پاکستانی بریانی کھائیں وزیر اعظم، وفاداری کا ثبوت دے عوام !!!

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )

ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن

کچھ تو بات تھی جو ادھوری رہ گئی
غلط فہمی کی زنجیر امولیہ کو جکڑگئی

حال ہی میں امولیہ نامی ایک مقررہ نے اپنی تقریر کی شروعات میں ایک غلط نعرہ بول دیا جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں , ہم مانتے ہیں امولیہ نے جلد بازی سے کام لیا, لیکن غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے فرشتوں سے نہیں, سو بڑی سوچ بڑے دل والوں نے چھوٹی سی غلطی پہ نادان امولیہ پہ ملک غدار ہونے کا الزام لگا کر چودہ دنوں کی حراست میں بھیج دیا …….
جب کہ امولیہ ہو یا کوئی اور بھارتی ہمارے لئے ہمارا ملک ہمارا وطن عزیز ہندوستان اہم ہے کسی پڑوسی ملک سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں, ہمارا بھارت ہمارے لئے کل بھی زندہ باد تھا آج بھی زندہ باد ہے اور تاقیامت زندہ باد رہے گا , اس میں نہ کوئی شک ہے نہ ہی ہم بھارتیوں کو اس کا ثبوت دینے کی کوئ ضرورت ہے کیونکہ ہماری وفاداری, قربانیوں و محبت کی گواہی تو خود یہاں کی مٹی نے دی ہے یہاں کی ہواؤں نے یہاں کے جھرنوں نے وہ نغمے وہ تار چھیڑے ہیں جو خود ہماری وفاداری کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں, پیڑوں پہ لٹکی ہمارے علماؤں کی گردنیں, سرحد پہ کٹے ہمارے نوجوانوں کے سر, مٹی میں دفن ہمارے آباواجداد کی لاشیں ہماری وفاداری کا ثبوت ہیں, یہاں تک کہ میزائل جیسے ہتھیار بناکر ملک کو طاقتور بھی ہم نے ہی بنایا ہے …….
یہ کل پرسوں کے خاکی چڈی والے کس کس بات کا ثبوت مانگینگے ہم سے, ہم تو اُس قوم سے ہیں جو یہاں پیدا ہوکر یہیں کی مٹی میں مٹی بن کر بکھر جاتے ہیں , آج بھی جب بارش کی بوندیں برستی ہیں تو مٹی سے ہماری وفاداری کی سوندھی سی خوشبو سارے عالم کو معتر کردیتی ہے, ہمارا وجود کوئی راکھ نہیں جو جل کر خاک ہوجائے ہم نے تو دنیا میں آنے سے لے کر دنیا سے جانے تک قدم بہ قدم اپنی وفاداری کے نقش چھوڑے ہیں ……… گر کسی کو دیکھنا ہے تو جائیں گیٹ وے آف انڈیا کی دیوار پہ جاکر دیکھ لین ہمارے مرد مجاہدوں کے نام آج بھی اُس دیوار کو منور کئے ہیں , ہمارے آبا واجداد کی وراثتیں آج بھی دنیا بھر میں فخر کا باعث بنی ہیں, تاج محل جیسی عمارتیں بناکر ہم نے ہرسو محبت کا پیغام عام کیا ہے , سارے عالم کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے, جان مال آبرو, آل و اولاد مختصر کہیں تو اپنا سب کچھ لٹاکر اس گلشن کو آباد کیا ہے کس کس چیز سے ہم اپنی وفاداری کا ثبوت دین یہاں کے گُل بوٹوں میں لپٹے رنگ ہمارے لہو سے ہیں یہاں کی ہواؤں میں خوشبو ہماری مشقت کے پسینے سے بکھری ہے یہاں کے جھرنوں کی شفافیت ہمارے آنسوؤں سے ہے, یہاں کی چٹانیں ہمارے حوصلوں کی پہچان ہیں یہاں کی خوبصورتی ہماری مسکراہٹ سے ہے یہاں کے ذرے ذرے میں ہمارا عکس شامل ہے ہمارے وجود سے ہندوستان اور ہندوستاں سے ہمارا وجود ہے یہ ملک دلت, مسلمانوں کا ملک ہے ہمارے اقلیتی بھائیوں کا ملک ہے یوریشیا سے آئے خاکی چڈی والے آتنکوادی وفاداری کا مطلب کیا جانیں , جن کے اپنے ڈی این اے نے انہیں غیر ہندوستانی ثابت کردیا , جن کی حرکتیں, جہالتوں نے ہندوستان کو کئی سال پیچھے ڈھکیل دیا , جن کی زبانین اس پاک گلشن میں آگ اُگلتی ہیں, معصوم عوام کا جینا محال کرتی ہیں, پرینکا, آصفہ آور اُناؤ کی بچیاں ان کی بربریت کا شکار ہوتی ہیں, گوری لنکیش, نجیب, جسٹس لوہیا ,سبودھ آور کرکرے جیسے ایماندار آفسرس ان کی نفرت کے چلتے قربان کئے جاتے ہیں , سرحد اور پلوامہ میں چالیس جانباز نوجوان ان کی سیاست ان کے مفاد کی قیمت اپنی جان دے کر چکاتے ہیں , انہونے اپنے فائدے کے لئے نہ رام کو بخشا نہ رحیم کو اپنے کالے کرتوت چھپانے کے خاطر جئے شری رام کہہ کر یہ رام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں

