کیا سی اے اے + این آر سی (این پی آر) صرف مسلمانوں کے خلاف ہے؟

جب سے شہریت ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس ہوا ہے تب سے پورے ملک میں ہنگامۂ دار وگیر بپا ہے، یہ بل جس وقت صدر جمہوریہ کے دستخط سے قانون بنا اس وقت بھی پورا ملک صدائے احتجاج سے گونج رہا تھا۔ اس قانون میں چوں کہ صرف مسلمانوں کا استثنا کیا گیا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے،یہ قانون این آرسی سے مربوط ہے، اور این آر سی چور دروازے سے لائے جانے والے این پی آر سے مربوط ہے، اورسی اے اے + این آر سی (این پی آر) ہمارے دیش کے خلاف ہے اور دیش کے سبھی باشندوں کے خلاف ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔ آئیے اس کو قدرے تفصیل سے سمجھتے ہیں:
یہ دیش کے خلاف اس لیے ہے کہ یہ دیش کے دستور کے خلاف ہے، یہاں کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے، جمہوری اقدار کے خلاف ہے، ملک کی سالمیت کے خلاف ہے، گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہے، یہ قانون دیش کی جگ ہنسائی کا باعث بنے گا، اس سے کرپشن اور بڑھے گا،نفرت کا بازار گرم ہوگا۔
• یہ دستور کے خلاف اس لیے ہے کہ آرٹیکل 14، 15 کے خلاف ہے، ان آر ٹیکلز کے تحت مذہب کی بنیاد پر امتیاز ی سلوک کرنے کی اجازت نہیں ہے، جب کہ سی اے اے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو جواز دیتا ہے، مثلا آسام میں جو مسلمان این آر سی سے باہر ہوگئے انھیں ڈیٹنشن بھیج دیا جائے گا، خواہ اس میں سابق صدر جمہوریہ جناب فخرالدین صاحب کے گھر والے ہی کیوں نہ ہوں ، دوسری طرف جوغیر مسلم این آر سی سے باہر آئے ان کے لیے CAA کے ذریعہ شہری بننے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔اور یہ صرف آسام تک نہیں ہے بل کہ حکومت پورے دیش میں اس پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔
• یہ دیش کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے، ہمارا دیش سیکولر دیش ہے، یہاں ریاست وسیاست میں مذہب کو دخل نہیں دیا جاتا، تقسیم کے وقت ایک ملک مذہب کی بنیاد پر بنا تھا ، اس وقت بھارت کے مجاہدین آزادی نے یہ طے کیا تھا کہ یہ ملک ایک سیکولر ملک ہوگا، حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا؛ البتہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ CAA+NRC کے پیچھے جو سوچ کام کر رہی ہے وہ اس سیکولر دیش کو منووادی اور ہندو راشٹر بنانے کی سوچ ہے جو کہ اس ملک کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے۔
یہ قانون اس دیش کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف اس لیے بھی ہے کہ اس سے دھرم کی راج نیتی کو بڑھاوا ملے گا، جب مخصوص مذہب کے لوگ این آر سی سے باہر ہوجائیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ CAA کس دھرم پر زیادہ مہربان ہے، جس پر اس کی مہربانی بڑھی ہوگی لوگ وہ دھرم قبول کریں گے، اس طرح وہ ملک جسے انگریزوں سے چھین کر سیکولر بنیادوں پر کھڑا کیا گیا تھا اس میں انگریزوں کی دی ہوئی دھرم کی راج نیتی کا کھیل کھیلا جائے گا۔
• یہ ملک کی سلامتی کے خلاف ہے، اس سے ملک اندرونی وبیرونی خطرات سے دو چار ہوگا، بھارت دیش جن دشمن ملکوں کی نگاہوں میں کھٹکتا ہے وہ اپنے ہرکارے بھیج کر یا ان تین ملکوں سے آنے والوں کو خرید کر بھارت کی سالمیت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، جہاں تک اندرونی خطرے کی بات ہے تو ان تین ملکوں میں سے کسی ایک ملک سے آنے والا کوئی شخص اگر دستاویزی طور پر اپنے کو ان تینوں میں سے کسی ایک ملک کاباشندہ ہونا ثابت نہ کر سکا ، اور اسے شہریت نہ مل سکی تو وہ اس دیش کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ہم اس ملک کو ہمیشہ پر امن دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خطروں کی زد میں آئے اسی لیے ہم ان خطرات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
