اردو ہے جس کا نام

 

شہلا کلیم

ابھی ہم ناگرکتا کے جھمیلے سے نہیں نکل پائے تھے کہ زبان کی بےدخلی کا سلسلہ شروع کر دیا گیاـ خبر ہے کہ اتراکھنڈ کے تمام ریلوے اسٹیشنوں کے سائن بورڈ سے اردو زبان کو ہٹا کر سنسکرت میں لکھا جائےگا جو کہ پہلے اردو، ہندی اور انگریزی میں لکھا ہوتا تھاـ لیکن یہ کوئی اچانک صادر کر دینے والا فیصلہ نہیں ہے اس معمے کو حل کرنے کیلیے ہمیں بیس سال پیچھے جاکر تاریخی پس منظر کو کھنگالنے کی ضرورت ہے ـ واضح ہو اتراکھنڈ سن ۲۰۰۰ سے پہلے یو پی کا حصہ تھا ـ ۹ نومبر ۲۰۰۰ کو مرکزی سرکار کی سرپرستی میں ترقی کا حوالہ دے کر اتر پردیش کے ۱۳ شمال مغربی اضلاع کو شامل کرکے اتراکھنڈ کی تشکیل ہوئی ـ یہاں بنیادی سوال دو ہیں ہے کہ کیا یوپی کا حصہ ہوتے ہوئے ترقی ناممکن تھی؟ اور اگر تھی تو اب تک دیگر بڑے صوبوں کے بالمقابل کتنی ترقی ہو چکی؟ اب لوگوں کو یہاں اعتراض ہو سکتا ہے کہ ماضی میں لیے جانے والے سبھی فیصلوں کا ذمےدار بھی آخر بی جے پی کو ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے تو اطلاعا عرض ہے کہ نومبر ۲۰۰۰ء میں مرکزی سرکار یعنی پی جے پی لیڈر اٹل بہاری واجپئی کی سرپرستی میں اتراکھنڈ کا قیام عمل میں آیا تھاـ اور زبان کی تبدیلی کے موجودہ فیصلے کی کڑی سیدھی سیدھی ماضی کے اس فیصلے سے جڑی ہے ـ

اب ذرا یو پی اور اتراکھنڈ کی صوبائی اور سرکاری زبانوں کے بارے میں جان لیں ـ یو پی کی پہلی بنیادی اور صوبائی زبان ہندی جبکہ دوسرے درجے پر اردو ہے لیکن اتراکھنڈ کو یوپی سے الگ کرنے کے بعد اتراکھنڈ کی پہلی صوبائی زبان تو ہندی ہی رہی مگر دوسری صوبائی زبان اردو کو ہٹا کر سسنکرت کر دی گئی جبکہ آج بھی اتراکھنڈ میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہندی اور دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو ہی ہے اور سنسکرت کا بول بالا بہت کم ہے ـ یہی وجہ ہے کہ سائن بورڈ سے اردو کو ہٹا کر رفتہ رفتہ مکمل بے دخل کرنے کا پہلا قدم ہوگا ـ

لیکن آخر ہم دوسروں کو گالیاں کب تک دیتے رہیں ـ چنانچہ موضوع کا رخ اپنی جانب موڑتے ہیں ـ ہمیں اردو سے محبت و عقیدت تو بے تحاشہ ہے ـ اور ہماری عقیدت کا یہ حال ہے کہ ہم اردو کو مادری زبان کی بجائے مذہبی زبان تصور کرنے لگے ہیں ـ اور اردو بزبان حال فراز کا یہ مصرعہ گنگنانے پر مجبور ہے "اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائےـ” جی ہاں اردو کا دم نکالنے اور گلا گھونٹنے کے ذمےدار ہم خود ہیں ہم نے اسے مذہبی لبادے میں لپیٹ کر غیر مذاہب کے سامنے پیش کرکے ان سے خود بغض و عناد مول لیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی بھی مذہب کی جاگیر نہیں بلکہ خالص ہندوستانی زبان ہےـ اور یہ ہماری تاریخی ، تہذیبی و ثقافتی وراثت ہے ـ یہ صرف اردو کا ہی حال نہیں، ہندی کا بھی یہی حال ہےـ ہمارے نزدیک خاصے مضحکہ خیز ہیں وہ لوگ جو اردو کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنے اور ہندی کو شلوک پڑھا کر ہندو کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں حالانکہ دونوں زبانیں دیوناگری اور نستعلیق رسم الخط کی صورت میں صرف مختلف جامہ زیب تن کیے ہوئے ہیں جبکہ ان کا حسب و نسب ایک ہی ہےـ اردو زبان کا ہر طالب علم اس کی تاریخ و تحقیق اور جائے پیدائش سے بخوبی واقف ہوگا کہ اردو کے ماخذ کے سلسلے میں محققین کی الگ الگ تحقیق ہے کسی کے نزدیک پالی تو کسی نے برج بھاشا کو اردو کا سرچشمہ قرار دیا لیکن یہ طے ہے کہ سنسکرت، پراکرت ، اپ بھرنش اور کھڑی بولی کے ارتقائی ادوار سے ہوتے ہوئے موجودہ اردو ہم تک پہنچی اور اس کا سلسلہ نسب (۱۵۰۰ ق م)ہند آریائی زبانوں سے جا کر مل جاتا ہے ـ اسی طرح اردو کی جائے پیدائش کے سلسلے میں بھی مختلف محققین کے مختلف آراء و نظریات ہیں کسی نے سندھ، کسی نے پنجاب، کسی نے ہریانہ، کسی نے اڑیسہ اور کسی نے دکن کو اردو کا مسکن بتایاـ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن اکثریت کا مسعود حسین خاں کے اس نظریے پر اتفاق ہے کہ اردو دہلی اور نواح دہلی کی پیداوار ہےـ یہ ضرور ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف ممالک کے لوگ سفر کرکے سر زمین ہند پر آتے رہے اور ان کے ساتھ آنے والی لاتعداد زبانیں اس میں مدغم ہوتی گئیں اور موجودہ اردو ارتقاء کے مختلف منازل طے کرتے ہوئے ہم تک پہنچی ہے؛ بہر صورت اردو ہندوستان کی ہی پیداوار ہےـ

