Baseerat Online News Portal

آزاد بھارت اور بنیادی انسانی حقوق؟

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،ارریاوی
[email protected]
ہمارا ملک دنیا کاسب سے بڑا جمہوری ملک ہے، جس میں مختلف ادیان و مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہندو اور مسلم کی آبادی دیگر مذاہب کے لوگوں سے زیادہ ہے، اس ملک کاایک جمہوری دستور و آئین بھی ہے، انگریزوں سے آزادی کے بعد ہم براداران وطن اسکے سایے میں ستر سالوں سے زائد اپنی زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں اور اسکے مطابق اپنے مذہب پر عمل اور آزاد تعلیم حاصل کرتے چلے آرہے ہیں،اسلئے آئین ہماراآئینہ حیات بھی ہے اور قانون ومعاہدہ بھی!جس میں سبھی مذاہب اور انکے پیروکاروں کے لیے بنیادی انسانی حقوق مندرج ہیں،جنکو ہم دستور و آئین کے نام سے جانتے ہیں، جنکی حفاظت کے ہم سب ذمہ دار ہیں، عدلیہ،حکومت اور حفاظتی دستے سب انکی حفاظت کے ذمہ دار ہیں،اسی لیے کہاجاتا ہے کہ دستور کی حفاظت و بقا ملک کی حفاظت و بقا ہے جوالحمد للہ ملک میں نافذ العمل بھی ہے۔اللہ اسکواور ملک کو کسی نظر بد سے بچائے!پندرہ اگست ہماری آزادی اور ۶۲ جنوری دستور کے نفاذ کادن ہے جس میں ہم سب ہرسال خوشی اور جشن مناتے ہیں اور اسکی احیاء اور پرخوں کے کارنامے کے ترانے گاتے ہیں،ابھی ہم پندرہ اگست کے جشن آزادی سے فارغ ہوکر بیٹھے ہی ہیں، بلکہ ہرسال آزادی کے دن ترنگا جھنڈا تلے اپنی خوشی کا جشن مناتے ہیں اور متعدد پروگرام اور اس میں تقاریر وخطابات کے ذریعہ اپنی قوم وملک کے بہادر و مجاہد پرخوں کو جہاں ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور انکی داستان لہو اور جان و مال کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں، وہیں ہم عملی طور سے اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ جسطرح انہوں نے اخوت و مودت اور یکجہتی و یگانگت کا عظیم مظاہرہ کیا تھا، ہمارے حقیقی دشمنوں اور شرپسند عناصر سے لڑنے کا فتویٰ بھی دیا تھا اور عملا اپنی اپنی قربانیاں پیش کرکے ہمیں یہی سبق بھی دیاتھا اور ملک عزیز کو سامراجیوں کے غاصبانہ قبضے سے پاک و صاف اور آزاد کرایا تھا اور ہندو مسلم کے باہمی مشورے،اتحاد و اتفاق، مساوات و برابری اور گنگا جمنی تہذیب کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں جمہوری نظام ودستور دیا تھا جس میں ہمارے لیے جینے، مرنے، لکھنے، پڑھنے، بولنے، سوچنے کی آزادی کیساتھ ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے کا کھلی آزادی والاقانون درج ہے گویا ہم اور آپ آزادی کے دن اسکا جشن مناکر ترنگے کے حقیقی علمبردار ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، اسکے پیغام و تقاضے کا جامع پیکر بن کر اس جھنڈا تلے نفرت و عداوت سے بالاتر ہو کر جینے اور مرنے کا سبق دہراتے ہیں اور۶۲ جنوری کو دستور کے نفاذ کی خوشی کا دن مناتے ہیں اوراسکی احیاء و تجدید کے لیے عملا اپنی اپنی کمر باندھتے ہیں اور لسانی یہ معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ آج بھی اگر ملک کو ہماری بلیدان کی ضرورت پڑے تو ہم سب متحد ہو کر جیسا کہ ہمارے پرخوں نے میدان عمل میں متحدہ طور پر عظیم کارنامہ انجام دیا تھا اور دستور وآئین، ترنگے جھنڈے، بہترین ترانے، آزادی کے گیت اور مختلف نظموں اور طریقوں سے ہمیں آشنا کرایا تھا۔ آپسی دوستی اور بھائی چارے کا درس دیا تھا۔ہم بھی اسی طرح قربانیاں پیش کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا!!!!!