• یہ اس دیش کے جمہوری اقدار کے خلاف ہے، کیوں کہ یہ قانون اس دیش کی ایک بڑی آبادی کو دو نمبر کا شہری بنانے کی تیاری کے طور پر لایا گیا ہے، سنگھی نظریات کے حامل بعض افراد نے کھل کر لکھا ہے کہ یہ قانون ہندو راشٹر کی طرف پہلا قدم ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہندو راشٹر میں دوسرے نمبرکے شہریوں سے ووٹ دینے کا حق، اظہار رائے کا حق، مذہب پر آزادانہ عمل کا حق سب چھین لیا جائے گا جو جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
• یہ اس دیش کی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف ہے، یہ ملک ہمیشہ سے مختلف قوموں اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا گہوارہ رہا ہے، قدیم زمانہ سے لوگ دنیا بھر سے آکر اس ملک میں پناہ حاصل کرتے رہے ہیں، جس کسی نے بھی پناہ طلب کی بھارت نے اسے پناہ دی ، کبھی اس دھرتی نے کسی پناہ طلب کرنے والے سے اس کا مذہب نہیں پوچھا، ہمیشہ سے یہاں مختلف مذہب اور مختلف ذات کے لوگ افراد خانہ کی طرح اس ملک میں زندگی گذارتے آئے ہیں،یہ قانون اس گنگا جمنی تہذیب کے صاف پانی کو گدلا کرنا چاہتا ہے، اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو بانٹنا چاہتا ہے۔
• یہ دیش کے معاشی استحکام کے خلاف ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ جس این آر سی سے یہ قانون مربوط ہے اس کی کاروائی میں سرکار کا لاکھوں کروڑوں کا بجٹ خرچ ہوگا، ہمارے دیش کی معیشت پہلے ہی کافی گرچکی ہے، جب اس پر لاکھوں کروڑ کا بوجھ پڑے گا تو اس کی حالت چرمرا کے رہ جائےگی ، دوسرے اس وجہ سے بھی یہ معاشی استحکام کے خلاف ہے کہ دیش میں جتنے لوگ بستے ہیں انہی کو صحیح روزگار نہیں مل پارہا ہے، باہر سے آنے والوں کو اگر روز گار دیں گے تو اس کی مثال اس عورت کی سی ہوگی جو پڑوس کے بچے کو آگے بڑھ کر دودھ پلائے اور اپنے بچے کو بے رحمی سے روتا ہوا چھوڑ دے۔ ظاہر سی بات ہے کہ باہر سے آنے والوں کو روزگار وغیرہ کی سہولتیں دی جائیں گی تو ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔
• یہ دیش کی شفافیت کے بھی خلاف ہے،اس قانون کے ساتھ جب این آر سی یا این پی آر کا عمل شروع ہوگا تو کرپشن حد درجہ بڑھ جائے گا، لوگ اپنے کاغذات صحیح کرانے کے لیے رشوت دیں گے، نئے کاغذات بنانے کے لیے منہ مانگی رقم دینے پر مجبور ہوں گے، کسی بھی مملکت میں کرپشن کا بڑھناایسا ہی ہے جیسا کہ لکڑی میں گھن لگنا، ظاہر سی بات ہے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
• یہ دیش کے وقار کے خلاف ہے، یہ دیش کی جگ ہسائی کا باعث بنے گا، لوگ کہیں گے کہ کیسی عجیب منطق ہے کہ باہر سے آنے والے کے پاس بھارت کا کوئی کاغذ نہ بھی ہو تو وہ CAA کی وجہ سے بھارت کا شہری ہےاور بھارت کے اندر رہنے والے کے کاغذ میں اگر کوئی غلطی ہو تو NRCکی وجہ سے وہ باہر ہوجائے گا، یعنی باہر والا کاغذنہ رکھنے کے باوجود اندر اور اندر والا کاغذ رکھنے کے باوجود باہر۔
یہ ایک عمومی تجزیہ تھا جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ یہ CAA+NRC(NPR) ہمارے دیش کے خلاف کیوں اور کیوں کر ہے، اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہ ہوکرمسلمانوں کے علاوہ دیگر بھارت واسیوں کے خلاف کیوں اور کس طرح ہے:
