ملک مشکل دورسے گذر رہا ہے۔۔۔!

عارف شجر
حیدرآباد، تلنگانہ ،8790193834
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے ایک عرضی پر سماعت کے دورن تبصرہ کیا کہ کہ ابھی ’’ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے وقت میں ہر ایک کا مقصد امن قائم کرنا ہونا چاہیے۔ ایسی عرضیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم یہ اعلان کس طرح کر سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور ہونے والا قانون ایک آئینی ہے؟ آئین سازی کا ہمیشہ اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ میرے علم میں یہ پہلی بار ہے کہ این سی آر ، سی اے اے اور این پی آر جیسے ہٹلری قانون کے خلاف ملک کے ہرکونے سے زبردست آواز اٹھنے کے بعد اور ملک کے حالات سنگین ہوتے دیکھ کر چیف جسٹس کو اس طرح کے تبصرے دینے پڑے ہوں ۔ ملک کے ایسے حالات کے ذمہ دار کون ہیں اس سے سبھی بخوبی واقف ہیں۔پورا ملک اس وقت بے چین ہے اب تو اس ہٹلری قانون کے خلاف پردہ نشیں مائیں، بہنیں اور بیٹوںکے علاوہ دودھ پیتے معصوم بچے بھی گھر کی دہلیز سے باہر نکل آئے ہیں اور اس احتجاج میں صرف مسلم خواتین نہیں ہیں بلکہ ہر مکتبہ فکر اور مذہب و ملت کی خواتین شامل ہیں سبھی نے متحد ہو کر ایک آواز میں پی ایم مودی کی ہٹلری قانون کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں جس میں خصوصی طور سے دہلی کے شاہین باغ کی جانباز خواتین اور دودھ پیتے بچے کے مظاہرے کی مثال دی جا سکتی ہے حالانکہ شاہین باغ کی خواتین کی پر امن احتجاج کو دیکھتے ہوئے اسی طرز پر ریاست مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتا میں بھی خواتین نے پی ایم مودی کی ہٹلری قانون کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ کولکاتا کے پارک سرکس میدان میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین کا جمع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اب لڑائی آر پار کی ہوگی خواتین کے اس احتجاجی مظاہرے میں ایک جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ کہ اس کی قیادت کوئی سیاسی پارٹیاں نہیں کر رہی ہیں بلکہ وہ خود اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آگئی ہیں انکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ خواتین نہیں چاہتی کہ انکی قیادت کوئی سیاسی پارٹیاںکرے چاہے وہ شاہین باغ کی خواتین ہو یا پھر کولکاتا کی خواتین ، مجھے کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کے اس ہٹلری قانون کے خلاف میں بڑے پیمانے پر ہر مذہب و ذات کی خواتین کا سڑکوں پر اترنا پی ایم مودی کے لئے شرم کی بات ہے اور ایسے پی ایم کو ملک کا وزیر اعظم بنے رہناکہیں سے بھی زیب نہیں دیتا کیوں کہ پی ایم مودی کا ایک نعرہ تھا کہ بیٹی پڑھائو بیٹی بچائو اگر دیکھا جائے تو پی ایم مودی کا یہ نعرہ پوری طرح سے کھوکھلاثابت ہو رہا ہے بچیوں کو پڑھانے اور بچانے کا نعرہ لگانے والے مودی جی ذرا فلک سے اتر کر زمین پر تو دیکھ لیتے کہ ہمارے ملک کی بیٹیوں کا کیا حال ہو رہا ہے ، بیٹیاں دھرنے مظاہرے کرنے پر مجبور ہیں سڑکوں پر اتر کر اپنے وقار کو بچانے کے لئے آواز بلند کر رہی ہیں ، آپ کی ہی حکومت میں بیٹیوں کے ساتھ عصمت ریزی شباب پر ہے ، موب لینچگ سے لے کر جئے شری رام کے نعرے جبراً لگوانے والے بے خوف ہو کر سڑکو ںپر گھوم رہے ہیں۔ ملک کی پر وقار یونیورسٹیوں کا جو حال زار ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے پولیس کی غنڈہ گردی شباب پر ہے یونیورسٹیوں میں بے دھڑک گھس کر گولی چلائے جاتے ہیں اور جن یونیورسٹیوں کے غنڈوں کے ساتھ کاروائی کرنی چاہئے تھی اسے شہ دیا جا رہا ہے جے این یو جس کی مثال کہی جا سکتی ہے وہاں غنڈوں کوپوری طرح سے پولیس کی سرپرستی حاصل ہے ، وہیں اتر پردیش حکومت کی جانبدارانہ رویہ سب پر عیاں ہے ایک طبقے کو ٹارگیٹ کرکے جس طرح سے انکی زندگی سے کھیلا جا رہا ہے وہ تاریخ کے صفحوں میں درج ہو کر رہ گیا ہے، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود پی ایم مودی کے کانوں میں جوں تک نہ رینگنا حیرت کی بات کہی جائے گی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پی ایم مودی ملک کے 130 کروڑ آبادی کے پی ایم نہیں ہیں بلکہ ایک خاص طبقہ کے ہی پی ایم ہیں انہیں کی خوشنودی کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے باقی کو حراستی کیمپ میں ڈالنے کا منصوبہ ابھی سے ہی بنا لیا گیا ہے پی ایم مودی اور انکے ہم پیالہ ہم نولہ وزیر داخلہ امیت شاہ کی غلط پالیسیوں سے ملک پوری طرح بکھرتا ہو ا دکھائی دے رہا ہے ہر جانب بے چینی کی چیخ سنائی دے رہی ہے ہٹلری قانون کے خلاف ملک کا بچہ بچہ سڑکوں پر اتر کر پی ایم مودی سے شہریت ترمیمی بل ،کو واپس لینے کا مطالبہ کررہا ہے لیکن پی ایم مودی کو خواتین اور بچوں کے لرزتے آنسوئوں پر ذرا بھی رحم نہیں آرہا ہے اب تو حالات یہ ہو گئے ہیں کہ اس ہٹلری قانون کے خلاف بھوک ہڑتال پر بھی لوگ بیٹھنے پر مجبور ہیں، مجھے کہہ لینے دیجئے کہ ملک کو اس نازک حالات میں لانے کا سہرا صرف اور صرف پی ایم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے سر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے ملک کے چیف جسٹس کو تبصرہ کرنا پڑا کہ’ ملک مشکل دور سے گذر رہا ہے‘۔
بہر حال! ابھی دو معاملے سامنے آئے ہیں اس سے مودی حکومت اور دہلی پولیس کا پردہ فاش ہو جاتا ہے ، پہلا یہ ہے جے این یو تشدد معاملے میں پولیس نے ملزمین کی تصاویر جاری کرکے لفٹ کے اسٹوڈنٹوں کو ہی قصوروار ٹھرا دیا جس میں طلبہ یونین صدر آئشی گھوش کا نام شامل ہے، تعجب تو اس بات کی ہے کہ سابر متی ہاسٹل میں توڑ پھوڑ، لفٹ کے طلبا کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا، جو اب بھی موت اور زندگی سے لڑ رہے ہیں جس کا ویڈیو سب سے زیادہ وائرل ہوا تھا اس غنڈوں کی تصاویر اب تک جاری نہیں کی گئی اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ دہلی پولیس کس کے اشارے پر کام کر رہی تھی اور جو اب بھی کر رہی ہے اسکی جانچ پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں جو لازمی ہیں۔اے ایم آئی ایم صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی پولیس کی جانبدارانہ کاروایوں پر سوالات اٹھائے ہیں انہوں نے جے این یو معاملے کو انتظامیہ اور حکومت کی ناہلی قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جے این یو مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس مسئلے کو مزید ہوا دی جا رہی ہے،دوسرا معاملہ سامنے یہ آیا کہ پی ایم مودی حکومت کو اس وقت شرمسار ہونا پڑا جب سپریم کورٹ نے کشمیر سے انٹر نیٹ پر پابندی ہٹانے کا حکم صادر کیا سپریم کورٹ نے یہ بھی مودی حکومت کو بتا دیا کہ کسی بھی مقام پر انٹر نیٹ سروس غیر معینہ مدت کے لئے بند نہیں کیا جا سکتا بلکہ کشمیر میں ہر شخص کی آزادی سب سے اہم ہے۔ اب پی ایم مودی کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ انہوں نے جو بھی قانون اپنی کم علمی کے وجہ کر ملک کے عوام کے سر پر تھوپا ہے وہ سپریم کورٹ میں ٹکنے والا نہیں ہے۔ مودی جی ہر بار سپریم کورٹ کا فیصلہ آپ ہی کے حق میں آئے یہ ضروری نہیں چونکہ عدالتیں غیر جانبدار ہوتی ہیں اس میں آپکا عمل دخل قطئی نہیں ہوسکتا مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر جسے کالا قانون کہا جا رہا ہے اس کالے قانون کا سپریم کورٹ ضرور خاتمہ کرے گی۔
Comments are closed.