Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

رکعات تراویح کے بارے میں اختلاف
سوال:- میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں، اس میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ امام صاحب نے جب تراویح میں سلام پھیرا تو رکعات کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہوگیا، بعض لوگ کہنے لگے کہ دو کے بجائے تین رکعات امام صاحب نے پڑھادیاہے، بعض کا کہنا تھا کہ امام صاحب نے دو ہی رکعت پڑھائی ہے، امام صاحب کی بھی یہی رائے تھی کہ انہوں نے دو ہی رکعت پر سلام پھیراہے، ایسی صورت میں نماز دہرائی جائے گی یا امام کی بات قابل قبول ہوگی یا مقتدی کی؟(قاری سلیم اللہ، حافظ بابا نگر)
جواب:- اس سلسلہ میں اصل امام کی شخصیت ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو پوری نماز کا ضامن قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:الإمام ضامن (ترمذی:۱؍۵۱)؛ لہٰذا اگر امام صاحب کو پورا اطمینان ہو کہ انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی ہے تو اسے دو ہی رکعت سمجھا جائے گا، اگر امام صاحب نے خود اس بات پر اطمینان و یقین نہ کیا ہو کہ انہوں نے دو رکعت پر ہی سلام پھیرا ہے، تو پھر مقتدیوں کا جو گروہ ان کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد ہے، ان کی رائے پر عمل کرسکتے ہیں، یعنی اگر دو رکعت کے بارے میں رائے بنے تو نما ز لوٹانے کی ضرورت نہیں اور اگر تین رکعت کا غالب گمان ہو تو نماز کا اعادہ کرے :إذا سلم الإمام فی ترویحۃ فقال بعض القوم : صلی ثلاث رکعات و قال بعضہم : صلی رکعتین، یأخذ الإمام بما کان عندہ فی قول أبی یوسفؒ ولا یدع علمہ بقول الغیر، وإذا لم یکن الإمام علی یقین یأخذ بقول من کان صادقا عندہ (خانیہ: ۱؍۹۳۲)

کھارے پانی سے کلّی

سوال:-روزے کی حالت میں اگر کھارے پانی سے وضو یا کلی کی جائے ، تو کیا اس میں کوئی مضائقہ ہے ، جب کہ اس پانی میں نمک کا جز ہوتا ہے ؟ (تقی الدین، کھمم )
جواب:- پانی خواہ میٹھا ہو یا کھارا ، اس سے وضو کرنے یا یوں ہی کلی کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ پانی کا ذائقہ روزہ کے لئے چنداں مضر نہیں ، ورنہ روزے کی حالت میں کلی کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہوتی ، بالخصوص ان حالات میں کہ حجاز کا علاقہ سمندر کے ساحل پر واقع ہے اور وہاں بہت سے کنویں کھارے پانی کے ہوتے تھے ، اگر کھارے پانی سے وضو اور کلی کی ممانعت ہوتی تو ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہوتا ۔

بچوں سے روزہ رکھوانا
سوال:- بچوں کو روزہ کتنے سال کی عمر میں رکھنا ہوگا ؟ آج کل بعض بچے چار تا پانچ سال کی عمر میں روزہ رکھتے ہیں، یہ طریقہ صحیح ہے یا غلط ؟( اریبہ، سنتوش نگر)
جواب:- روزہ دوسری عبادتوں کی طرح بالغ ہونے کے بعد ہی فرض ہوتا ہے؛لیکن جسمانی عبادتوں کا اچانک شروع کرنا اور اس پر کار بند رہنا دشوار ہوتاہے ، اسی لئے بلوغ سے پہلے ہی ان عبادتوں کی عاد ت ڈالنی چاہئے تاکہ عبادت فرض ہونے کے بعد اس کی ادا ئیگی میں دشواری نہ ہو ، نماز کے بارے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا با ضابطہ حکم دیا کہ بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کو کہا جائے اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر سرزنش بھی کی جائے ، (ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۹۵) روزہ کے بارے میں غالبا ایسی کوئی صراحت منقول نہیں، لیکن یہ ظاہر ہے کہ نماز سے زیادہ روزہ کی عادت ڈالنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، اس لئے بدرجۂ اولی بالغ ہونے سے پہلے اس کی عادت ڈالنی چاہئے ، اور نماز پر قیاس کرتے ہوئے سات تا دس سال کی عمر سے کچھ روزے رکھوانے چاہئیں، بچوں کے روزہ کے لئے کسی خاص عمر کی تحدید نہیں ، اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس میں روزہ کو برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوگئی ہو اور وہ روزہ کا شعور رکھتا ہو ، تاکہ اس کی نیت کر سکے ۔

