Baseerat Online News Portal

”بھیڑ اکھٹی کر لینے سے کوئی قانون واپس نہیں ہوجاتا“

 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

کسان آندولن اپنے تین مہینے کے پڑاؤ میں ہے، اب تک اس کی کامیابی و ناکامیابی کا کوئی فیصلہ کرنا جلد بازی ہوگی، زیادہ تر آثار تو یہی بتاتے ہیں کہ یہ احتجاج ملک کی تاریخ، بھاجپا کی سیاست اور کثیر تہذیبی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگی، یہی وجہ ہے کہ جب سنگھو بارڈر اور ٹیکری بارڈر پر مصلحتاً چند کسان کم کیا ہوئے کہ سیاسی گلیاروں میں جشن منایا جانے لگا تھا، انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ اب کسان آندولن ختم ہونے کو ہے، وہ اپنے آپ میں پھوٹ پڑنے سے پریشان ہیں، بعضوں کی بغاوت اور رواں حکومت کی پالیسیوں کے سامنے ریت کے مثل ڈھیر ہونانے کو ہیں، آپسی بکھراؤ اس آندولن کو تنکے کی مانند ہوا کردے گا اور فضا جب صاف ہوگی تو سارا کھیل بھاجپا کے پلڑے میں جاگرے گا؛ لیکن وہ بھول گئے کہ زمین کی چھاتی چیر کر دانہ اُگانے والے کبھی شکست نہیں کھاتے، ان کے حوصلے اور ہمت کبھی زمین دوز نہیں ہوتے، محنت و مشقت کبھی انہیں تکان سے دوچار نہیں کرتی، موسم کی مخالفت ان کی شرست کا حصہ ہوتی ہے، چنانچہ ان کیلئے سنگلاخ زمین بھی پھٹ جاتی ہے اور ان کے جنون کو سلام ٹھونکتی ہے، سچی بات تو یہی ہے کہ یہ صرف سیاست اور گودی میڈیا کا پروپیگنڈہ تھا کہ لوگ کسانوں کو واپس جانے والے سمجھنے لگے تھے، جبکہ دہلی کی سرحدوں پر اگرچہ بعض مصلحتوں کی بنا پر کچھ کسان کم ہوئے؛ لیکن ایک بڑی تعداد ہمیشہ وہیں مقیم پذیر رہی،اور اس دوران اسے ملک گیر مہم بنانے کی کاوشیں جاری رہیں، اب منصوبہ بندی کچھ اس طرح ہے کہ دہلی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملکی پیمانے پر کام کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں ١٦/ ہریانہ میں ٢٤/ اترپردیش میں ٢٨/ راجستھان میں ٩/ اور مدھیہ پردیش، مہاراشٹر و بہار میں متعدد مہاپنچایتیں منعقد ہوچکی ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد جمع ہو کر سرکار کے دوہرے رویے اور دوغلے پَن کی شکایت کرتی ہے، دو روز پہلے پنجاب کے برنالہ میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی منعقد کی گئی تھی، جس میں پانچ سو سے زائد کسان نے نیتاؤں نے شرکت کی تھی، اس کے آرگنائزر بھارتی کسان یونین ایکتا اوگرہ، پنجاب کھیت، سَنیوکت کسان مورچا تھے، اس میں عوام کی ایک بڑی جماعت تھی، انسانی سروں کا تانتا لگا ہوا تھا، اناج منڈی کے پاس لوگوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے تھے، ساتھ ہی جوش و خروش اور سرکار کے خلاف ان کا غصہ بھی قابل دید تھا، عبرت کی بات یہ ہے کہ اس پروگرام میں کچھ ایسی باتیں بھی ہوئی ہیں جو ملک اور اس آندولن کیلئے خطرناک ہیں، نیز اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں اس احتجاج سے کچھ غیر متوقع تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

وہاں موجود کسان نیتاؤں نے دہلی پولس کو تنبیہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی تحقیقات کیلئے پنجاب کی سرزمین پر قدم نہ رکھ دیں، ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا، بلکہ پنجاب پولس سے بھی کہا ہے کہ وہ بھی اس میں دخل اندازی نہ کریں، دراصل دہلی پولس لگاتار ان لوگوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے جنہوں نے کسی بھی طرح کسانوں کا ساتھ دیا ہے، انہیں کن ہی گوشوں سے مدد پہنچانے کی کوشش کی ہے، ان لوگوں کو دیش درو کے الزام اور دیگر متعدد دفعات بالخصوص ٢٦/ جنوری ٢٠٢١ کی ہلڑبازی کو لیکر سَمن بھیجا ہے اور تحقیقات میں حصہ لینے کی درخواست کی ہے، اس وقت ویسے بھی روی دیشا کا واقعہ بھی عروج پر ہے، جس ٢١/ سالہ لڑکی کو کسانوں کیلئے لائحہ بنانے پر ریمانڈ کیلئے پکڑ لیا گیا اور آج کئی دنوں کے بعد ضمانت دی گئی ہے، جن لوگوں کو دہلی پولس کی جانب سے سَمن بھیجا گیا ہے، کسان نیتاؤں نے ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے؛ کہ نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دو یا جلا کر خاک کردو، انہیں ڈرنے اور جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ صاف اعلان ہے کہ کسان اب آر پار کی بات کر رہے ہیں، جنہیں سکھ بمقابلہ ہندو اور پنجاب بمقابلہ اترپردیش/ ہریانہ/ جاٹ بنانے کی کوشش کی گئی تھی وہ اب کسانی کی بنیاد پر حکومت کو چیلینج کر رہے ہیں، دوسری طرف سرکار بجائے یہ کہ اعلی مرتبت اور اقبال کا رویہ دکھاتی وہ مسلسل کسانوں کو نظر انداز کر رہی ہے یا پھر انہیں کم آنکنے کی کوشش کر رہی ہے، چنانچہ اس مسئلہ کو سلجھانے کے بجائے لگاتار اسے طول دیا جارہا ہے، اور سب کچھ چھوڑ کر بنگال انتخابات میں گرم جوشی دکھائی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ان کے پاس چناؤ جیتنے اور سرکار بنانے کے سوا کوئی دوسرا کام اہم ہے ہی نہیں؛ کسان منسٹر نریندر سنگھ تومر نے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ بھیڑ اکھٹی کر لینے سے کوئی قانون واپس نہیں ہوجاتا، اس کا مطلب صاف ہے کہ سرکار ایک اِنچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیات نہیں ہے، جبکہ کسان بھی کسی سمجھوتہ کو تیار نہیں ہیں، ایسے میں صاف سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک کی اجتماعی صورتحال کیا ہوگی؟ معاشی حالت تشویشناک ہے، پٹرول کی قیمتیں سو روپے سے تجاوز کر چکی ہے، اور پھر سماجی تانا بانا بھی بکھر جائے اور یوں ہی احتجاج جاری رہے تو ملک کی ترقی اور خوشحالی کا کیا ہوگا؟

 

 

 

Comments are closed.