مگر افسوس! جوں جوں وقت گزرتا گیا اور صحیح تعلیم وتربیت اور اخلاق وکردار سے دوریاں اور بے زاریاں بڑھتی گئیں،ہم اپنے کردار اور رویے سے عظیم درس وسبق کوفراموش کرتے چلے گئے اور آج ہم اپنے پرخوں کی اولاد و نسل ہونے کے باوجود اپنے قول و عمل میں تضاد اور مختلف تناقضات سے اپنے ملک کی اخوت و مودت اور یکجہتی و یگانگت کی فضا میں خود ہی زہر گھول رہے ہیں، اپنے پرخوں اور آباء واجداد کی محنتوں اور قربانیوں پر تیزاب اور مٹی ڈال رہے ہیں، جنہوں نے ایک جٹ ہو کر انگریزوں کے ناپاک عزائم سے سونے کی چڑیا جیسے اس عظیم ملک کی سنسکرتی کو بچایا تھا، اپنے خون اور قربانیوں سے اس چمن کو سینچا تھا اور سامراجیوں کی غلامی سے ہمیں چھٹکارا دلاکر اسے گل گلزار بنایا تھا، آج ہم انکے ارمانوں پر پانی ڈال رہے ہیں اور ہندو مسلم نفرت و عداوت اور بھید بھاؤ کا بیج بو کر اس چمن کو اجاڑ رہے ہیں اور ملک کی یکجہتی کو بہت نقصان پہونچارہے ہیں، جنہوں نے ہر حال میں ہمیں متحد رہنے کا حکم دیا تھا اور ایکدوسرے کے دکھ درد کو بانٹنے اور آپسی خیر خواہی کاپاٹھ پڑھایا تھا، ہندو مسلم سکھ عیسائی سب ہیں آپس میں بھائی بھائی کا نعرہ لگایا تھااور سبھوں کیساتھ انسانی ہمدردی کے احساسات و جذبات کو اجاگر کیا تھا اور اسکا نسخہ بھی حوالے کردیا تھا!! آج ہم مختلف سازشوں اور پروپیگنڈوں کے چکر میں پھنس کر اپنے ایکتا اور اتحاد و اتفاق کے عظیم پیغام ونسخے کو تارتار کررہے ہیں اور اپنے بڑوں کی ناقابل فراموش بلیدان اور سلوک و برتاؤ کو آپس میں لڑ جھگڑ کر ملیامیٹ اورخاکسترکررہے ہیں، ہمارے پرخوں نے حقیقی دشمنوں سے آزادی دلا کر دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہمارے حوالے اس لیے نہیں کیا تھا؟ کہ آج ہم آزادی کا جشن بھی منائیں، اسکے میٹھے گیت بھی گائیں اور اخوت و مودت اور یکجہتی و یگانگت کے ترانے بھی گنگنائیں اور دستور و آئین کے عظیم نسخے کو اپنے ناپاک عزائم و مقاصد کا ہدف اور نشانہ بھی بنائیں؟ ملک کے عظیم اتحاد وایکتاکو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیں؟ نئی تعلیمی پالیسی کے ہتھکنڈے کے ذریعہ صرف ایک ہی نظریہ حیات کا پرچار و پرسار کرکے باقی برادری کی نسلوں کے مستقبل کو تاریک بنادیں؟ انسان تو انسان حتی کہ زبان و ادب سے بھی اپنی دشمنی اور تنگ نظری کا ثبوت فراہم کریں؟ نفرت آمیز بیان بازی کے ذریعے ہندو مسلم فسادات اور خون خرابے کے ناقابل بیان واقعات سے ملک کی جمہوریت اور اسکے آئین پر سوالیہ نشان کھڑا کردیں؟ اور بڑی آسانی کیساتھ صرف زبان سے آزادی کے گیت گاتے رہیں اور اپنے کردار سے جمہوری ملک کی روح و مزاج سے منافقت، کھلواڑ و مذاق کا موقع فراہم کریں؟

