شہریت ترمیمی ایکٹ ملک کے تمام باشندوں کے لئے خطرناک

ـــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی

شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف بلا تفریق مذہب پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ـ
اس سلسلے میں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ موجودہ CAA اور آنے والے NRC کی وجہ سے صرف ملک کے مسلمانوں ہی کی بہت بڑی تعداد شہریت سے محروم ہوں گے ـ …………. حلانکہ ایسابالکل نہیں ہے، بلکہ وہ تمام غیر مسلم بھی شہریت سے محروم ہوجائیں گے جو کسی بھی وجہ سے ضروری دستاویز این آرسی محکمہ کے سامنے نہیں پیش کرسکیں گے ـ
موجودہ ایکٹ صرف غیرمسلم پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں اور افغانستانیوں کو ہندوستانی شہریت دینے کی یقین دھانی کراتا ہے، البتہ ہندوستان میں بسنے والے لوگ ( مسلم ہوں یا غیرمسلم) کی ہندوستانی شہریت کی کوئی گارنٹی نہیں دیتا ـ
اس ایکٹ کی دفعہ تین کی ذیلی دفعہ 2 اور 3 دیکھیں:

(2)Subject fulfilment of the conditions specified in section 5 or the qualifications for naturalisation under the provisions of the Third Schedule a person granted the certificate of registration or certificate of naturalisation under sub-section (l) shall be deemed to be a citizen of India from the date of his entry into India .
(3)On and from the date of commencement of the Citizenship (Amendment) Act,2019, any proceeding pending against a person under this section in respect of illegal migration or citizenship shall stand abated on conferment of citizenship to him:
ترجمہ
” (٢) سیکشن 5 کے تحت مذکور شرائط کے پائے جانے یا تیسرے شیڈول کے اندر ذکر کی گئی تفصیلات کے مطابق فطری طور پر اہل ہونے کی صورت میں وہ شخص جس کو زیلی دفعہ (l) کے مطابق رجیشٹریشن یا نیوٹریلائزیشن (شہریت) سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے اپنے ہندوستان میں داخل ہونے کی تاریخ سے ہندوستانی شہری شمار ہوگا ـ
(٣) جس دن سے شہریت ترمیمی قانون 2019 نافذ العمل ہوگا اس دن سے اس شخص پر سے وہ تمام عدالتی مقدمات جو اس کے غیر قانونی مہاجر ہونے یا شہریت کے تعلق سے چل رہے تھے اس کو شہریت ملنے کی وجہ سے ختم ہو جائیں گے ـ ”
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پشتہاپشت سے ہندوستان میں رہنے والے وہ تمام اشخاص جن کے پاس مناسب کاغذات نہیں ہیں وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم سب کے سب جہنم سے بدترڈیٹنشن سینٹرز بھیج دیئے جائیں گے ـ
اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ تمام پڑھے لکھے غیر مسلم خاص طور پر یونیورسٹیز کے طلبا اس ایکٹ کی زبردست مخالفت کیوں کررہے ہیں ـ
دراصل اس ملک میں بہت بڑی تعداد خانہ بدوش قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہے، ایک اندازے کے مطابق ہندو آبادی میں خانہ بدوشوں کی تعداد تقریبا تیس فیصد ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا اپنا کوئی مکان، کوئی ملکیت نہیں ہوتی، جب کوئی مکان ہی نہیں ہے تو ملکیت کے کاغذات کہاں سے آئیں گے، اور جب کاغذات ہی نہیں ہوں گے تو ہندوستانی شہریت کیسے ثابت ہوپائے گی، لہذا سب کے سب غیر ملکی اور گھس پیٹھئے ہی قرار دیئے جائیں گے ـ
اب سوال یہ ہے کہ سرکار ان کڑوڑوں لوگوں کو کہاں پھنکوائے گی ـ ان کڑوڑوں افراد کے لئے ڈیٹنشن سینٹر بنوانے کا پیسہ کہاں سے آئے گاـ

Comments are closed.