ایسے لوگ آج ہندوستان کی 130 کروڑ عوام کو ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگتے ہیں , ہمیں پاکستانی ہونے کا تعنہ دینے والے یہ یونانی ڈی این اے والے ہمیں اُس ملک سے جوڑنا چاہتے ہیں جس ملک کا نقشہ بھی ہماری نسلوں نے نہیں دیکھا .

رہی بات پاکستان سے پیار محبت دوستی, وفاداری نبھانے کی تو وہ تو خود ہمارے وزیرآعظم بڑی شدت سے نبھارہے ہیں کبھی وہاں کی بریانی کا ذائقہ چکھنے چلے جاتے ہیں, تو کبھی جنم دن کا کیک کاٹنے چلے جاتے ہیں,
ویسے تو ہمارے وزیرآعظم اپنی ہر تقریر میں پاکستان کو دشمن ملک کہتے نہیں تھکتے
یہ اور بات ہے کہ وہ وہاں جائے بنا بھی وہ نہیں رہتے, باقی تضبیح کی طرح اپنی زبان پہ پاکستان کا نام جپنا اُن کے لئے لیمو والے بابا کا وردان بن چکا ہے جو ہماری سمجھ کے باہر ہے کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے اگر دنیا کے نقشے میں پاکستان نہ ہوتا تو بی جے پی کا وجود کہاں ہوتا ؟؟؟
بہت پہلے ایک راجا کی کہانی سنی تھی مودی جی کو دیکھتے ہیں تو وہ کہانی یاد آجاتی ہے
ایک راجا تھا جس کی جان طوطے میں بسی تھی آور وہ اُس طوطے کو بڑے ہی جتن سے سنبھال کے رکھتا کیونکہ اُس راجا کا وجود اُس طوطے سے تھا بالکل اُسی طرح بھاجپا کا وجود بھاجپا کی زندگی پاکستاں سے ہے تبھی اپنی ہر ریلی ہر تقریر میں وزیرآعظم پاکستان کا نام برکت کی طرح لیتے ہیں ……..
آج ہم اپنے وزیرآعظم سے پوچھنا چاہتے ہیں جب پلوامہ میں ہمارے چالیس جوان شہید ہوئے اُس وقت سارا ہندوستان پاکستان کو صفحے ہستی سے مٹانا چاہتا تھا لیکن افسوس آپ نے جھوٹے سرجیکل اسٹرائک کا لالی پاپ چٹاکر ہندوستانیون کے غصے کو دبا دیا , اگر وزیرآعظم چاہتے تو ہمارے نوجوان پاکستان کو دھول چٹاسکتے تھے لیکن افسوس آپ کو شہیدوں پہ بھی سیاست کرنی تھی

خیر سیاسی لوگوں کی سیاسی باتیں
ہم اور امولیہ جیسے عام انسان ان سیاسی پینتروں کو چالبازیوں کو کہاں جانیں ہمیں تو دنیا کے نقشے میں بھی پاکستان نظر نہیں آتا ہے اتنا ہی نہیں پاکستان نام کے وجود کا احساس بھی وزیرآعظم نریندر مودی کی تقریر یا بیان سے ہوتا ہے
کیونکہ ہمارے آباواجداد نے تو 73 سال پہلے ہی اُس ملک کو تھُکرادیا ہے اور پھینکی ہوئی چیز دوبارہ اٹھانا ہماری فطرت نہیں بلکہ خاکی چڈی والون کا شیوہ ہے جنہونے ملک سے غداری آور انگریزوں کی دلالی کی تھی

