Baseerat Online News Portal

اسلامو فوبیا سیکولر ہند کا ایک ناسور 

 

نور اللہ نور

 

ہماری گنگا جمنی تہذیب کی مثال دی جاتی ہے ، اخوت و مساوات میں ہماری نظیر پیش کی جاتی ہے ، دعویٰ ہیکہ ہر فرد خوشحال ہے اور مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے وہ سب سے خوشحال اور اپنی مذہبی معاملات میں آزاد ہے جو کہ صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور فریب ہے.

حقیقت یہ ہیکہ نہ تو ہندوستان کی وہ روح باقی ہے جو اس کی وجہ شہرت تھی اور نہ ہی وہ اخوت محبت ہے جس میں ہم عدیم النظیر ہیں.

بلکہ ہمارا ملک اسلام اور مسلمان دشمنی میں انسانیت کی سطح سے نیچے اتر آیا ہے آزادی کے بعد سے اسلاموفوبیا کا زہر آہستہ آہستہ پورے ملک میں سرایت کر چکا ہے ، اسلام اور مسلمانوں سے تعصب و نفرت اس سیکولر ہند کے لئے ایک ناسور بنتا جا رہا ہے جس کی کوئی دوا فراہم نہ ہوسکی جس سے اس ناسور پر بندش لگے.

یہاں ہر ذاتی دھرم کے لوگوں کو سکون و عافیت سے رہنے کا حق ہے سوائے مسلمانوں کے؛ ” سکھ "اپنی مذہبی معاملات میں خود مختار ہیں ، ” جین” اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں، برادران وطن بھی اپنے سارے معاملات میں خود مختار ہیں بلکہ اب تو ہندو توا کا زہریلا نظریہ کھلے عام اپنے جوہر دکھا رہا ہے ہر ایک اپنے طور پر آزادانہ زندگی گزارنے کا حقدار ہے.

 

مگر جب بات مسلمانان ہند کی ہو یا پھر مذہب اسلام کی اسلاموفوبیا میں سڑا ہوا سماج اس کی مذہبی امور سے لیکر ذاتی زندگی تک ہر ایک میں دخل اندازی سے گریز نہیں کرتا، بلکہ مذہبی آزادی یہاں مسلمانوں کے لئے بس ایک مفروضہ کی حیثیت رکھتا ہے نہ تو جان محفوظ اور نہ ہی مذہبی شعائر مامون.

سکھ داڑھی رکھے ، اپنے ساتھ ہتھیار رکھے کوئی حرج نہیں ، برادران وطن بھگوا گمچھا پہنے ، رام نومی میں کھلے عام تلوار لہرائے کوئی دقت نہیں اس سڑے ہوئے سماج کو اگر تکلیف ہوتی ہے تو اذان کی آواز سے ، ان کے پیٹ میں مڑوڑ ہوتی ہے ہمارے چہرے پر داڑھی دیکھ کر ، مدارس ان کی آنکھ کا تنکا ہیں مگر یہ بے حس بے مروت معاشرہ ” آر ایس ایس” جیسے آتنکی تنظیم پر ان کی زبان نہیں کھلتی.

طلاق کے معاملے کو عدلیہ میں گھسیٹنا ، بابری پر غیر منصفانہ فیصلہ ، مذہب کی بنیاد پر عیاری سے ملک کو دوسری تقسیم کا ضرب دینا ، اور مسلم نوجوانوں کو ناکردہ گناہ کے الزام میں زندان کے نذر کرنا یہ مسلم دشمنی کی ایک واضح اور شفاف مثال ہے.

” اخلاق” کی موت ، "پہلو کا قتل” ، ” افرازل ” کی ہتھیا اور حال ہی میں لنچنگ کے شکار ہوئے ضعیف شخص کی موت یہ بتلا رہی ہے اب اسلاموفوبیا ایک ناسور بن چکا ہے اور اس طرح یہاں کے ہر ذہن میں سرایت کر چکا ہے کہ انہیں ٹوپی، داڑھی ، مسجد ، مدرسے ہر ایک سے نفرت ہے اور یہ سب ان کی آنکھ کا تنکا بن چکے ہیں

اسلاموفوبیا کے زہر نے یہاں شفاف فضا کو انتہائی گدلا اور آلودہ کردیا ہے اور ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکا ہے پتہ نہیں اس کا علاج کب ہوگا؟ اور اس زہر کا تریاق کب تک میسر ہوگا؟

Comments are closed.