Baseerat Online News Portal

تبصرہ: دجالی فتنہ کے نمایاں خدو خال

اسجد عقابی
یہ پہلا موقع ہے، جب کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد، بارہا دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ کچھ لکھا جائے، کچھ کتاب کے اہم مضامین کے متعلق، اور کچھ صاحب کتاب کے متعلق۔
سچ تو یہ ہے کہ صاحب کتاب کے متعلق کچھ لکھنا اور کہنا، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ صاحب کتاب کی شخصیت اور ان کا قلمی جوہر وہ کارنامہ ہے جس پر اس زمانے کے شیوخ کے وقیع کلمات آج بھی کتابوں کی زینت ہیں، جن سے صاحب کتاب کی حقیقی اور باکمال شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے، سوانح ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کے مطالعہ کے بعد فرمایا کہ یا تو صاحب کتاب ولی صفت انسان ہے، اگر ابھی نہیں ہے تو ولایت ضرور مل جائے گی۔ (حالانکہ یہ کتاب زمانہ طالب علمی میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے)۔ علامہ سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے جس ذات گرامی کو، ان کے انوکھے قلمی جوہر اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سلطان القلم کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ اردو ادب کے مایہ ناز ادیب دوران مولانا عبد الماجد دریابادی لکھتے ہیں کہ دین کے زبردست خادم، وقت کے مشہور متکلم، موجودہ صدی کے اس ممتاز عالم کے قلم سے کون سی چیز اس معیار اور اس پائے کی نہیں ہوتی۔ یہ ایک طویل فہرست ہے، اگر تمام کو یکجا کیا جائے تو شاید دفتر کم پڑجائے۔ غرضیکہ ان کی تصانیف نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، جو بہت کم لوگوں کے نصیبہ کا حصّہ ہوا کرتاہے۔ صاحب کتاب کے اچھوتے اور انوکھے انداز تحریر ان کی کتابوں کی مقبولیت کی بین دلیل ہے۔ یوں تو صاحب کتاب کے علم و فضل کے بے شمار واقعات زبان زد عام و خاص ہیں، لیکن بندہ کی رائے یہ ہے، جو چیز انہیں دیگر اکابرین، اساطین علم اور نابغہ روزگار اشخاص سے جدا کرتی ہے، وہ ہے حیات نانوتوی کی تشریح و تعبیر۔ حضرت الامام محمد قاسم نانوتوی جن کے اعلی افکار و نظریات نے ہندوستانی مسلمانوں میں دینی شمع کو روشن کئے رکھا ہے، اور جن کے تبحر علمی نے ایوان باطل میں وہ سیندھ لگائے ہیں، جسے صدیوں گزرنے کے باوجود باطل کے قلعوں میں موجود شگافوں میں واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔ اس مجدد وقت کی صحیح اور درست ترجمانی کا جسے مستحق قرار دیا گیا ہے اور جسے دنیا ترجمان امام محمد قاسم نانوتوی کی حیثیت سے جانتی ہے وہ صاحب کتاب سلطان القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ؒکی ذات گرامی ہے۔
ارادہ تو، فقط اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں چند سطور لکھنے کا ہے، لیکن بسا اوقات، خیال کی وادی ان دور دراز مقامات کی سیر کرا دیتی ہے، جہاں اگر ایک طرف علم و ادب کے لعل و گوہر، یاقوت و جواہر بکھرے پڑے ہیں تو دوسری جانب فلسفہ کی موشگافیوں کا طویل سلسلہ ہے۔
یہ کتاب دراصل’سورہ کہف کی تفسیر ہے‘ بعض وہ احادیث جن میں دجال اور دجالیت سے حفاظت کیلئے اس سورت کی تلاوت کا ذکر پایا جاتا ہے اصل محرک وہ احادیث ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دجال کے فتنہ سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے، یہ ایسا فتنہ ہے جو ہر گھر میں پہنچے گا۔ ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے، اور تلاوت کے اصرار کے پیشِ نظر صاحب کتاب نے اس نادر و نایاب اور بیش بہا علمی خزینہ کو امت کیلئے پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دجالیت کی حقیقت کیا ہے اور اس سے حفاظت کن ذرائع سے کی جاسکتی ہے۔
