دوندر سنگھ ؛ کون معشوق ہے اس پردہء زنگاری میں!!

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
دوندر سنگھ پکڑا گیا ، وہ جموں کشمیر پولس میںڈپٹی سپرنٹینڈنٹ تھاْایک کار میں دو وانٹیڈ دہشت گردوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا ۔ کار سے ہتھیار بھی برآمد ہوئے اسی طرح اس کے گھر سے بھی نقد اور ہتھیار برآمد کئے نجانے کی خبر ہے۔ الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کو جموں سے باہر نکلنے میں مدد کررہا تھا یعنی انہیں اپنے دہشت گردانہ مشن کی طرف بحفاظت پہنچا رہا تھا۔دوندر سنگھ کی گرفتاری کی خبر سن کر ۲۰۰۱ کا پارلمنٹ پر ہوا دہشت گردانہ حملہ یاد آ گیا اور اس کا کیس بھی یاد آگیا جس کا آخری فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ’سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے مجرم کو پھانسی پر لٹکا نا ضروری ہے۔‘اس مقدمہ کے دوران مجرم افضل گورو نے اپنے وکیل کو ایک خط لکھا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ دوندر سنگھ اور دو پولس والوں نے اسے ٹارچر کیا تھا ایک لاکھ روپئے کے عوض اسے چھوڑا گیا تھا اور ان کے لئے ’کام ‘پر مجبور کیا تھا دوندر سنگھ نے اسے ایک’ چھوٹا سا کام‘ کرنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ ایک (اجنبی) شخص ’ محمد ‘ کو دہلی لے جائے اوروہاں قیام کے لئے روم تلاش کرنے اور کار خریدنے میں اس کی مدد کرے۔‘ اور جب پارلمنٹ پر حملہ ہوا تو معلوم ہوا کہ حملہ آوروں میں ایک وہی محمد تھا ، خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ محمد مسلسل دوندر سنگھ کے کانٹیکٹ میں تھا ۔ لیکن اس وقت افضل کے اس الزام کی کوئی جانچ نہیں کی گئی ،کیوں نہیں کی گئی معلوم نہیں ، اب جبکہ دوندر سنگھ وانٹیڈ دہشت گردوں کے ساتھ رنگے ہاتھ پکڑا گیا تو تحقیقاتی ایجنسیوں ، حکومت اور عدلیہ کو اس وقت اسکی جانچ نہ کرنے کا سبب اس سوسائٹی کو بتانا چاہئے جس کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کو ذہن میں رکھ کر پارلمنٹ حملہ کا فیصلہ کیا گیا، افضل کو پھانسی پر لٹکا یا گیا ۔ سوسائٹی کا ضمیر جذباتی ضرور ہے لیکن اندھا بہرااور باؤلا نہیں ہے ، اس ضمیر کو اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں اور عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اگر یہ ادارے معاملات میں دودھ کا دودھ اور پانی پانی کریں تو یہ ضمیر اسے مانتا بھی ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا معاملہ ہے تو اس معاملہ میں دہشت گرد دراصل مہرے ہوتے ہیں ، ان مہروںکے خلاف کتنی بھی سخت کارروائیاں کی جائیں دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی ہے ، دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ ان مہروں کے پیچھے موجود اصل کھلاڑیوں کو دھونڈ نکالا جائے انہیں افشا کیا جائے اور ان کا قلع قمع کیا جائے نیز ان کی حمایت کر نے والوں ان کی مدد کرنے والوں اور انہیں پناہ دینے والوں کو چن چن کر سبق سکھایا جائے ۔دوندر سنگھ کے متعلق افضل گورو کے الزامات نے یہ موقع فراہم کیا تھا لیکن گنوا دیا گیا تھا اس وقت اگر اس کی جانچ کی جاتی تو شاید ہماری جمہوریت کی اہم ترین نشانی پارلمنٹ پر حملے کے پیچھے کے اصل کھلاڑیوں کا پتہ چلتا اور دہشت گردی کے خلاف ہماری صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی بھی نشاندہی ہو تی ،کم از کم دوندر سنگھ کی اصلیت ہی بہت پہلے سامنے آچکی ہوتی اب تک نہ جانے وہ کتنے دہشت گردوں کو پناہ دے چکا ،کتنوں کو ان کے مشن پر پہنچنے کے لئے محفوظ سفر فراہم کرچکا اور دہشت گردی کی کتنی وارداتوں میں اپنا یوگدان دے چکا ہے؟