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم طن ہے ہندوستاں ہمارا

کیا ہم آزادی کا جشن صرف اسلئے مناتے ہیں؟تاکہ ہم مجاہد و بہادر پرخوں، قوم وملک اور اسکے دستور و آئین کیساتھ دوہرا رویہ اپنائیں؟ دستور و آئین اور اس پر حلف کیساتھ بد عہدی کریں، حقیقتاً ہمارا یہ رویہ ہمارے پرخوں کے ساتھ بد عہدی اور مذاق ہے!! حتی کہ بعض شر پسند عناصر اور فرقہ پرستوں نے پر امن ماحول میں اب یہ وہم و گمان کی باتیں پھیلانا شروع کردیا ہے: کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے؟ اور اسلامی ریاست کے قیام کی راہ تیزی سے ہموار ہورہی ہے؟ وغیرہ وغیرہ، بعض نا تجربہ کار افراد خوف کے عالم میں ملک کے دشمنوں کی باتوں میں پھنستے جارہے ہیں اور اس طرح وہ انکے سیاسی مفادات کا شکار بنتے جارہے ہیں، ملک کے دوسری معزز کمیونٹی سے کسی کمیونٹی کو لڑانا اور انکے خلاف بے تکی اور بے سروپاباتیں گڑھ کرمنافرت کی غرض سے پھیلانا کسی اچھے اور شریف آدمی کا کام نہیں ہو سکتا! یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کہ آزادی کا ترانہ بھی پڑھیں اور قوم و ملک اور برادران وطن کیساتھ دوہرا معیار بھی اپنائیں؟؟ کیا ہمارے آباء و اجداد نے ایسا دوہرا معیاراپنی زندگی میں کبھی اپنایا تھا؟؟ ہرگز نہیں! ہر گز نہیں!!۔

تجھے آباء سے اپنی کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار!وہ کردار!تو ثابت!وہ سیارہ!

بلکہ حقیقی مجاہدین آزادی کے ذہن و دماغ میں وہ عظیم تصور آزادی سوار تھا جس کا ہم لوگوں نے ابھی تک صحیح سے ادراک بھی نہیں کیا ہے؟ مفاد پرستوں نے آزادی کے وقت بھی اپنے مفاد کا خیال ملحوظ رکھتے ہوئے آزادی کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا، انکو کیا معلوم کہ آزادی اور یکجہتی کیا چیز ہوتی ہے، آج وہی ہمارے درمیان فتنہ پھیلا رہے ہیں!خواہ وہ لاکھ تدابیر اختیار کرلیں!! دستوری آزادی کا تصور جو ہمارے پرخوں نے ہمیں ذہنوں میں ڈالا ہے اور ہماری قوم و ملک کو پیش کیا ہے، فرقہ پرست عارضی طاقت وقوت اور سازش وپروپیگنڈہ کے ذریعہ اسکا تصور ہرگز بدل نہیں سکتے!! کیونکہ آزادی ہر شخص کا پیدائشی حق ہے، جیسے ہر بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے ویسے ہی ملک کا ہرفرد و انسان آزاد ہے، انکے حقوق اور وقار سب برابر ہیں، ہر شخص سارے حقوق اور آزادیوں کا مستحق ہے، تمام انسان کو اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے دائرے میں اپنی زندگی گزارنے کا پورا اختیار حاصل ہے، آزادی کیساتھ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا ہمیں قانونی حق ہے اور ملک کا قانون ہر شخص کو مساوی تحفظ فراہم کرتا ہے اور قانون کے سامنے سب برابر ہیں، جبرا کوئی اپنا دھرم نہ تو ہم پر اور نہ ہی ہماری نسلوں پر مسلط کرسکتے ہیں!؟

ہمارے آباء و اجداد نے ہمیں جو دستور وآئین دیا ہے، ہم انکے محافظ بنے رہیں گے اور کسی بھی طاقت کو اسکی بات کی اجازت نہیں دیں گے وہ ہمارے دستور سے کھلواڑ کریں:ہمارا دستور بتاتا ہے کہ کوئی بھی شخص بغیر کسی مداخلت کے اپنی سوچ و فکر اور اپنی تحریر و نگارش سے کوئی بھی رائے اور مشورہ دے سکتا ہے یا کسی بھی ذریعہ سے دوسروں تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے، ہر شخص کو پر امن اجتماع، بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے اپنا احتجاج و مظاہرے درج کرانے کا حق حاصل ہے اور اپنی الگ جماعت بناکر اپنا پورا نظام چلا سکتا ہے، زبردستی کسی کو اپنے مذہب و جماعت میں شامل کرنی کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی!! اور نہ ہی اسکی طرف راغب کرنے کے لیے کوئی حرص و طمع اور فتنوں کا جال پھیلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی طرح سے کسی مذہب و زبان کو ٹارگٹ بنایا جاسکتا ہے، اسی طرح ہر شخص کو قومی معاملات وانتخابات میں حصہ لینے اور اپنا اپنا ووٹ دینے کا پورا اختیار اور حق حاصل ہے، کسی ناحیے سے انکو بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہر شخص کو قومی و ریاستی ملازمت اختیار کرنے کا حق ہے غرض کہ ہر شخص مسؤل ہے کہ وہ متوازن و مستحکم معاشرتی وقومی نظام زندگی اور بنیادی انسانی حقوق کی بقا و تحفظ اور انکے فروغ و ترویج کرے۔ جس میں کسی کو بھی مداخلت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔(جاری)

Comments are closed.