آج انگریزوں کے دلال ردی کے کاغذات میں وفاداری دیکھنا چاہتے ہیں جو کاغذات میں نہی ہمارے خون میں بسی ہے, ہمارے سینوں میں تابناک ہے
امولیہ, کنہیا کمار, عمرعبداللہ, سحلہ رشید جیسے نوجوانوں کے اندر بسی ہے تبھی یہ بیباک حق گو نوجوان تاناشاہ حکمران کے غلط فیصلوں, تعصبی قوانین کے خلاف صفے اول کھڑے ہیں اور انہیں کے نقش و قدم پہ چلتے ہوئے آج کی نوجوان پیڑھی کمربستہ ہوچکی ہے جس میں ایک امولیہ بھی شامل ہے لیکن افسوس ایک چھوٹی سی غلطی نے امولیہ پہ غداری کا الزام لگادیا, ادھوری بات نے بھرے جلسے میں اُس لڑکی کو ذلیل و خوار کردیا وہ منظر آج بھی سوچتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں کاش کاش امولیہ کو ایک موقعہ دیا جاتا اپنی بات کہنے کے لئے ایک دو منٹ مل جاتے تو وہیں کے وہیں خلاصہ ہوجاتا لیکن افسوس وہاں پہ ہمارا ڈر , ہمارا خوف ہم پہ اس قدر حاوی ہوگیا کہ بوکھلاہٹ کے مارے امولیہ کے ہاتھ سے مائک چھینا جھپٹی کرنے لگے وہ اپنی بات پوری کرنے کے خاطر ایک منٹ کا وقت مانگتی رہی لیکن ہمارے ڈر نے ہمیں ظالم بنادیا, پولس سے پہلے ہم لوگ سکتے میں آگئے , جس ملک میں قاتل, ریپسٹ کو بھی اپنی بات کہنے کا پورا پورا موقعہ دیا جاتا ہے آج اُسی ملک کی ایک بیٹی کو اپنی بات پوری کرنے کے لئے ایک دو منٹ نہیں دئے گئے بلکہ کسی خطرناک مجرم کی طرح اُس صنف نازک کو ڈھکیلتے ہوئے لے گئے , اس درمیان جو کل تک خود کو اُس کے فالورس کہا کرتے اُس کی ویڈیوس پہ لائک, کمنٹ ,شئر کرتے ہوئے اُس کی واہ واہی کیا کرتے تھے ایک ہی پل میں سبھی اپنا پلہ جھاڑنے لگ گئے
نام نہاد لیڈراں, جن کی اوقات اٹھنی چونی جتنی بھی نہیں ہے اُن کی اور سے بھی امولیہ کے خلاف بیان بازیاں, اسٹیٹمنٹس جاری ہونے لگے , دوست احباب ویلوشرس سارے اجنبیوں سے بدتر ہوگئے ……… باوجود ہمیں یقین ہے ان شاءاللہ اللہ سبحان تعالی کا ساتھ اُس رب کائنات کی مدد ضرور حاصل ہوگی اور امولیہ بہت جلد رہا ہوگی , الحمدللہ ہمارا اپنے ملک کے آئین پہ, یہان کی عدالتوں پہ بھی پورا یقین ہے امولیہ کو انصاف ضرور ملے گا اُس کی آواز دوبارہ شیرنی کی طرح گرجے گی, ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ دوبارہ غرائے گی

لیکن اس دوران ہم نے اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کیا ہے کہ کچھ نام نہاد لیڈران و مفکران ملت کو امولیہ آور اُس جیسے مقررین سے بغض ہے کہ کل کے بچے آج ان ٹھیکیداروں سے آگے بڑھ چکے ہیں , ان نوجوانوں کے آگے انہیں اپنا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے, اُن کے نام اُن کی شہرت کے آگے یہ خود کو بہت چھوٹا محسوس کررہے ہیں, یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی امولیہ کی ایک چھوٹی سی غلطی مل گئی ڈر کے مارے سارے اس کے خلاف ہوگئے .