کتاب اجمالی طور پر چھ اہم مضامین پر مشتمل ہے، اور یہ تمام مضامین دجال اور دجالیت کے حیلہ، علامت اور ان کے اثرات کے ساتھ مربوط ہے۔
(1) مسئلہ تثلیث اور کلیسا کا نظام حکومت
(2) اصحابِ کہف کا واقعہ
(3) دنیاوی اسباب کی حقیقت اور ایمان باللہ کی طاقت
(4) واقعہ موسی و خضر
(5) ذوالقرنین کے کارہائے نمایاں اور توکل علی اللہ
(6) یاجوج ماجوج
مقصد چونکہ، ان تمام کی تشریح نہیں ہے، اور نہ یہاں اس کی گنجائش ہے۔ البتہ صاحب ذوق افراد اصل کتاب سے رجوع فرماسکتے ہیں۔
سورہ کہف کی ابتدائی آیات میں مذکور، مسئلہ تثلیث کو جس پیرائے میں پرویا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ انہی کے شایان شان ہے۔ عیسائی مذہب میں بے راہ روی کب پیدا ہوئی، کیسے پیدا ہوئی، آسمانی مذہب اور خدائی کتاب جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطاء کی گئی تھی، کن لوگوں کی وجہ سے خرد برد کا مرکز بن کر رہ گئی۔ جس مذہب کی بنیاد وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور بندگی تھی، اس میں ایسا سیندھ کس نے لگایا کہ یکلخت وحدانیت، تثلیث میں تبدیل ہوگئی اور پھر مسئلہ تثلیث کے واضح کذب کو چھپانے کیلئے، صلیبی پیروکاروں نے کیسے کیسے حیرت انگیز، دردناک اور انسانیت سوز طریقے ایجاد کئے، کس طرح عوام الناس کو کلیسا کے تقدس کی تعلیم کے نام پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، کلیسا اور ارباب کلیسا کی شان میں حرفِ غلط کی کم سے کم سزا موت ہوا کرتی تھی۔ مذہب جس کی اصل، ماننا اور سر تسلیم خم کرنا ہے اسے بزور قوت منوایا گیا اور عوام الناس پر اسے زبردستی تھوپا گیا۔ ظلم و استبداد کی یہ تاریخ دو چار سال نہیں بلکہ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ ان ظلم و ستم کی چکی میں وہ افراد بھی سولی پر چڑھائے گئے، جنہوں نے علمی اور عقلی دلائل سے کلیسا کے نظام کو باطل ٹہرانے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ، طویل ظلم و ستم اور کلیسا کے من مانے نظام کی وجہ سے عوام میں مذہب کے تئیں بدگمانی پیدا ہونے لگی، رفتہ رفتہ مذہب بیزاری نے عالم نصرانیت کو اپنے مضبوط پنجوں میں جکڑ لیا اور پھر معاشرہ میں خدا بیزاری اور دین بیزاری کا رواج عام ہوتا چلا گیا۔ شدہ شدہ نوبت بایںجا رسید کہ، اب عالم نصرانیت میں مذہب اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ مذہب اور مذہبی عبادات ایک عام اور فضول رسم بن کر رہ گئی ہے۔ الحاد و لادینیت کی بنیادی وجہ کلیسا کے وہ مظالم ہیں جس نے لاکھوں لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔ ان مظالم کی زد میں وہ معصوم بھی بھینٹ چڑھائے گئے، جنہوں نے حقیقی دین اور سچے مذہب کی پیروی کی یا اس کے تبلیغ کی کوشش کی۔
اصحابِ کہف کے واقعات کے تاریخی پہلوؤں اور عددی نزاع سے پہلوتہی کرتے ہوئے، پیغام حقیقت، وعدہ عزیز مقتدر، ایمان کی مضبوطی اور خدائی قانون کی پاسداری کرنے والوں اور رب ذوالجلال سے حقیقی لو لگانے والوں کو کس طرح دنیاوی زندگی میں اطمینان قلب اور روحانی تسکین بہم پہنچائی جاتی ہے ان تمام باتوں کو حالات، وجہ اور علت کی روشنی میں آشکارا کیا گیا ہے۔ خدا اپنے نیک صفت بندوں کو اس اجر حسن سے نوازتا ہے، جس کا تصور فراست ایمانی سے محروم مردہ دل کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ طاغوتی طاقتوں کے منصوبوں پر عمل پیرا افراد کس طرح، راہ ایمان کے راہی کے راستوں میں خار بچھایا کرتے ہیں۔ ان کے دامنِ دل کو بارہا چھلنی کرنے کی سعی کی جاتی ہے، تاکہ روح ایمانی کے یہ حامیین ڈگر سے ہٹ جائیں یا پھر ان کے طاغوتی قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرلیں۔ یہی وہ منصوبہ ہے، جس کی کوشش صدیوں سے چلی آرہی ہے، اور دجالیت کا یہ وہ روپ ہے جس کے درپن میں دجال کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے۔