غسل کریں یا سحری کھائیں ؟
سوال:- اگر کسی شخص کو رات میں احتلام ہوگیا اور فجر کا وقت بھی قریب ہے ،اگر غسل کریں تو سحر نہیں کرسکتے، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟( کلیم الدین، نظام آباد)
جواب:- ایسی صورت میں بہتر ہے کہ سحری کھالیں، پھر غسل کرلیں، تاکہ سحری کی سنت بھی ادا ہوجائے اور نماز فجر سے پہلے پاکی بھی حاصل ہوجائے، فقہاء نے لکھا ہے کہ حالتِ جنابت میں کھانے پینے میں کچھ حرج نہیں، البتہ بہتر ہے کہ کھانے پینے سے پہلے کلی کرلیں اور ہاتھ دھولیں۔ وإن أراد أن یأکل أو یشرب فینبغی أی یتمضمض ویغسل یدیہ ثم یأکل و یشرب ‘‘ (بدائع الصنائع:۱؍۱۵۱)

احرام باندھنے کے بعد عمرہ نہیں کرسکے ؟
سوال:- میرے ہم زلف اور نسبتی ہمشیرہ سعودی عرب میں مقیم ہیں ،یہ دونوں عمرہ کی نیت سے جدہ سے احرام باندھ کر بذریعہ کار مکہ کے لئے روانہ ہوئے ، دورانِ سفر مکہ سے بہت پہلے ان کی کار حادثہ کا شکار ہوگئی ، دونوں کو شدید چوٹ آئی ، میرے ہم زلف کا آپریشن ہوا ، اور نسبتی ہمشیرہ کو ٹانکے لگے اور عمرہ بھی نہیں کرپائے ، فی الحال عمرہ کرنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں ، ایسی صورت میں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟ کیا ان کو دم دینا ہوگا اور دینا ہو تو کیا سعودی عرب میں ہی دینا ہوگا یا ہندوستان میں بھی دے سکتے ہیں ؟ ( محمد بابر، جل پلی)
جواب:- جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ چکا ہو اور کسی وجہ سے سفر نہیں کرپایا ، تو اسے ’’ محصر ‘‘ کہا جاتا ہے ، محصر کے لئے قربانی دینا اور آئندہ عمرہ یا حج جس کا ارادہ کیا تھا ،اسے پورا کرنا واجب ہے ، قربانی کرنے کی صورت یہ ہے کہ حرم میں قربانی کرائی جائے اور جس کو قربانی کا وکیل بنائے ، اس سے دن متعین کرلے ، مقررہ دن پر قربانی کی جائے اور قربانی کے بعد ہی وہ شخص حلال ہو : و إذا جاز لہ التحلل یقال لہ ابعث شاۃ تذبح فی الحرم و واعد من تبعثہ بیوم بعینہ یذبح فیہ ثم تحلل (ہدایہ مع الفتح: ۲؍۱۲۴) اس لئے ان حضرات کو جلد سے جلد حرم میں دم دینا چاہئے ، حدود حرم سے باہر قربانی کرانا کافی نہیں اور صحت یاب ہونے کے بعد جلد سے جلد اس عمرہ کی قضا کرنی چاہئے ۔

رفاہی کاموں میں زکاۃ کی رقم کا استعمال
سوال:- ۲۱/ مارچ ۲۰۱۰ء کے اخبار کے بہ موجب اتر پردیش کے مسلم غلبہ والے موضع سراج پور کی عوام نے زکاۃ کی رقم سے سڑکوں کی مرمت کی ہے ، کنویں کھدوائے ہیں ، اسکول قائم کئے ہیں ، سراج پور کے سر پنچ (سابق) احسان الحق صاحب نے فون پر یہ جان کاری میڈیا والوں کو دی ، ۶۵لاکھ روپیوں سے ایک پل بھی تعمیر کیا جارہا ہے ، یہ موضع اعظم گڑھ میں واقع ہے ، دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا زکاۃ کی رقم سے متذکرہ بالا تعمیری کام انجام دئے جاسکتے ہیں ؟ (صلاح الدین، بلڈانہ)
جواب:- زکاۃ کے ادا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ کسی مستحق شخص کو اس کا مالک بنادیا جائے ، ہر طرح کے کارِ خیر میں زکاۃ کا استعمال نہیں ہوسکتا ، پل کا بنانا، راستوں کی مرمت ، مسجدکی تعمیر وغیرہ یقینا خیر اور بھلائی کے کام ہیں ؛ لیکن کوئی ایک شخص ان کا مالک نہیں ہوتا اوران کا استعمال امیر و غریب ہر طرح کے لوگ کرتے ہیں ؛ اس لئے ان حضرات کا عمل ناواقفیت پر مبنی ہے ، سڑکوں کی مرمت ، کنویں کی کھدوائی اور اسکولوں کے قیام سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی ، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے : ولا یجوز أن یبنی بالزکاۃ المسجد وکذا القناطیر والسقایات وإصلاح الطرقات وکري الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ (ھندیہ:۱؍۱۸۸)