یہاں پہ ہم اپنے مضمون کے آخر میں امولیہ کے فیس بُک والا پہ 16 فروری کی ایک پوسٹ کا خلاصہ کرنا چاہینگے جو امولیہ کی تقریر سے جُڑی ہے جس میں امولیہ نے بڑے ہی بیباک انداز آور صاف لفظوں میں اپنی بات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے
غورطلب امولیہ کی تحریر کچھ یوں ہے
” ہندوستان زندہ باد, پاکستان زندہ باد, بنگلہ دیش زندہ باد, نیپال زندہ باد, سری لنکا زندہ باد, افغانستان زندہ باد, چین زندہ باد , بھوتان زندہ باد اور جو بھی ملک ہے اُن سبھی کا زندہ باد ,بڑے کہتے ہیں جو ملک ہے وہ مٹی ہے ہم بچے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیش کا مطلب اُس جگہ میں رہنے والے لوگ اور وہ تمام ضروری چیزیں انہیں ملنی چاہئیے جو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے
اُن سبھی کو زندہ باد جو سماج کی خدمت (سیوا) کرتے ہیں
صرف اس لئے کہ میں کسی ملک کو زندہ باد کہتی ہوں تو اُس کی شہری نہیں ہوجاؤں گی, قانون کے مطابق میں بھارت کی شہری ہوں, مجھے اپنے ملک کی عزت کرنی چاہئے, یہاں رہنے والے لوگوں کے لئے کام کرنا میرا فرض ہے اور میں یہ کروں گی دیکھتے ہیں کہ اب آر ایس ایس والے کیا کرتے ہیں , بہت سارے سنگھٹن والے غصے میں ہوں گے مجھے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا

20 فروری کی شروعاتی تقریر سے جو غلط فہمی ہوئی اُس کا خلاصہ 16 فروری کی اس پوسٹ میں ہے
لیکن وہاں اُس وقت ہر ایک پہ خوف, بوکھلاہٹ اس قدر طاری تھا کہ کوئی کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے امولیہ 14 دنوں کی ہراست میں چلی گئی دوسری طرف اُس کے والدین کے گھر پہ کچھ ہندو تنظیموں کی جانب سے پتھر بازی آور دھمکیان ملنے لگی جس سے بیچارے ماں باپ دہشت زدہ ہوگئے
یوں تو چند ماہ قبل شری شری روی شنکر نامی ہندو دھرم گرو نے بھرے جلسے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے لیکن اُس وقت کیوں کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگی ؟؟؟؟ آخر کیوں روی روی شنکر کو ملک کا غدار نہیں کہا گیا ؟؟؟
ایک ملک میں اس قدر دوغلہ رویہ کیوں ؟؟؟
ایک طرف دہلی میں سنگھی پولس نے کھلے عام تانڈاؤ مچایا ہوا ہے, قانون کے رکھوالے ہوتے ہوئے خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں, سنگھی دہشتگردوں کو کھُلی چھوٹ دے کر اُن کی پشت پناہی کی جارہی ہے ,کپل اور انوراگ نامی بی جے پی لیڈراں اشتہال انگیز بیانات دیتے ہوئے ملک کا ماحول بگاڑ رہے ہیں, دہلی آور دیگر علاقوں میں فساد کروارہے ہیں , بےگناہوں کا قتل وعام جاری ہے, کئی معصوموں کی جان جاچکی ہے لیکن نہ کوئی انہیں روکنے والا ہے نہ ہی سزا دینے والا
جبکہ ایک 19 سالہ بچی کی زبان سے نکلے ایک غلط اور نعرے پہ اتنا وبال مچ گیا ادھوری تقریر کو بنیاد بناکر اُس بچی کو ملک سے غداری کا الزام لگایا جارہا ہے جو بیحد شرم کا مقام ہے کہ آج گاندھی کے ملک میں گاندھی کے نقش وقدم پہ چلنے والوں کو دیش دروہی کہہ کر بار بار گاندھی کی سوچ کا قتل کیا جارہا ہے اور گاندھی کو قتل کرنے والے دہشتگرد انگریزون کے دلال گوڈسے کی اولاد ہم سے ہماری وفاداری , بھارتی ہونے کا ثبوت مانگ رہی ہے ………….

Comments are closed.