• یہ دیش کے تمام غریبوں کے خلاف ہے ، خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ، اس سے سب سے زیادہ نقصان دیش کے غریب عوام کا ہوگا، خاص کر ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کے لوگوں کو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، کاغذ کی سب سے زیادہ مشکلات غریب عوام کو ہوں گی ، کیوں کہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے پاس زمین ہی نہیں ، اگر ہے تو زمین کے کاغذات نہیں ، اگر کاغذات ہیں تو ان میں خرابی ہے، پیسے والے لوگ تو رشوت دے کراور تعلقات کو ذریعہ بناکر اپنا الو سیدھا کرلیں گے مگر یہ غریب دھکے کھاتے پھریں گے۔
• یہ دیش کے تمام باشندوں کے خلاف ہے ، خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ؛ کیوں کہ کاغذات بنانا یا صحیح کرانااور لائنوں میں لگنا یہ کام تو سب کو کرنا پڑے گا، نوٹ بندی کی لائنوں میں کھڑا ہونا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا مشکل کہ این آرسی کی لائن میں لگنا ہے، اور ان مشکلات سے مسلم وغیرمسلم سب کو گذرنا ہوگا۔
• یہ صرف مسلمانوں کے خلاف اس لیے بھی نہیں ہے کہ ڈیٹینشن سنٹر میں مسلمانوں کے علاوہ ایک اچھی خاصی تعداد میں غیر مسلموں کو بھی ڈالا جائے گا،اس کے پیچھے حکومت کے مختلف مقاصد ہوں گے، اس کے لیے حکومت غیر مسلموں میں سے ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کو استعمال کرسکتی ہے۔
• یہ صرف مسلمانوں کے خلاف اس لیے بھی نہیں ہے کہ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد کو حکومت شہریت نہ دے کر کاغذ صحیح کرانے کے لیے پریشان کرسکتی ہے ، جیسا کہ آسام میں کیا گیا، حکومت انھیں نہ شہریت دے گی نہ ہی ڈیٹنشن بھیجے گی، بل کہ بیچ میں لٹکا کر ایک عرصے تک پریشان کرے گی،اس جال میں ان لوگوں کو پھنسانے کی کوشش کی جائے گی جو منو واد کے خلاف ہیں ، خواہ وہ اونچی ذات کے سیکولر لوگ ہوں یا ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کے لوگ ہوں۔
• شہریت حاصل نہ کرنے والے غیر مسلموں میں سے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوگی جنھیں حکومت یہ جتاکر شہریت دے گی کہ یہ اس کا احسان ہے، جب یہ بات ہوگی تو ان کی گردنیں احسان تلے جھک جائیں گی، اور زبانوں پر تالے لگ جائیں گے، اور پھر نہ تحفظات کی کوئی مانگ کرسکے گا نہ منوواد کی مخالفت میں کوئی زبان کھول سکے گا۔
• جو غیر مسلم این آر سی میں باہر آئے گا ، اس کے لیے سی اے اے کے ذریعہ شہریت حاصل کرنے کا ایک دروازہ تو کھلا ہوگا ؛ لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جو شخص بھی این آر سی سے باہر ہوگا تو وہ غیر قانونی شہری قرار پائے گا، جس کی وجہ سے اس کی منقول وغیرمنقول جائیداد ضبط کرنے کا حق حکومت کو حاصل ہوگا، اب جب سی اے اے کے ذریعہ اسے دوسرے دروازے سے لایا جائے گا تو اسے صرف شہریت دی جائے گی ، جائیداد لوٹانا یا نہ لوٹانا حکومت کی صواب دید پر ہوگا، یہاں چت بھی حکومت کی پٹ بھی حکومت کی، جائیداد واپس کرے تو بھی حکومت کا فائدہ کہ احسان جتلا کر کام نکالے گی اور اگر جائیداد واپس نہ کرے تو بھی حکومت کا فائدہ ہے۔