یاد رہے تحقیق کا ایک بنیادی اصول ہے کہ تحقیق سائنٹفک دلائل کی بنیاد پر قابل قبول ہے عقیدتوں کی بنیاد پر نہیں لہذا تحقیق کے بعد بات کرتے ہیں عقیدتوں کی ـ آپ کو یاد ہوگا گزشتہ دنوں اردو کی ویب سائٹ ریختہ کے اس عمل پر عقیدتمندوں کی جانب سے خاصی لے دے ہوئی کہ آخر اردو کو "ہندوستانی” کیوں کہا اور لکھا گیاـ جبکہ اردو کی تاریخ اور تحقیق کہتی ہے کہ اردو دراصل ہندی، ہندوی، ریختہ اور ہندوستانی کا ہی ترقی پذیر اور ترمیم شدہ نام ہےـ یعنی جیسے جیسے زمانے گزرتے گئے ضرورتا عوام کی بولی اور ادبی زبان میں تخصیص کے ساتھ ساتھ نام بھی تبدیل ہوتے گئے اس طرح "ہندوستانی” اردو کا ہی پرانا نام ہواـ ٹھیک ہے ناموں کی تبدیلی ایک لایعنی عمل ہے لیکن اگر آپکو کوئی آپکے بچپن کے نام سے پکارے جو کہ اب تبدیل ہو چکا ہو تو یقینا آپ واویلا تو ہرگز نہیں مچائیں گےـ