اب جبکہ ایک موقع ہاتھ آیا ہے تونہ صرف اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ کس مقصد کے تحت دہشت گردوں کو دہلی پہنچانا چاہتا تھا وہ بھی ایسے وقت میں کہ جب یوم جمہوریہ اور دہلی اسمبلی الیکشنس قریب ہیں۔ الیکشن کے ذریعہ جبکہ سوسائٹی اپنے ضمیر کے مطابق حکمراں چنتی ہے تو یہ بھی جانچ ہونی چاہئے کہ دوندر سنگھ کی یہ کارروائی ایسے نازک موقع پر دہشت گردانہ واردات کے ذریعہ سوسائٹی کے ضمیر کو کسی خاص سمت موڑنے کی کوشش تو نہیں تھی؟اس کی بھی تفصیلی تحقیقات ہونی چاہئے کہ اس گورکھ دھندے میں دوندر سنگھ اکیلا ہے یا اس کا کوئی گروپ ہے ، وہ دہشت گردوں کا باس ہے یا دہشت گرد اسکے باس ہیں یا اس کا کوئی سیاسی و سماجی باس بھی ہے جو اپنے سیاسی و سماجی فوائد کے لئے دہشت گردوں کو اسی طرح دوندر سنگھ کے ذریعہ فری پاس دلواتا ہے؟ہماری حکومت دہشت گردی کے تئیں بہت حساس ہے ، ہم ہر قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر دہشت گردی کو ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہیں، لیکن دوندر سنگھ کا کیس ہمیں منھ چڑھا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اول دستوں میں ہی کالی بھیڑیں موجود ہیں وہ بھی اس علاقے میں جہاں ہماری سلامتی ایجنسیاں بنیادی انسانی حقوق پر بھی غالب ہیں اور ان ایجنسیوں میں اپنے اندر کی کالی بھیڑیں پہچاننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے ۔ اب جبکہ ایک کالی بھیڑ پکڑی گئی تو اس کے ذریعہ پوری گہرائی سے تفتیش کر اور تمام خاطیوں کو کڑی سزا دلواکر ہمیں سوسائٹی اور دہشت زدہ علاقوں کے لوگوں کو یہ یقین دلانا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کسی خاص قوم یا کسی خاص علاقے کے لوگوں کے خلاف نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے خلاف ہے جو دہشت گردوں کے مدد گار ہیں ان کی حمایت کرتے ہیں یا پھر دہشت گردی سے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھاتے ہیں پھر چاہے ایسے لوگ فوجی ہوں پولس والے ہوں یا سیاسی و سماجی لیڈر ہوںنیز دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں کو ہم اتنی بھی آزادی نہیں دیتے کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر وہ خود ہی دہشت گرد بن جائیں یا دہشت گردی کا دھندہ کھول کر بیٹھ جائیں۔
دوندر سنگھ کے معاملے میں تحقیقات ہو رہی ہیں نئی نئی باتیں سامنے آرہی ہیں خبر ہے کہ وہ ۱۲ لاکھ روپیوں کے عوض دہشت گردوں کا ساتھی بنا تھا لیکن ابھی جبکہ ابتدائی تحقیقات ہی چل رہی ہیں تو مرکزی وزارت داخلہ نے قابل استفسار اعلان کر تے ہوئے یہ کیس قومی تفتیشی ایجنسی ( این آئی اے ) کے سپرد کرنے کا اعلان کردیا ، کون پوچھے کہ اس جلد بازی کا سبب کیا ہے؟ جموں پولس نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوندر سنگھ کو دہشت گرد کی طرح ٹریٹ کرے گی ،اب این آئی اے بھی اسے دہشت گرد ہی سمجھتی ہے یا کوئی اور اسٹینڈ لیتی ہے یہ دیکھنا ہوگا ۔ این آئی اے نے مالیگاؤں ۲۰۰۸ بم دھماکہ معاملے میں جس طرح مہاراشٹر اے ٹی ایس کے تمام دعووں کو جھٹلایا اور اسکی ساری تحقیقات کی مخالفت کی تھی اور جس طرح خصوصی وکیل محترمہ روہینی سالیان کو اس معاملہ میں سست رفتاری اختیار کرنے کی ہدایت دی تھی اگر دوندر سنگھ کے معاملہ میں بھی ایسا ہی کیا گیا تو سمجھئے گئی بھینس پانی میں۔ (جمعہ ۱۷،جنوری ۲۰۲۰ )
Comments are closed.