دجالیت کے ان پیروکاروں اور طاغوتی منصوبوں کو نافذ العمل کرنے والوں نے انسانی مزاج میں دنیاوی اسباب و وسائل کی حقانیت اور ان کی اہمیت کو انسانی مزاج میں اس قدر پیوست کردیا ہے کہ اب یہ اس کا خوگر بن گیا ہے۔ انسان اسباب و وسائل کی گردشوں اور بھنور میں روز بروز اس حد تک گہرائی میں اترتا چلا گیا کہ، وہ اپنے مالک حقیقی کو بھول کر، اپنی صلاحیتوں پر نازاں و فرحاں ہے، جس کا باریک اور غیر محسوس راستہ شرکیہ عقائد اور دجالی جالوں سے ہوکر گزرتا ہے، جس کے بعد انسانی دل و دماغ میں عارضی و فانی اشیاء کی حیثیت دو چند ہوجاتی ہے اور وہ رب حقیقی سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔ ناپائیدار اور عدم استحکام سے مزین یہ دنیا، ان لوگوں کو اس قدر بھا جاتی ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اسی کو سمجھ بیٹھتے ہیں۔ مال و دولت کی کثرت، عوام کا جم غفیر اور جاہ و حشمت انہیں رب پروردگار کی عبادت اور یاد سے غافل کردیتی ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن سے دوری بنانے اور ان کے طریق زندگی سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، کیونکہ یہ افراد دراصل اس دجالی فتنہ کے نمائندے ہیں، جن کے شرور اور آزمائش سے محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا پناہ مانگی ہے اور امت کو ہمیشہ اس فتنہ سے محفوظ رکھنے کیلئے طریقے بتلائے ہیں۔
دور حاضر کی جدت پسندی اور نئی ایجادات کا اصل سرا اور ان اختراعات کی کڑی کو بنظر غائر ٹٹولا جائے تو یہ بات سامنے نظر آتی ہے کہ ان کی لگام جن ہاتھوں میں ہے، وہی لوگ دراصل دجالیت کے مبلغ اور داعی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو، معبود حقیقی سے انسانی رشتہ توڑنے کیلئے اسباب کو سبب حقیقی بناکر پیش کرتے ہیں، جبکہ اسباب کی حقیقت رب ذوالجلال کے سامنے کچھ نہیں ہے اور اسی کو ذوالقرنین کے واقعہ میں بیان کیا گیا ہے۔
ذوالقرنین کی فتوحات، ان کا ایمان باللہ اور ان کے مشرق و مغرب کے اسفار میں پیش آئے واقعات پر جو نکتہ سنجی کی ہے، اور زمانہ کے اعتبار سے ان کی صلاحیت اور توکل علی اللہ پر علمی نکات سے بھر پور انداز بیان دنیاوی سلطنت کے عارضی بادشاہوں اور حاکموں کیلئے پیغام ہے کہ مشیت ایزدی اور خدائی فرمان سے پرے کوئی طاقت نہیں ہے۔ بلند و بالا عمارات، مضبوط ترین پناگاہ اور عز و شرف کا عارضی تمغہ، اسی وقت تک برقرار رہ سکتا ہے، جب تک خالق قدیر اسے باقی رکھنا چاہیں گے۔ یاجوج ماجوج کے شر سے نوع انسانی کو بچانے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بناکر، اسی سبب پر تکیہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ پیغام ہے کہ خدا کی قدرت سے بڑھ کر اور کوئی قدرت نہیں ہے۔ اسی طرح یاجوج ماجوج کی سرکشی، ان کی رذیل فطرت، حسب و نسب کی بعض تفاصیل، اس ضمن میں بائبل وغیرہ سے استدلال اور بعض تاریخی شواہدات کو پیش کرتے ہوئے جس طرح ان کی بغاوت اور حقیقت سے آگاہ کیا ہے، وہ نادر و نایاب علمی خزانہ ہے۔
الغرض جن اسلوب کو اپناتے ہوئے صاحب کتاب نے تفسیری کام کیا ہے، وہ اپنے آپ میں لاجواب علمی خزینہ ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد بارہا اس بات کا قلق رہا، اور پوری زندگی یہ برقرار رہے گا کہ کاش صاحب کتاب نے اسی طرز کو اپناتے ہوئے قرآن شریف کی مکمل تفسیر پر کام کیا ہوتا تو یہ امت کیلئے عظیم علمی سرمایہ ہوتا، جو آنے والی نسلوں کیلئے نافع اور سود مند ثابت ہوتا۔

Comments are closed.