Baseerat Online News Portal

آٸڈیل انسانی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ۔۔۔

 

احمدنادرالقاسمی۔۔٢٨ دسمبر١٤٤٣ھ۔

انسانی آبادی کےکسی بھی خطہ کی خوبصورتی وہاں کا صاف ستھرا ماحول ۔ماحولیاتی توازن ۔ہریالی ۔ہرطرح کی گندگی اور ۔جراٸم وکراٸم سے پاکی ۔اوروہاں بسنے والے لوگوں کے عمدہ اخلاقی ویلوزہوتےہیں ۔

اسی لٸے اسلامی شریعت نے جہاں ہرانسان کو اچھے اخلاق کاحامل اورہمدرد ہونے کی ترغیب دی ہے وہیں شریعت نے ۔فوحش ۔یعنی ہرقسم کے بےہودہ کام ۔منکرات۔یعنی ہرطرح کےناپسندیدہ امور۔اوربغی ۔یعنی جراٸم ودست درازی اورغیرقانونی طریقے پر حد سے تجاوز۔

ان تینوں منکرات سے معاشرے کو پاک کرنے۔اورپاک رہنے کو ایک آٸڈیل انسانی معاشرے کی بنیاد قرار دیاہے ۔”قل انما حرم ربی الفواحش ماظھر منھاومابطن “(سورہ اعراف ٣٣)۔

اور”ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان وایتا ٕ ذی القربی ۔وینھی عن الفحشا ٕوالمنکر والبغی “(سورہ نحل۔ ٩٠)۔

اس مفہوم کی چار آیتوں میں ہر قسم کی فحاشی اور شیاطین وبدطینت عناصر کی طرف سےفحش ومنکرمیں معاشرے کو مبتلاکرنے والے اسباب کی ترویج واشاعت کی مذمت کی گٸی ہے ۔

عہد جدید کے افسانوی اورہوس پرستانہ لواسٹوریز کے واقعات ۔سوشل میڈیا اورٹیلی فونک کانا پھوسی اورناشاٸستہ چیٹنگ اوربات چیت بھی اسی ”ومابطن“کے زمرے آتے ہیں ۔جبکہ چھ آیتوں میں فواحش ومنکرات کے قریب بھٹکنے سےبھی روکا گیاہے۔”ولاتقربواالفواحش ماظھرمنھا ومابطن“

جراٸم اوراخلاقی براٸیوں سے روکنے کا جتنا عمدہ اخلاقی اورقانونی اصول اسلام نے دنیاکو دیاہے ایساجامع ترین اصول دنیا کےنہ توکسی قانون میں ہے اورنہ کسی مذھبی مسلمات میں ۔جبکہ آج کی دنیا ساٸبر کراٸم کے باب بے شمار نکات کاتعین کرچکی ہے ۔

فواحش کاداٸرہ۔

اس بارے میں علما ٕ اخلاقیات نے بہت سی تفصیلات پیش کی ہیں ۔مثلا علامہ مودودی ایک جگہ لکھتے ہیں

”اللہ تعالی تین براٸیوں سے روکتاہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو اوراجتماعی حیثیت سے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں

پہلی چیز فحشا ٕ ہے جس کا اطلاق تمام بےہودہ اورشرمناک افعال پر ہوتاہے ۔ہروہ براٸی جوجواپنی ذات میں نہایت قبیح ہو فحش ہے۔مثلا بخل۔زنا۔برہنگی وعریانی ۔عمل قوم لوط ۔محرمات سے نکاح ۔چوری ۔شراب نوشی۔بھیک مانگنا۔گالیاں بکنا۔بدکلامی کرنا ۔وغیرہ ۔اس طرح علی الاعلان برے کام کرنا اوربراٸیوں کو پھیلانا مثلا جھوٹا پروپیگنڈا ۔تہمت پوشیدہ جراٸم کی تشہیر ۔(جیسے میڈیا میں عصمت دری کے واقعات کو پھیلانا ۔جنسی جراٸم پرمبنی ڈرامے بنانا اوراسے ٹی وی اورنٹ کے ذریعہ سوشل میڈیا کے توسط سے عام کرنا۔وغیرہ)بدکاریوں پرابھارنے والے افسانے اورڈرامے اورفلم۔عورتوں کا بن سنورکر منظرعام پر آنا علی الاعلان مردوں اورعورتوں کے درمیان اختلاط ہونا۔اوراسٹیج پر عورتوں کاناچنا اورتھرکنا اورناز وادا کی نماٸش کرناوغیرہ۔“(معاشیات اسلام۔170)اسی غیرمحرم خواتین اوراجنبیہ سے تنہاٸی ۔ہنسی مذاق اورسرگوشی۔اور میڈیامیں بےحجاب ۔برہنہ سر۔بن سنور کر پروگرام پیش کرنا انٹرویو ۔ادبی پروگراموں میں خواتین شاعرات کا مرد شعرا ٕکےدرمیان بن سنور کر برہنہ سربیٹھنا اوراشعار پڑھنا وغیرہ یہ سارے ہی امور تبرج وبےپردگی کی وجہ سے فحشا ٕ کے زمرے میں آتے ہیں اورخیرالقرون کی مہذب خواتین میں دور دور تک ایسا دیکھنے میں نہیں ۔آیا ۔اگرچہ ان چیزوں کے عام ہونے اورمغرب کے آزاد معاشرے سےمنتقل ہوکر مشرقی معاشرے کاحصہ بن جانے کی وجہ سے ۔لوگ محسوس نہیں کرتے یاان کو غلط ہونے کااحساس نہیں ہوتا ۔

اب اسوقت کی دنیا کا اگرجاٸزہ لیا جاۓ تو محسوس ہوتا ہے کہ اسکے نزدیک اچھی سوساٸٹی اورآٸڈیل انسانی گروہ کاپورا لب لباب صرف یہ رہ گیاہے کہ انسان جس آبادی اورمعاشرے میں رہ رہاہے اسکے اگرد کی سڑکیں اچھی ہوں ۔پارک ہو کوڑے کچرے نہ ہوں ۔خاموشی سے اپنے گھرسے نکلیں ۔اوربحفاظت اپنے گھرکولوٹ آٸیں ۔کوٸی کچھ بھی کرے۔ بس دوسرااس کی زندگی اورمرضی میں مداخلت نہ کرے۔اخلاقیات پرکسی کے کوٸی سوال نہ کرے ۔ہرکوٸی کسی کےاخلاقی غیراخلاقی معاملات کو ذاتی سمجھ کر اورنجی کہ کرگزرجاۓ ۔اچھی معاشرت کایہ معیار ہوکررہ گیاہے۔۔انسان کی سوچ کا زاویہ اس قدر تبدیل ہوچکاہے۔ آج دنیا کے انسانی معاشرے میں پاٸی جانے والی بےاعتدالیوں کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہاں یہ بھی ایک اہم سبب ہے کہ کسی کی اچھاٸی اوربراٸی سے دوسرے کو کوٸی سروکار نہیں رہا ۔ہرشخص کی زندگی کے جملہ مفادات اس کی اپنی ذات تک محدودہوکررہ گٸے ہیں۔

اگر ہم اچھا اورمثالی معاشرہ بناناچاہتے ہیں تو اس تنگ سوچ کے حصار سے باہر ایسے نیک طینت افراد کاگروہ تشکیل دینا ہوگا۔۔

Comments are closed.