صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے سپریم کورٹ سے گورنر اور صدر کے آئینی اختیارات پر پوچھے 14 سوالات

نئی دہلی(ایجنسی) سپریم کورٹ نے 8 اپریل کو ایک تاریخی فیصلے میں کہا تھا کہ اگر کوئی بل طویل عرصے تک گورنر کے پاس زیر التواء رہے تو اسے ’منظور شدہ‘ تصور کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے آئینی اختیار کے تحت عدالت سے 14 اہم سوالات پر رائے طلب کی ہے۔
صدر نے آئین کے آرٹیکل 143(1) کے تحت سپریم کورٹ سے استفسار کیا ہے کہ آیا گورنر اور صدر کو اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں پر فیصلہ لینے میں کوئی مخصوص آئینی وقت دیا جا سکتا ہے؟ کیا عدلیہ اس معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے؟ نیز کیا گورنر اور صدر کی صوابدیدی طاقتوں پر کوئی عدالتی تحدید لگائی جا سکتی ہے؟
صدر نے یہ سوالات بھی اٹھائے ہیں:
– جب کسی ریاست کا گورنر آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت کوئی بل وصول کرتا ہے تو اس کے پاس کون سے آئینی متبادلات ہوتے ہیں؟
– کیا گورنر بل پر فیصلہ کرتے وقت وزارتی کونسل کی رائے کا پابند ہے؟
– کیا گورنر یا صدر کی جانب سے صوابدیدی اختیارات کا استعمال جائز ہے؟
– کیا گورنر کے فیصلوں پر عدالتی جائزہ آرٹیکل 361 کی روشنی میں ممکن ہے؟
– اگر آئین میں کسی بل پر فیصلہ لینے کی مدت مقرر نہ ہو، تو کیا عدلیہ اپنے احکامات کے ذریعے وقت کی تحدید کر سکتی ہے؟
– کیا صدر بھی آرٹیکل 201 کے تحت اسی نوعیت کے اختیارات اور پابندیوں کے تحت کام کرتا ہے؟
– کیا صدر کے پاس زیرغور کسی بل پر سپریم کورٹ سے رائے لینے کی ضرورت پڑتی ہے؟
– کیا عدالت کسی بل کی منظوری سے قبل ہی اس کے مواد پر فیصلہ دے سکتی ہے؟
– کیا آرٹیکل 142 کے تحت عدالت صدر یا گورنر کے آئینی اختیارات کی جگہ اپنا حکم نافذ کر سکتی ہے؟
– کیا ریاستی اسمبلی کا بل گورنر کی منظوری کے بغیر نافذالعمل قانون بن سکتا ہے؟
– کیا آئین کا آرٹیکل 145(3) اس امر کا متقاضی ہے کہ ایسے معاملات میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ ہی سماعت کرے جہاں آئینی تشریحات درکار ہوں؟
– کیا آرٹیکل 142 عدالت کو آئین یا قانون کے خلاف کوئی حکم دینے کا اختیار دیتا ہے؟
– کیا مرکز اور ریاست کے درمیان تنازعات صرف آرٹیکل 131 کے تحت ہی سپریم کورٹ میں لائے جا سکتے ہیں؟
سپریم کورٹ کے 8 اپریل کے فیصلے کے بعد سیاسی سطح پر بھی بحث شروع ہو گئی تھی اور مختلف جماعتوں نے اس معاملے پر بیانات دیے تھے۔ صدر جمہوریہ کی جانب سے ان 14 سوالات کے ذریعے عدالت سے آئینی وضاحت طلب کرنا ایک اہم قدم ہے، جو مستقبل میں گورنر اور صدر کے آئینی کردار کو مزید واضح کر سکتا ہے۔
Comments are closed.