Baseerat Online News Portal

بابری مسجد _کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے۔ محمد صابر حسین ندوی

بابری مسجد _کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے۔

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے
وہ جو قاتل تھا اب ہے وہی مدعی
قاضی شہر نے فیصلہ دے دیا
لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا
اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے
وہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی
وہ جو خنجر میں تھوڑا سا خم آ گیا
اس کا تاوان کس سے لیا جائے
شہید بابری مسجد کو رسوا کرنے والے بھی اب بری ہوگئے، ہائے کیا لکھیں! کیا کہیں! انگلیاں فگار اپنی – خامہ خوں چگار اپنی-
بی بی سی ہندی کے مطابق خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا؛ کہ ٢٨/برس قبل بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا اس لئے تمام ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔ خصوصی عدالت کے جج کا مزید کہنا تھا کہ اس مقدمے میں نامزد ملزمان کے اس معاملے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں، قانون کے مطابق عدالت کی جانب اس کیس کا فیصلہ سنانے کے وقت اِس مقدمے میں نامزد تمام ٣٢/ ملزموں کو عدالت میں حاضر رہنے کا حکم دیا گیا تھا؛ لیکن کورونا کی وبا کے سبب بیشتر ملزمان، جن کی عمریں زیادہ ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کا فیصلہ سنا۔ اس مقدمے کے ملزمان میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان شامل تھے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہندو مسلم ایکتا، عدالت کی پاسداری اور گنگا جمنی تہذیب کی دہائی دینے والوں کے رخسار پر مکرر طمانچہ ہے، تو وہیں یہ ہندتو کی فتح ہے، حیرت کی بات ہے کہ جس کیس میں ملزمان کو بے گناہ بتلایا گیا انہوں نے خود انٹرویو دیتے ہوئے اسے اقرار کیا ہے، چنانچہ عدالتی کارروائی کے بعد بری ہونے والے ملزمان نے احاطہ عدالت سے باہر نکل کر میڈیا کو اس فیصلے پر اپنا اپنا ردعمل دیا ہے۔ بری ہونے والے ملزم ایل کے اڈوانی کے وکیل ومل سریواستو نے فیصلے کے بعد کہا کہ "تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا ہے، اتنے شواہد موجود نہیں تھے کہ الزمات ثابت ہو سکتے۔” اسی مقدمے میں دوسرے ملزم جے بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے مندر توڑا تھا، ہمارے اندر سخت غصہ تھا، ہر کارسیوک کے اندر ہنومان جی سما گئے تھے۔ ہم نے مسجد توڑی تھی، اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے۔ عدالت نے سزا نہیں دی۔ یہ ہندو مذہب کی فتح ہے، ہندو قوم کی فتح ہے”۔
اس فیصلے کے بعد نوجوانوں میں غم و غصہ ہے، قیادت کا رونا ہے، اور ہندوستان میں مسلمانوں کی بے وقعتی کی طویل داستان سرائی ہے، حالانکہ سب کچھ دودھ اور پانی کی طرح صاف ہے، بھارت میں مسلمانوں کا وجود آزادی ہند نہیں؛ بلکہ اس کی کوششوں میں ہندوازم کے زور سے ہی شروع ہوچکا تھا، پورے ملک میں ایک زہر بھرا جارہا تھا، سفید اور کھدر پہننے والے سیاہ دل کے ساتھ مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا رہے تھے، جب آزادی نصیب ہوئی تو پاکستان کا زخم، کشمیر کا سوز اور پھر گھر میں ہی تل تل مارنے کیلئے بابری مسجد کا قضیہ کھڑا کردیا گیا، بھولے بھالے مسلمان شور شرابے میں گم ہوگئے، وہ مطمئن ہوکر ہندو قیادت تسلیم کر بیٹھے، ظاہر سی بات ہے جس قوم کو حکومت و سیاست اور سیادت کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا، جس کی بنیادی تعلیم ہی اپنے آپ کو ایمانی و تعلیمی نہج پر تیار کرنا تھا وہ اگر دریوزہ گر ہوجائیں اور دوسروں سے امن و سلامتی اور انصاف مانگتے پھریں تو کہاں کا انصاف! کہاں کی عدالت! انصاف ہمیں کرنا ہے، عدالت ہمیں لگانی ہے، اگرچہ ہم آج کمزور ہیں؛ لیکن ہماری روحانی طاقت ساتھ ہے، وقت بدلے گا، ویسے بھی وقت کی خاصیت ہے کہ یہ کروٹیں لیتا رہتا ہے، ان شاء اللہ وہ دن آئے گا جب ہم خود نمک سے بال نکال پھینکیں گے، اور افق اسلامی نور سے جگمگائے گا، بہرحال آج کے فیصلے کے بعد نوجوان دانشور ڈاکٹر مولانا طارق ایوبی ندوی دامت برکاتہم کا اپنے فیس بک وال پر شائع شدہ تبصرہ قابل مطالعہ ہے، آپ رقمطراز ہیں:
ملزم نہیں مجرم بری ہو جاتے ہیں
اگر اقتدار ہو تو کیا کچھ ممکن نہیں۔
۳۰/ستمبر کو ۲۸/ سال مقدمہ چلنے کے بعد سبھی ۳۲ ملزم بری، ارے بھائی جس مقصد سے مسجد گرائی جب وہ مقصد پورا ہو گیا تو بری تو ہونا ہی تھا، جھونک دیا پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول۔۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں جب حکومت اپنی تو عدالت بھی اپنی۔۔۔۔۔ آج یہ کہانی اپنی تمام تر نا انصافیوں کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔۔۔۔۔ ویسے ابھی سی بی آئی اسپیشل کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، جمعیت سے کہیے اب ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جائے، تب تک ۴۹ میں سے زندہ بچے ۳۲ بھی رخصت ہو جائیں گے۔۔۔۔ خیر بابری مسجد_ رام مندر قضیہ کا مکمل کریڈٹ پنڈت نہرو اور شری راجیو گاندھی کو دیا جانا چاہیے، کانگریسی غلاموں کا یوگ دان کم نہیں جو کانگریس کا پلان سمجھتے ہوئے بھی کانگریس کی دلالی کرتے رہے اور قوم کا سرمایہ عدالت میں گنواتے رہے، اپنا وجود تک کانگریس کے ہاتھوں بیچ دیا مگر کانگریسی لیڈرشپ سے اس قضیہ پر فیصلہ کن بات چیت تک نہ کر سکے۔۔۔۔ قسمت اسے کہتے ہیں نہرو نے بیج ڈالا، راجیو نے کھیتی خوب کی مگر پھل سب مودی جی کے حصے میں آئے۔۔۔۔۔ خیر کانگریس نے طول دے کر عدالت کی ساکھ بچا رکھی تھی، کانگریسی دور میں الہ آباد ہائی کورٹ نے پنچایتی بٹوارہ کر دیا تھا۔۔۔۔۔ بھاجپائی دور میں عدالتی ساکھ کیا بچتی۔ چیف جسٹس کو ہی راجیہ سبھا بھیج دیا گیا۔

30/09/2020

Comments are closed.