Baseerat Online News Portal

بہار الیکشن اورسیاسی جوڑتوڑ

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک کو جہاں بہار اقتدار بدلنے کی راہ دکھاتا آیا ہے، وہیں وہ کاسٹ پالیٹکس کی تجربہ گاہ بھی رہا ہے ۔ سیاسی کے ساتھ ذات، برادری کی تحریکوں کے لئے بھی جانا جاتا ہے ۔ سیاسی، سماجی منتھن نے وہاں کی ذاتوں میں اپنی حصہ داری کا شعور پیدا کیا ہے ۔ اس عمل میں تعداد کے لحاظ سے چھوٹی ذاتوں کو خونی تصادم اور ریاست کو نکسل واد سے بھی گزرنا پڑا ۔ نتیجہ کے طور پر بہار کا الیکشن ذاتوں کے مینجمنٹ پر منحصر ہو گیا ۔ اب جس سیاسی جماعت کی برادریوں پر جتنی پکڑ ہوتی ہے اسے اتنی ہی کامیابی ملتی ہے ۔ اسی وجہ سے نتیش کمار بی جے پی کی مجبوری بنے ہوئے ہیں ۔ پہلے اعلیٰ ذات کے ہندو، دلت اور مسلمان کانگریس کے روایتی ووٹر تھے ۔ کامگار و مزدور طبقات کا ووٹ لیفٹ پارٹیوں کو ملتا تھا ۔ اب بنیا، برہمن کا ووٹ بی جے پی کو ملتا ہے ۔ کانگریس کے دور اقتدار میں لیفٹ اور سوشلسٹ اپوزیشن میں ہوتے تھے ۔ کاسٹ پالیٹکس نے اس صورتحال کو تبدیل کر دیا ۔ سوشلسٹ جنتا پریوار میں ضم ہوکر ختم ہو گئے اور کمیونسٹ بنگال میں تیس سال حکومت کرنے کے بعد بھی حاشیہ پر چلے گئے ۔

بارہ کروڑ آبادی والی ریاست بہار میں سات کروڑ 79 لاکھ ووٹر ہیں ۔ ان میں خواتین رائے دہندگان کی تعداد تین کروڑ 39 لاکھ ہے ۔ کل رائے دہندگان میں 82 فیصد ہندو اور 18 فیصد اقلیتی ووٹ ہیں ۔ جس میں 22 فیصد ووٹ اعلیٰ ذات کے ہیں ۔ ان میں 17.5 ہندو اور 4.5 فیصد مسلم اعلیٰ ذاتوں کے ۔ 62 فیصد او بی سی ووٹوں میں 13 فیصد مسلم ہیں ۔ بہار کے رائے دہندگان میں 34 فیصد انتہائی پسماندہ ہیں جس میں سو سے زیادہ ذاتیں شامل ہیں ۔ بہار میں 17.5 کے قریب مسلم ووٹر 243 اسمبلی سیٹوں میں سے 47 پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد 20 سے 40 فیصد یا اس سے زیادہ ہے ۔ مسلم ووٹرز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 11 اسمبلی حلقوں میں ان کی تعداد 40 اور 7 میں 30 فیصد سے زیادہ ہے ۔ 29 سیٹوں پر مسلم ووٹ کا فیصد 20 سے 30 کے بیچ ہے ۔ اس وقت بہار اسمبلی میں 24 مسلم ایم ایل اے ہیں ۔ سیمانچل کے علاقے میں مسلم آبادی 40 فیصد سے زیادہ ہے ۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کو صحیح مانیں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق بہار میں مسلم آبادی 1.75 کروڑ ہے جس میں 27 فیصد کے اضافہ کا تخمینہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق لوک سبھا کی 40 سیٹوں میں سے 15 پر مسلمانوں کے ووٹ 12 سے 42 فیصد ہیں ۔ کشن گنج کی سیٹ پر مسلم رائے دہندگان کی تعداد 68 فیصد ہے ۔

