالات

مفتی توقیر بدر القاسمی
ڈایریکٹرالمرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا
تین دسمبر کی بات ہے،شام کو جب فیس بک آن کیا تو فیس بک پر ہمارے کرم فرما ابراہیم ندوی صاحب کا ہمارے نام مینشن کی ہوئی ایک پوسٹ نظر آئی،دراصل انہوں نے CAB یعنی سٹیزن امینڈمنٹ بل’’شہریت ترمیم مسودہ قانون‘‘کے ممکنہ انسداد کو لیکر اپنی وال پر راقم سے مشورہ طلب کیا،سو جو کچھ برجستہ وہاں لکھا،احباب کے اصرار پر وہ افادہ عام کی خاطر نیوز پورٹل کے حوالے کیا جارہا ہے۔
مشورہ نیچے تفصیل سے درج ہے!
’’راقم کا ماننا یہ ہے کہ اس شہریت ترمیمی بل کو روکنے کے لیے بنا وقت گنوائے سہ رخی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
الف :ہندو مسلم کا مسئلہ اسے قطعا نہ بننے دیا جائے، بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے پیش نظر اس کی دور رس مضرت رسانی کو عام عوام میں سادہ طریقے سے بتانے کی جو ضرورت ہے،وہ کیا جائے،یعنی ذہن سازی ان سوالات پر ہو کہ کیا سارے بنیادی مسائل حل ہوچکے ہیں؟نوجوان نسل کی نوکری، تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ کیا مہنگائی کا مسئلہ حل ہو چکا ہے؟جو اس طرح کے ابھی غیر ضروری کاموں میں سبھی کو الجھانے کی کوشش ہورہی ہے؟کیا غیر ملکی کو دھر پکڑ کرنے کے لیے دیگر ذرائع اور موثر عملہ نہیں ہیں؟آج جب کہ سرحد اور سرحدی قوانین،قوانین امن عالمہ اس قدر سخت ہیں،کہ کوئی پرندہ تک نہ پر مار سکتا ہے اور نہ کوئی بندہ چھپ سکتا ہے،تو پھر یہ لایعنی بحث کیوں؟اگر یہ ناگزیر ہی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ایک جمہوری ملک میں آئینی طور پر جہاں بھید بھاؤ نہ ہو،وہاں بھید بھاؤ کا بیج بو کر آپس میں اختلافات کو ہوا دیکر ہی اسکو بظاہر حل بباطن ایک مسئلہ بنادیا جائے؟اسکے بعد کیا NRC کا ہوا نہیں کھڑا ہوگا؟اس کی تیاری کے لیے کیا پھر سے سارا ملک لائن میں نہیں لگے گا؟بابوؤں کی رشوت کا بازار گرم نہیں ہوگا؟کیا اس معاشی بحران میں ملک آج یہ سب سہ سکتا ہے؟کم پڑتی مادی وسائل اور سکڑتی زمین پر ان باہری کو بسا کر مزید مسائل کیا پیدا نہیں ہونگے؟ آسام میں اسی کو لیکر سولہ سو کروڑ روپے کا خرچ اور شب و روز ہزاروں افراد کی کڑی محنت اور سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ سب یونہی کالعدم اور فالتو قرار دئیے جائیں گے؟کیا بہبود انسانی اور ترقی یونہی ہوتی ہے؟
ب :دانشورانہ سطح پر اس بیانیے کو عام کرنے کی ضرورت ہے،کہ آج جو امن و امان اور ترقی کے گن گان کو اس سے جوڑا جارہا ہے،کیا اسی طرح نوٹ بندی کے فوائد پر گن گان نہیں ہوا تھا اور کیا وہ سب فیل نہیں ہوگئے؟آسام میں جو جزوی طور پر ہوا ہے کیا اسکے نتائج سبھی کے لیے خوش کن ہیں؟آخر وہاں بی جے پی کی رکنیت رکھنے والے ہی اسے اب غلط نہیں ٹھہرارہے ہیں؟آج جس طرح سے فلاں فلاں ملک کے ستائے ہوئے کو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی بات کی جارہی ہے،تو کیا یہ اکیسویں صدی میں آج حلق سے اترنے والی بات ہے؟آخر بسائے جانے کی حد اور معیار عوام کے سامنے نہیں آنے چاہیے؟یہ جب ملک کے عوام پر اور وسائل پر لاکر دیگر ملکوں کے باشندے کو بسانا ہے،تو پھر اس پر عوامی رائے شماری اور ریفرنڈم کروانے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی؟کیا اس سے ملک کے مسئلے حل ہوں گے یا مزید پاؤں پساریں گے؟کیا ان ملکوں سے ذرا ذرا سی بات پر آنے والے کا رخ ملک عزیز کی طرف نہیں ہوگا؟ کیا اس ملک میں یہ خوش آئند ہوگا؟ کیا ظلم سہنے والے فقط 2014 تک کے ہی مانے جائیں گے؟آخر یہ کون سا پیمانہ ہے؟جہاں ایک مذہب والے ہوکر اپنے ہی ہم مذہب کو اپنے علاقے سے کھدیرتے رہتے ہیں!وہاں یہ سب ٹھنڈے پیٹ ہضم ہوجائےگا؟CAB کے بعد NRC کو لاگو کرنا،یہ ملک اپنے گرتے پھسلتے GDP پر اس طرح کے بوجھل و دیر پا خرچ والے اقدامات کو سہ سکتا ہے؟کیا یہ مزید مہنگائی اور بے روزگاری کے نتیجے میں کرپشن کی طرف ملک کو دھکیلنے والا اقدام نہیں؟
ج :ایوانی سطح پر سیکولر مزاج لیڈروں سے بات چیت کی جائے،انکی تیاری اس حوالے سے ہو کہ اس بل کا گن گان کرنے والی سرکار کیا واقعی ایسا کر سکتی ہے جو کنٹرول آبادی کا مسئلہ وقتا فوقتاً اٹھاتی رہتی ہے؟اور ایک طبقہ کو انکے افراد مستقل ٹارگٹ کرتے رہتے ہیں؟آخر کیا تک ہے؟اور وہ بھی اس گلوبل ولیج میں انسانیت کے بجائے مذہب کی بنیاد پر اسے اپنانا کیا یہ قابل قبول ہوگا اور آئندہ کے لیے خوش آئند؟کہیں ایسا تو نہیں کہ برادران وطن کے لئے یہ اقدام دیگر مسلم ملکوں میں نوکری سے لیکر رہائش تک سب پر اثر انداز ہو؟اگر واقعی یہ ناگزیر ہے تو انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں؟تاکہ عالمی توجہ کی حامل مظلوم روہنگیائی جماعت بھی اپنا حق پاسکے!آخر اس مسئلے کو اس طرح کیوں نہیں حل کرتے جس طرح پانی ہوا اور سرحد کے تنازعے حل کیے جاتے ہیں!
اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے عالمی فورم سے ان ملکوں کے پریشان افراد کے لیے وہاں کے ذمہ داروں سے انسانیت کے ناطے بات چیت کی جائے؟اور اپنے عملہ کو مزید ٹریننگ دیکر اس لائق بنایا جائے کہ وہ گھس پیٹھیے کو دھر دبوچیں!تاکہ ملک عزیز کا سر ساری دنیا میں فخر سے اونچا ہوسکے!آخر کام یوں بھی تو ہوسکتا ہے!اگر یہ بل پاس ہوگیا تو اسکا امکان نہیں کہ جعلی دستاویزات بنواکر دیگر ملکوں کے ہند مخالف دشمن عناصر خفیہ ایجنسی اور فوج تک اپنی رسای حاصل کر لے اور پھر ملک کے اہم اہم شعبے تک پہونچ کر یہاں کے راز وہاں پہونچائیں؟ اس لیے اسے ملک کے مفاد میں دیکھتے ہوئے سبھی کو آگے آنا چاہیے؟
خبر یہ بھی ہے کہ شمال مشرقی ریاست میں احتجاج دیکھ کر اس بل سے ان ناگالینڈ سمیت ریاستوں کو مستثنٰی کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے!تو کیا ان ریاستوں کے لیے کچھ اور،جبکہ بقیہ ملک کے لیے کچھ اور قانون یہ ’’ون نیشن ون لا‘‘ تھیوری کے خلاف نہیں ہے؟ إن تمام باتوں کو جس سطح سے بھی عام ہوسکے،اسے عام کیا جایے!
اسی دوران خبر یہ بھی آئی کہ کابینہ سے اس متنازع بل کو منظوری مل چکی ہے،کئی احباب اس کی الگ الگ توجیہ کرتے نظر آئے،جبھی راقم نے یہ اپنی ملت و قوم کے لئے تجویز اور توجیہ پیش کی!
’’کابینہ سے متنازع بل کی منظوری کے بعد اس کے پیچھے ارتدادی طوفان جو چھپا ہے،اسے بھی سمجھنے کی ہمیں رب کریم سے توفیق مانگنی چاہیے! ‘‘
بہرحال دنیا بھر کی سیاست و سیاست داں تو چانکیہ سے لیکر میکاولی تک کے فلسفہ طریقہ حکمرانی پر پہ شدت سے عمل پیرا ہیں!کہتے ہیں لوہے کو لوہا کاٹتا ہے،چناچہ اب سیاسی بساط سے اور پارلیمانی مہرے سے ہی اس کو مات دی جاسکتی ہے۔سبھی پارٹیاں سمیت جے ڈی یو،شیوسینا اور اے کے ڈی ایم جیسی سیکولر پارٹی کے سیکولر ذہنیت رکھنے والے سبھی لیڈران سے مکمل تال میل بٹھانے اور ان کے ممبران کے ذریعے دونوں ایوانوں میں اسے رکوا کر ملک و ملت پر احسان کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ملی و سیاسی قائدین جلسے جلوس اور فلاں چلاں مہم کے بجائے ترجیحی طور پر اس کام میں جٹ جائیں تو بڑا کام ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کبھی چانکیہ والا پھونکا ہوا فسوں ’’سام دام ڈنڈ بھید‘‘چلتا ہے،تو کبھی میڈیا کے ذریعہ اپنوں میں لومڑی تو غیروں کے حق میں ان بلوں اور لنچنگ کے ذریعے شیر بننے کی جو میکاولی والی نصیحت وہدایت اور روایت ہے،وہ کافی پرانی ہے!تاہم’’مکروا و مکرالله و الله خیرالماکرین‘‘کی حقیقت’’خلیفہ فی الأرض‘‘ کو’’انا نحن نزلنا الذکر و انالہ لحافظون‘‘کی عملی تصویر و تعبیر کے ضمن میں سمجھنا ہوگا!
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.