Baseerat Online News Portal

اسلام کے قلعوں کے جھوٹے محافظ

محمد نصر ظہور،

عموما مدارس اسلامیہ کا تصور یہ ہوتا ہےکہ یہ اسلام کے قلعے ہیں، اور یہاں دین کے محافظ تیار ہوتے ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کےاحکام کی ہر لمحہ پاسداری کی جاتی ہے، قال اللہ وقال الرسولﷺ کی پرسوز صداٶں میں اخلاقی قدریں بام عروج پر پہنچ جاتی ہیں، احترام انسانیت کا لحاظ اور عزت نفس کا خیال رکھاجاتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی مکمل رعایت کی جاتی ہے، کسی ادنی سے ادنی شخص کو بھی اپنے عزت و وقار کے مجروح ہونے کا اندیشہ نہیں رہتا۔

مختصرا اگر یہ کہاجاۓ کہ مدارس اسلامیہ اپنی چہار دیواری کے اندر ایک مکمل اسلامی ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں کتاب و سنت نفاذ ہوتا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

اس کا مشاہدہ عہد نبویﷺ سے ماضی قریب تک ہم نے کیا بھی ہے۔ ماضی قریب میں اگر دیکھیں تو دارالعلوم دیوبند کا قیام جس وقت اور جس جزبے کے تحت عمل میں آیا وہ اس کی بہترین مثال ہے۔ دارالعلوم کے فرزندوں اور بانیان دارالعلوم نے جس بلند حوصلگی اور پامردی سے آنے والے فتنوں کا مقابلہ کیا اور جو افراد سازی کی وہ مدارس اسلامیہ کی حقیقی ترجمان ہے۔ اور پھر دارالعلوم ندوةالعلما ٕ کا قیام عمل میں آیاجس نے مدارس کے نظام و نصاب کو ایک نٸ سمت دی۔

موجودہ دور میں بھی مدارس اسلامیہ کی مذکورہ بالا خصوصیات ہی مطلوب ہیں، اور تمام شرور فتن کی بیخ کنی کےلیے ان خصوصیات کے حامل افراد کی اشد ضرورت ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جب مدارس کے اندر ہی ان کے ذمہ داران و ناظمین خود کو شرعی و اخلاقی حدود و قیود سے آزاد سمجھنے لگیں، احترام انسانیت کو پامال کرنے لگیں، اپنے ماتحتوں کی عزت نفس کو پیروں تلے روندنے لگیں، طلبا ٕ و اساتذہ کو صبر ایوب کی تلقین کرتے ہوۓ خود تخت سلیمانی کے حریص رہیں، اپنے چہیتوں اور لاڈلوں کی خاطر طلبا ٕ و اساتذہ کی عزت کو تاراج کرتے رہیں، طلبا ٕ پر سب و شتم، طعن و تشنیع کریں، اساتذہ پر اپنے ناکردہ احسان جتلاٸیں، تو کیا ایسے افراد تیار ہوسکیں گے جو اسلام کی صحیح نماٸندگی کرسکیں، جو معاشرے کی براٸیوں کو ختم کرسکیں اور نٸ نسل کی تربیت کرسکیں۔

کیا نبی مکرمﷺ کا یہ فرمان ”کلکم راع وکلکم مسٶول عن رعیتہ“ محض جمعہ کے دن منبر کے پاس کھڑے ہوکر بیان کردینا کافی ہے، کیا اس پر عمل کرنا ناگزیر نہیں، کیوں اپنے متعلق یہ بات یاد نہیں رہتی ”لم تقولون مالاتفعلون“ کیا یہ لوگ مرفوع القلم ہوچکے، جبکہ حدیث نبویﷺ تین قسم کے لوگوں کو مرفوع القلم بتاتی ہے۔

اب جبکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا، نبی رخصت ہوچکے کوٸ چوتھی قسم تو وجود میں آنہیں سکتی۔

لہذا! یا تو یہ لوگ اپنے کرتوت سے باز آٸیں یا اگر ”مرفوع القلم عن ثلاث“ میں سے ایک ہیں تو علاج کرواٸیں۔ ورنہ اب ان کی اصلاح کےلیے ان شا ٕ اللہ یہی نوجوان طلبا ٕ و فضلا ٕ آگے آٸیں گے جن کی زبان و قلم کے دہانے کھلنے پر یہ بلبلا اٹھیں گے اور علی الفور گستاخ و بے ادب کی سند سے نوازیں گے، تربیت پر بھی لمبی لمبی تقریریں کریں گے تب بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

نوٹ: اس مضمون کا تعلق ان دو چند مدارس سے ہے جہاں ایسے واقعات عام ہیں۔ ورنہ مدارس اسلامیہ تو ہماری جان اور ہماری شناخت ہیں۔

 

Comments are closed.