رائے دہندگان کی اس ڈیموگرافی کو دیکھتے ہوئے ہی لالو پرساد یادو نے مسلم یادو (مائی) کا فارمولا بنایا تھا ۔ بہار میں 15 فیصد یادو اور 17.5 فیصد مسلم مل کر 32.5 فیصد ہو جاتے ہیں ۔ وہ پسماندہ ذاتوں و اعلیٰ ذات کے ووٹوں میں سیندھ لگا کر اور دلتوں کو ساتھ لے کر بہار میں پندرہ سال حکومت کرنے میں کامیاب رہے ۔ لیکن عوام کی امیدیں ٹوٹنے کی وجہ سے یہ گٹھ جوڑ ختم ہو گیا ۔ مگر یادوں کی بالادستی بہار میں پھر بھی قائم ہے ۔ 15 فیصد کی حصہ داری کے باوجود 61 یادو 2015 میں ایم ایل اے بن کر اسمبلی پہنچے تھے ۔ جن میں آر جے ڈی 42 جے ڈی یو 11 کانگریس 2 اور بی جے پی کے ٹکٹ پر 6 امید واروں نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو 243 سیٹوں والی اسمبلی میں آر جے ڈی کو 18.4 فیصد ووٹ کے ساتھ 81 سیٹیں ملی تھیں ۔ وہیں جے ڈی یو کو 71 اور 16.8 فیصد ووٹ ۔ بی جے پی کو 24.4 فیصد ووٹ کے ساتھ 53 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ کانگریس کے حصہ میں 27 سیٹیں اور 6.7 فیصد ووٹ آئے تھے ۔ ایل جے پی کو 4.8 فیصد ووٹ اور 2 سیٹ، وہیں مانجھی کو ایک سیٹ اور 2.3 فیصد ووٹ جبکہ اوپیندر کشواہا کو بی جے پی کی حمایت کے باوجود 2.6 فیصد ووٹ اور 2 سیٹوں پر صبر کرنا پڑا تھا ۔

اس وقت نتیش کمار نے لالو پرساد یادو اور کانگریس کے ساتھ مل کر چناؤ لڑا تھا ۔ بہاریوں کی عزت کے نام پر آر جے ڈی کے ساتھ مل کر چناؤ لڑ کر وزیر اعلیٰ بننے والے نتیش کمار نے 2017 میں ان کا ڈی این اے بتانے والی بی جے پی سے لالو کو دھوکہ دے کر ہاتھ ملا لیا تھا ۔ بہار میں حکومت سازی کے لئے مسلم ووٹ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ نتیش کمار ایسے شخص ہیں جن کی وجہ سے مسلم ووٹ این ڈی اے کو مل جاتے ہیں ۔ اس لئے بی جے پی اکیلے لڑنے کے بجائے نتیش کمار کو آگے کرکے الیکشن لڑتی ہے ۔ 2010 میں بھی بی جے پی کو 55 سیٹیں اور 16.49 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھلے ہی 2010 کے مقابلہ 2015 میں اس کے ووٹوں میں 7.91 فیصد کا اضافہ ہوا لیکن پھر بھی وہ اپنے دم پر بہار میں حکومت نہیں بنا سکتی ۔ اسے ایسے لوکل پارٹنر کی درکار ہے جو اس کے فیصلوں پر کوئی سوال نہ کرے ۔ نتیش کمار دفعہ 370 ، تین طلاق اور مرکز میں وزارتوں کی تقسیم پر سوال اٹھا چکے ہیں ۔ این ڈی اے کا حصہ رہتے ہوئے چراغ پاسوان نتیش کمار پر اعتراضات کرتے رہے ہیں ۔ چراغ پاسوان کی ایل جے پی 143 سیٹوں پر چناؤ لڑے گی ۔ انہوں نے جے ڈی یو کے خلاف امید وار اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جبکہ بی جے پی کے امیدواروں کو ان کی حمایت جاری رہے گی ۔ جانکاروں کے مطابق پاسوان کا یہ قدم نتیش کمار کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے ۔