بات نکلی ہے تو ریختہ پر اکثر و بیشتر نظر سے گزرنے والے سوالات پہ بھی بات کرتے چلیں ـ ریختہ کے سلسلے میں اکثریت کو یہ شکایات ہیں کہ یہ زمینی سطح پر کام نہیں کرتے اور یہ سب کاروبار کا ذریعہ ہےـ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ فاسٹ ٹیکنالوجی عہد کی ضرورت کے مطابق اس سلسلے میں ہم نے کس سطح پر کام کیا؟ اور کیا ہمارے لوگوں نے ادب کو کاروبار بنا کر اپنی تجوریاں بھرنے کے ساتھ ساتھ شہرت کے بلند مرتبے حاصل نہیں کئے؟ دھیان رہے ہم مجموعی بات نہیں کر رہے کیونکہ کوئی بھی نظریہ کُل پر عائد نہیں ہوتاـ مختصر یہ کہ بلا مفاد کام کرتا ہی کون ہے مگر اتنا تو ہے کہ ایسے دور میں جب کہ کتابوں سے زیادہ لوگ اسکرین پہ توجہ دیتے ہوں اور خاص طور پہ اردو کتابیں گم ہوتی جا رہی ہوں کم از کم کسی نے تو ان کو محفوظ رکھنے کی ذمےداری اٹھائی اور ایسے قارئین کے لیے سہولت فراہم کی جن کی پہنچ سے مہنگائی یا کسی اور سبب کے چلتے کتابیں دور تھیں ـ ریختہ کی جانب سے وقتا فوقتا سیمینار بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں جن کے چلتے ہر ایسے فن کار کو اسٹیج میسر ہوا جو گم نام تھےـ اگر یہ زمینی سطح نہیں تو پھر کون سی سطح ہےـ ریختہ کے چئیرمین سنجیو سراف نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا انٹرنیٹ پر ہر زبان و ادب پر کام ہوا لیکن اس سلسلے میں اردو جیسی خوبصورت زبان میں ایک خلا تھا اور جو تھوڑا بہت کام ہوا بھی وہ نامکمل اور نا معتبر تھا چنانچہ ہم نے خالص ادبی کام کے مد نظر ایک ویب سائٹ شروع کی جو اب ترقی کرکے ریختہ بن چکی ہے ـ واضح ہو ریختہ (rekhta.org) سوشل آرگنائزیشن ہے rekhta.com نہیں ـ ریختہ پر اب تک ساٹھ ہزار کتابیں اسکین کرکے ڈالی جا چکی ہیں اور ساڑھے تین ہزار سے زائد شعراء کا کلام دستیاب ہے، ہر مہینے تقریبا ڈھائی ہزار کتابیں اپلوڈ کی جاتی ہیں اور جس سے دو سو سے زیادہ ممالک منسلک ہیں اور دنیا بھر میں دو کروڑ سے زیادہ قارئین مستفید ہوتے ہیں ـ انتظامیہ مختلف لائبریری اور یونیورسٹیز سے مواد حاصل کرتے ہیں جس کے لیے چوبیس مشینیں کام کرتی ہیں ـ ریختہ پر تین رسم الخط میں مواد موجود ہے نستعلیق (اردو) ، دیوناگری (ہندی) اور رومن (انگریزی) تاکہ ہر قسم کے قاری کو سہولت رہےـ مزید یہ کہ ہر لفظ پہ کلک کرکے اسکے معنی بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں ـ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس سفر میں کیا مشکلات پیش آئیں تو جواب مجروح کا یہ مصرعہ تھا: "میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگرــــــــ” اور جب بزنس شیڈول کے بارے میں دریافت کیا گیا تو جواب غالب کا یہ مصرعہ تھا : "نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ ـــــــ” چلیے مان لیتے ہیں یہ مصرعے "کہانیاں ہی سہی مبالغہ ہی سہی” لیکن اگر وہ تھوڑا بھی نہ کمائیں تو پھر اس قدر وسیع پیمانے پر بغیر خرچ کے چلائیں گے کیسے؟؟

ایک اور سوال یہ کہ ریختہ پر کتابیں ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت نہیں (اب ہو تو مجھے علم نہیں) بلکہ آن لائن ہی پڑھنا پڑتی ہے ـ جو ان کی کمائی کا ذریعہ بنتا ہے ـ تو کیا مارک زکربرگ آپ کا رشتےدار لگتا ہے کہ اسکی کمائی کرانے کی خاطر آپ دن رات کچھ نہ سہی تو لعن طعن اور آپسی جھگڑوں میں ہی وقت ضائع کرتے رہتے ہیں ـ

آخر میں سوال ہے ان لوگوں سے جنہوں نے اردو کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک روا رکھا جبکہ اردو اسی خاک کی پیداوار ہے کہ آخر انہیں گوروں سے اتنی محبت کیوں ہے کہ ہمیشہ انہیں اپنوں پر فوقیت دی جاتی ہے ـ ٹھیک ہے اردو داں باہر سے آئے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وہ آمد کے بعد پھر کبھی رخصت نہیں ہوئے ـ انہوں نے اسی مٹی سے لیا اور اسی مٹی کو دیا، وہ اسی خاک سے اٹھے اور اسی خاک میں مل گئے اور تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ انگریزی داں بھی باہر سے آئے لیکن انکی آمد یہاں گھلنے ملنے اور بسنے کیلیے نہ تھی انہوں نے بستیاں اجاڑ ڈالیں اور سونے کی چڑیا کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر لیےـ ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ انگریزی کو بے دخل کیا جائے کیونکہ اس نظریے میں ہم سر سید کے حامی و طرفدار ہیں ـ انگریزی ایک زبان ہے، تہذیب نہیں (البتہ مغربیت ایک مکمل تہذیب کا نام ہے)اور زبانیں علم میں اضافہ اور معلومات کا ذریعہ ہوا کرتی ہیں ـ لیکن کسی اپنی زبان کو بھی تو بےدخل کرنا درست نہیں ـ

اور ایک سوال عقیدت مندوں سے بھی کہ آخر ہم کس زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں اور ہمارے پاس اس فیصلے کے خلاف کون سے مضبوط اقدامات ہیں؟؟ لہذا انگلی اٹھانے کی بجائے ہاتھ تھامیے ، ہاتھ ملائیے، زبانوں کو مذاہب کے خول سے نکال کر اپنی فیلڈ میں آنے والوں کا پرتپاک استقبال کریے تاکہ آپ بھی زمینی سطح پر مضبوط ہو سکیں ـ اتحاد میں بڑی طاقت ہے پھر شاید آپکی زبان کی جانب اٹھنے والی نگاہیں جھک سکیں !!

Comments are closed.