کیا نوبت آگئی؟

 

از:۔مدثراحمد

ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب

شیموگہ۔کرناٹک۔

9986437327

 

صوبہ کرناٹک کے چکمگلورو ضلع کے سرنگیری میں کنڑا ساہیتہ پریشد کی سالانہ نشست کا اہتمام کیا گیا تھا، اُس نشست کی صدارت کنڑا زبان کے مشہور ادیب، قلمکار، لیفٹ سوچ کے حامل وٹھل ہیگڈے کلکلی کی ذمہ تھی، وٹھل ہیگڈےایک ایسی شخصیت ہیں جنہوںنے ہمیشہ ہندو مسلم یکجہتی کیلئے کام کیا،بابا بڈھن گری مزار کے تنازعات کے درمیان وہ ہمیشہ امن و امان بحال رکھنے کیلئے کام کیا،ہندو فرقہ پرستوںکی انہوں نے ہمیشہ مخالفت کی تھی اور وہ کبھی بھی سنگھ پریوارکی پالیسی کے خلاف رہے،اسی وجہ سے سنگھ پریوار وٹھل ہیگڈے کے خلاف محاذ آرائی کرتا ہے،یہاں تک انہیں نکسلیوں کا ہمدرد قرار دیتے ہوئےانہیں حراساں کرنے کی کوشش کی۔اب جب کہ کنڑا زبان کی سالانہ نشست میں ادباء نے انہیں جلسہ کی صدارت کا موقع دیا تو ریاست میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کے متنازعہ وزیر سی ٹی روی نے ان کی صدارت میں جلسہ منعقد کرنے سے روک دیا اور اس جلسہ کیلئے سرکاری امداد کو بھی روک دی،سی ٹی روی نے یہاں تک سازش کی کہ جلسہ کی آمد کیلئے لگائے بیانر و فلکس ہٹانے کیلئے بھی کوشش کی گئی۔غرض کہ سنگھ پریوارکی جانب سےحق پرستوں کو جس قدر حراساں کرنا تھا اس سے کہیں زیادہ کوششیں ان کے اپنے حکمران کررہے ہیں۔کل تک فیض احمد فیض،حبیب جالب،علامہ اقبال جیسے شعراء کے کلام کو ہندوستان میں ممنوع قرار دینے کیلئے پہل کی تھی ،ان کے کلام کو ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی تھی،اب نوبت یہاں آگئی ہےکہ ہندوستان کے ادباء و شعراء کو یہ لوگ ممنوع قرار دے رہے ہیں۔سال19-2018 ادب کی دنیا کیلئے بھی خطرناک ثابت رہا،ہندوستان کے کئی مشہور ومعروف شعراء کو اربن نکسلی کاسہرا باندھا گیا، اب اُن کے کلام کو پابندی عائد کرنے کیلئے پہل شروع کی گئی ہے۔ہٹلر کے دورمیں بھی نازی مخالف ادب پر پابندی لگائی تھی اب وہی دور مودی حکومت میں آچکا ہے۔غورطلب بات یہ ہے کہ ملک میں جاری اس افراتفری کے ماحول میں خصوصاً اردو زبان سے جڑے ہوئے ادباء، شعراءاور قلمکار حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے کے بجائے حکومت کی تائید میں بیٹھے ہوئے ہیں۔بھلے ہی وہ زبان سے کچھ نہ کہہ رہے ہوں،لیکن ان کی خاموشی ہی ظلم کی تائید کیلئے کافی ہے۔آج کلکلی وٹھل ہیگڈے کی ہی ایسی نوبت آگئی ہو تو کیا شک کہ کل اردوزبان پر بھی پابندی لگانے کیلئے حکومت کمر بستہ ہوجائے۔ویسے بھی این آر سی کے تحت دیکھا جائے تو اردو زبان بھی غیر ملکی زبان ہی ہے،اس زبان میں فارسی، عربی،پشتو،کشمیری اور سنسکرت الفاظ ضرور ہیں، لیکن اکثریت غیر ملکی زبانوں کے الفاظ ہونے کی وجہ سے اس زبان کو بھی بے وقوف حکمران پابندی عائد کرنے میں دیر نہیں لگائینگے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب نواز افراد تعریفوں کے مقالے، مرحوموںکے مرثیہ اور چاپلوسی کے قصیدے گانے کے بجائے ملک کے حالات پر اپنے قلم سے قلمی جہاد کریں، لوگوں کے درمیان بیداری لائیں،اردو کو فصیح بلیغ نہ رکھتے ہوئے عام فہم کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو اتحادسے رہنے اورفرقہ پرستی سے دو ررہنے،فاسق حکومت کی پالیسیوں کے تعلق سے بیداری لانے کیلئے ہمہ وقت کام کریں،کل تاریخ نہیں پوچھیگی کہ فلاں شاعر نے اُس کی محبوبہ کی تعریف میں کتنے اشعار لکھے تھے، بلکہ یہ پوچھے گی کہ کس شاعرنے انقلابات کو ہوادی،کل قیامت کے روز اللہ اپنے شاعر بندوں سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تمہاری شراب میں مٹھاس تھی یا کڑواہٹ، تمہاری غزل کی بحر میں معشوقہ کی لہر تھی یا نہیں،بلکہ یہ پوچھے گا کہ جو صلاحیتیں تمہیں دی گئی تھی اُس سے تم نے کتنا کام قوم کیلئے کیا ہے؟۔

Comments are closed.