این ڈی اے نے سیٹوں کی تقسیم کا اعلان کر دیا ہے ۔ جے ڈی یو 122 اور بی جے پی کے حصہ میں121 سیٹیں آئی ہیں ۔ جے ڈی یو 122 میں سے 7 سیٹیں جیت رام مانجھی کی پارٹی کو دے گی اور بی جے پی اپنے کوٹے سے مکیش ساہنی کی وی آئی پی کو سیٹیں دے گی ۔ وہیں یو پی اے میں آر جے ڈی 144، کانگریس 70 اور لیفٹ پارٹیاں 29 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گی ۔ بہ ظاہر چراغ پاسوان کے الگ چناؤ ميں اترنے سے این ڈی اے میں ٹکراؤ نظر آ رہا ہے ۔ مگر سیاسی پنڈت اسے بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ مانتے ہیں ۔ بہار میں اس بار سیدھا مقابلہ مہا گٹھ بندھن اور جے ڈی یو، بی جے پی(این ڈی اے) کے بیچ ہونے والا ہے ۔ مہا گٹھ بندھن میں آر جے ڈی، کانگریس اور لیفٹ پارٹیاں شامل ہیں ۔ چھوٹی پارٹیوں نے اس سے کنارہ کر لیا ہے ۔

بہار میں اس بار تیسرا مورچہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ پپو یادو کی سربراہی میں تین پارٹیوں نے مل کر پروگریسو ڈیموکریٹک الائنس بنایا ہے ۔ وہیں اسدالدین اویسی نے دیوندر یادو کی پارٹی سماجوادی جنتادل کے ساتھ اتحاد کیا ہے ۔ اب بہار الیکشن اس پر منحصر کرے گا کہ این ڈی اے اور یو پی اے ٹکٹوں کی تقسیم میں ذات اور علاقے کا کتنا خیال رکھتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آر جے ڈی 120 سیٹوں پر الیکشن لڑتی اور باقی کی 124 سیٹیں چھوٹی پارٹیوں کو دیتی ۔ جس میں کوشواہا، اویسی اور مانجھی کی پارٹیوں کو بھی شامل کیا جاتا ۔ بہر حال بہار میں تیسرا فرنٹ بننے کا جو امکان پیدا ہوا ہے ہو سکتا ہے تمام چھوٹی پارٹیاں اس کا حصہ بنیں ۔ ہر الیکشن سے پہلے سیاست داں اور پارٹیاں پالا بدلتی ہیں ۔ ان کا مقصد بس اقتدار کی اڑتی چڑیا کو پکڑنا ہوتا ہے مگر تجربات بتاتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ یا اتحاد ملک یا ریاست کو کبھی بھی مستحکم حکومت نہیں دے سکے ۔

بہر حال بہار میں اس وقت بڑا چیلنج محفوظ الیکشن کرانا ہے ۔ سیلاب زدہ 16 اضلاع کے 2000 سے زیادہ بوتھ اب بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اگر پھر سے وہاں بارش ہوئی تو ان بوتھوں پر ووٹ ڈالنا ممکن نہیں ہوگا ۔ کووڈ سے رائے دہندگان کا تحفظ بھی بڑا مسئلہ ہے ۔ پولنگ اسٹیشن پر تو حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں لیکن پولنگ اسٹیشن تک آنے جانے اور الیکشن کے دوران سوشل ڈسٹینسنگ کا اہتمام کیسے ہوگا اس پر انتخابی کمیشن خاموش ہے ۔ بہر حال الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوا ہے تو الیکشن بھی ہوگا ہی ۔ حکومت کس کی بنے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن عوام کو ووٹ دیتے وقت یہ خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ ان کے ذریعہ منتخب شخص بہار کی بہتری کے لئے کام کرنے والا ہو ۔ اگر ایسا ہوا تبھی بہار اپنی کھوئی ہوئی پرانی پہچان دوبارہ پا سکے گا ۔

Comments are closed.