• این آر سی سے باہر آنے والے غیر مسلموں کے لیے سی اے اے کے ذریعہ شہریت حاصل کرنا ممکن تو ہے؛ لیکن یہ قانون چوں کہ پڑوس کے تین ملکوں کی اقلیتوں کے لیے ہے ، یعنی باہری لوگوں کے لیے ہے؛ اس لیے این آر سی میں خارج ہونے والا غیر مسلم جب سی اے اے کے ذریعہ شہریت حاصل کرے گا تو بہ حیثیت غیر ملکی مہاجر کے شہریت دی جائے گی ، ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایک ہندوستانی کی عزت نفس کے خلاف ہے کہ جس ملک میں اس نے اور اس کے آبا واجداد نے اپنی پوری زندگی گذاری اسی ملک میں اسے غیر ملکی کی حیثیت سے شہریت تسلیم کرنی پڑ رہی ہے، دوسرے یہ کہ جب سی اے اے کے ذریعہ شہریت دی جائے گی تو چاہے وہ ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کا کیوں نہ ہو اسے جنرل کیٹگری کی شہریت دی جائے گی ۔
• یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف اس لیے نہیں ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ جو شخص ہندوستانی شہریت حاصل کرنا چاہے گا اسے اپنے آپ کو کاغذی طور پر غیر ملکی ثابت کرناہوگا، وہ اگر واقعی غیر ملکی ہو گا تو اسے مشکل تو ضرور ہوگی مگر اس کے لیے غیر ملکی ثابت کرنا ناممکن نہیں ہوگا ؛ لیکن اگر این آر سی میں چھٹ جانے والا ہندوستانی ہوگا ، تو وہ غیر ملکی ہونا کہاں سے ثابت کر پائے گا، وہ تو حکومت کے رحم وکرم پر ہوگا، سنگھی حکومت کےرحم وکرم پر ہونے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے ہر بابصیرت شخص سمجھ سکتا ہے۔
• این آر سی اور سی اے اے کی گوٹیاں سیٹ کر کے منوواد کی مخالفت کرنے والوں یعنی ایس سی ، ایس ٹی اور اوبی سی کے خلاف ایک بڑا کھیل یہ کھیلا جائے گا کہ تحفظات ختم کردیے جائیں گے، ان کو جب شہریت دی جائے گی جو جنرل کیٹیگری کی شہریت دی جائے گی ، اور یہ لوگ بھی سوچیں گے کہ شہریت نہ ملنے سے جنرل کیٹیگری کی شہریت لاکھ گنا بہتر ہے۔ اس طرح سنگھ واد کا تیر اپنے نشانے پر جا لگے گا۔
• سی اے اے اور این آر سی یا این پی آر کا یہ پورا کھیل منو واد اور سنگھ واد کو لانے کے لیے کھیلا جارہا ہے، جس کا اظہار خود ان کے حلقہ کی ہی بعض شخصیتوں نے کیا ہے، این آر سی سے مسلمانوں کو باہر کردیا جائے گا تو ان کے پاس ڈیٹنشن اور شہادت کے کوئی آپشن نہیں ہوگا، اب رہ گئے ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کے لوگ تو انھیں اوپر ذکر کیے گئے طریقوں کے مطابق جال میں پھنسایا جائے گا، یہ بھی واضح رہے کہ سنگھ کے ایجنڈے میں مسلمانوں کے علاوہ دو طبقے اور ہیں جن پر آگے چل کر قافیہ تنگ کیا جائےگا، اور وہ ہیں کمیونسٹ اور عیسائی، ہو سکتا ہے کہ کمیونسٹوں کی ایک بڑی تعداد سے بھی یہ لوگ اسی این آر سی ہی میں نمٹ لیں۔
یہ ایک مختصر سا تجزیہ اس بات کو بتانے کے لیے ہے کہ سی اے اے اور این آر سی یا این پی آر کا صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے؛ بل کہ پورے دیش کے خلاف ہے، دیش میں بسنے والے تمام باشندوں کے خلاف ہے ، اس کا نقصان پورے دیش کو اور دیش کے تمام باشندوں کو بھگتنا پڑے گا۔ آخر میں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حکومت نے این آر سی کےخلاف ہونے والے ہنگاموں کو دیکھ کر این پی آر لانے کی بات شروع کی ہے، این پی آر اپنی موجودہ شکل میں این آر سی کا ہی کام کرے گا یا کم از کم این آر سی کی راہ ہموار کرے گا، این پی آر در اصل این آر سی کا پہلا مرحلہ ہے، اس کی وضاحت وزارت داخلہ کی طرف سے شائع ہونے والی 2018۔2019 کی سالانہ رپورٹ کے صفحہ 262 پر کیا گیا ہے۔ لہذا اوپر جو باتیں این آر سی کے تعلق سے لکھی گئی ہیں وہ تمام باتیں این پی آر پر بھی منطبق ہوتی ہیں، اس لیے کسی طرح کا کنفیوژن نہیں ہونا چاہیے۔
اس پوری تحریر کاخلاصہ یہ ہے کہ اگرہم دیش کو اور دیش کے دستور کو اور سیکولر ڈھانچے کو بچانا چاہتے ہیں تو این آرسی اور این پی آر کو بائیکاٹ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.