نماز میں دانت کی پھنسی ہوئی چیز نگل لینا
سوال:- میرے دانت میں کیڑا لگ جانے کی وجہ سے بڑا سوراخ ہوگیا ہے ، اس میں کھانے پینے کی چیزیں اٹک جاتی ہیں ، جب تک وہ نکل نہیں جائے ، بے چینی سی رہتی ہے ، اگر کوئی چیز کھاکر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو بعض دفعہ بے خیالی میں زبان سے پھنسی ہوئی چیز نکالکر نگل جانے کی نوبت آجاتی ہے ، ایسی صورت میں نماز ٹوٹ تو نہیں جائے گی ؟ (ام ہانی، بالا پور)
جواب:- نماز کے درمیان اگر کوئی چیز باہر سے منھ میں ڈالی جائے اور اسے نماز پڑھنے والا نگل جائے تب تو نگلی ہوئی چیز تھوڑی ہو یا زیادہ، نماز فاسد ہوجائے گی ؛ لیکن دانت میں پھنسی ہوئی چیز یا کوئی بھی ایسی چیز جو نماز شروع کرتے وقت منھ کے اندر موجود رہی ہو، اگر چنے کے دانہ سے کم مقدار کی ہو ، اور اسے نماز کے درمیان نگل گیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی ، اگر چنے کے دانہ کی مقدار ہو یا اس سے زائد ہو اور نماز کی حالت میں نگل جائے ، تو نماز فاسد ہوجائے گی : ثم اختلفوا فی القلۃ والکثرۃ ، بعضہم قدروا القلیل ، بمادون الحمصۃ (ھندیہ:۱؍۱۲۹)

چلتے ہوئے استنجاء خشک کرنا
سوال:- اکثر سن رسیدہ لوگوں کو استنجاء کے بعد پیشاب کے قطرات آ نے کی نوبت آتی رہتی ہے ، اس کے لئے لوگ ڈھیلے کا استعمال کرتے ہیں اور ہاتھ میں ڈھیلا لے کر پائجامہ میں رکھ کر چند قدم چلتے ہیں ، یا دونوں پاؤں کی قینچی بناتے ہیں ، یہ عمل لوگوں کے سامنے ہوتا ہے اور بعض دفعہ سرِ راہ ایسا کیا جاتاہے ، خواتین بھی وہاں سے گذرتی ہیں ، اس سلسلہ میں شریعت کا حکم کیا ہے ؟(محمد طارق، سعید آباد)
جواب:- چوںکہ پیشاب کا ایک قطرہ بھی وضوء کے ٹوٹنے کے لئے کافی ہے اوراس کے علاوہ یہ نجاست غلیظہ بھی ہے ، کپڑے پر لگنے کا پورا اندیشہ ہوتا ہے ؛ اس لئے فقہاء نے ایسی تدبیر اختیار کرنے کو کہا ہے کہ پیشاب کے قطرات پوری طرح نکل جائیں ، جیسے کھڑا ہوجایا جائے ، کھانسا جائے ، مثانہ پر ٹھنڈا پانی ڈالا جائے ، یا ایک آدھ قدم چلا جائے ؛ تاکہ پاؤں میں حرکت ہو اور استنجاء کرنے والے کو اطمینان ہوجائے ، اس عمل کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ استبراء ‘‘ کہتے ہیں ، اب جو صورت آپ نے لکھی ہے ، اس میں اگر بے ستری کی صورت نہ ہو اورجسم کھلنے کی نوبت نہ آئے تو یہ ناجائز نہیں ؛ لیکن عام لوگوں کے سامنے اس طرح استنجاء کرنا شائستگی اور ادب کے خلاف ہے ؛ اس لئے اس سے بچنا چاہئے ، بہت سے احکام از راہِ ادب دئیے جاتے ہیں ، جیسے غسل کرتے وقت سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے ، راستہ چلتے ہوئے کھانے پینے سے ممانعت کی گئی ہے ، بلا عذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو منع فرمایا گیا ہے ، یہ احکام ادب ہی کی بناء پر ہیں ؛ اس لئے جن لوگوں کو اس انداز پر استبراء کی ضرورت پیش آتی ہو ، انہیں چاہئے کہ اپنے گھر میں یا بیت الخلاء کے اندر یا ایسی جگہ پر استبراء کریں ، جہاں عام لوگوں کی آمد و رفت نہیں ہے۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.