جمعہ نامہ : عظمت قرآن اور رحمت رحمن

ڈاکٹر سلیم خان
انسان جس کی عظمت کا قائل ہو اس سے وابستہ ہونے کی سعی کرتا ہے۔ تعلق باللہ میں اس لیے کمی کی وجہ یہ ہے کہ ’’ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیسا کہ اس کا حق ہے۰۰۰ (الحج: ۷۲)۔ قدرو منزلت کا ادراک ذات و صفات کی معرفت کے بغیرنہیں ہوتااس لیے قرآن مجید میں جا بجا اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات کا ذکر ملتا ہے۔اس سے اللہ کی خشیت ومحبت پیدا ہوتی ہے۔ اسی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اس کی خوشنودی کے لیے جینے اور مرنے کا عزم جنم لیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے’’ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، وہی رحمٰن اور رحیم ہے ‘‘(الحشر۲۲)۔ یہاں پرتوحید خالص کے بعد حاضر و غائب کے علم کا ذکر انسان کو اس حقیقت سے خبردار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر کھلے اور چھپے عمل کو دیکھ رہا ہے اس لیے بازپرس و قدردانی دونوں کرے گا ۔ اس موقع پر توبہ اور استغفار کرنے والوں کی ڈھارس بندھاتے ہوے کہا گیا کہ حساب و کتاب کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت موجزن ہوگی ۔
یہاں یہ پہلو بھی پیش نظر رہےکہ ظالم کی قرار واقعی سزا تکمیلِ عدل کا تقاضہ ہے۔ سورۂ انعام کی آیت 12 میں فرمایا ’’ اس نے اپنی ذات پر رحمت لازم فرمالی ہے، وہ تمہیں روزِ قیامت جس میں کوئی شک نہیں ضرور جمع فرمائے گا‘‘۔ اس دنیا میں بھی ظالموں کی جان بخشی سفاکی یا کمزوری شمار کی جاتی ہے ۔رب کائنات کی ذاتِ والا صفات ان نقائص سے پاک ہے۔ آگے والی آیت میں ان خدشات کا ازالہ کیا خوب کیا گیا فرمایا ’’ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں، ‘‘۔ یعنی وہی تقدس مآب قادرِ مطلق شہنشاہ انصاف کی آخری حد تک جاسکتا ہے جوقوی و غالب ہو۔ جس زور آور کی برتری و کبریائی میں کوئی شریک نہ ہو ۔
اسی عدل و انصاف کے قیام کی خاطر قیامت برپا کی جائے گی مگر اس دارِ فانی میں بھی امن و سلامتی اور تحفظ و نگہبانی کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ بے ہمتہ کو ہے۔ اس لیے کمزور سہاروں پر انحصار کرنے کے بجائے اسی سے رجوع کرکے الٰہی ہدایت پر کار فرما ہونا لازم ہے وگرنہ عارضی امن و سکون کو دوا م حاصل نہ ہو سکے گا ۔ قلیل توقف کے بعد کسی نئے بھیس میں ظلم و جبر کانظام بھیس بدل کر نمودار ہوجائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات جمال و کمال کے بعد کارفرمائی کا بیان ملاحظہ فرمائیں ’’وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اُس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے ‘‘۔ یہاں پر تخلیق کے تینوں مراحل یعنی منصوبہ بندی ، عملدرآمد اور نوک پلک کی درستگی کا ذکر کرنےکے بعد بتایا گیا کہ اس کائنات کی ہر مخلوق اپنے وجودی صفات سے خالق کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہے۔ زبردست خالق کے بلا مصالحت تخلیق کا ہر ذرہ اس کی حکمت عالیہ کا شاہد ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے خالق و مالک کی معرفت کرانے والے قرآن مبین سے بہترین تعلق استوار کرنے کے لیے یہ دعا سکھائی ہے کہ : اے اللہ !میں تیرا غلام ، تیرے غلام کا بیٹا ، تیری لونڈی کا بیٹا ہوں ۔میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے۔ مجھ پر تیرا حکم جاری ہے۔ میرے بارے میں تیرا فیصلہ حق ہے۔میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطہ سے جو تیرا ہے، جس سے تو نے اپنے آپ کو پکارا ہے یا جس کو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہےیا جس کو تو نے اپنی کتاب میں اتارا ہے یا اپنے علم غیب سے جس کو تو نے اپنے لیے مخصوص فرمایا ہے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور ، میرے غم کا مداوا اور میری فکر و پریشانی کا علاج بنادے ۔(مسند احمد ج ۱ ، ص ۳۹۱)
Comments are closed.