Baseerat Online News Portal

تین طلاق بل – سرکار کی نیت پر سوال

حسام صدیقی

وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی سرکار کی دوسری پاری شروع کی تو پھر پوری سرکارمیں تین طلاق بل کے لئے بے تاب اور عجلت نظر آئی۔ سترہویںلوک سبھا شروع ہوئی تو وزیر قانون روی شنکر پرساد نے باقی تمام ضروری کاموں کو پیچھے چھوڑ کر تین طلاق بل ہی پیش کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے سبھی لیڈران کا دعویٰ ہے کہ تین طلاق بل سے مسلم خواتین کو طاقت، عزت اور احترام ملے گا۔ اس سے پورے مسلممعاشرہ کی ترقی ہوگی اور ’جینڈر جسٹس‘ کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔ تین طلاق بل کے ذریعہ یہ تمام باتیں اتنی بار دہرائی جاچکی ہیں کئی مسلمانوں نےبھی وزیراعظم نریندر مودی کی باتوں اور صاف نیت پر یقین کرنا شروع کردیا تھا، لیکن راجیہ سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطبے پر ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے جو کچھ کہا خصوصی طور پر جھار کھنڈ میں اٹھارہ جون کو ہوئی تبریز کی لنچنگ پر جس طرح کا سرسری جواب دیا اسے سن کر واضح ہوتا ہےکہ وزیراعظم مودی دراصل مسلم خواتین کو راحت دینے کے بجائے ملک کے کٹر پسند اکثریتی طبقے کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے متحد ہو کر ان کی (مودی کی) الیکشن میں زبردست حمائت کی ہے اس لئے ان کی منشاء کے مطابق ہماری سرکار مسلمانوں کو ہر معاملے میں سخت سبق سکھانے کے لئے پابند ہے۔ تین طلاق بل منظور ہونے کے بعد ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر بھی پابندی لگائی جائے گی اور جلدی ہی شائد یکساں سول کوڈ نافذ کرکے مسلمانوں کے پرسنل لاز کو بھی ختم کردیا جائے گا۔ ہم یہاں یہ بھی بتا دیں کہ مسلمانوں کے پرسنل لاز میں صرف شادی، طلاق ، وراثت جیسے ہی چند معاملات آتے ہیں جن پر مسلمانوںکےعمل کرنے سے برادران وطن یعنی ہندوؤں پر کوئی اثر نہیں پڑتاہے۔ اس کے باوجود آر ایس ایس، بھارتیہ جن سنگھ اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ سے مسلمانوں کے پرسنل لاز کی مخالفت اور یکساں سول کوڈ کی وکالت کرتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی طبقے یا گروپ کے ذریعہ اپنے ذاتی معاملات میں کسی ذاتی قانون پر عمل کیا جاتا ہے جس کا دوسرے کسی طبقے یاگروپ کے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو اس کی مخالفت کیوں؟

لوک سبھا کے حالیہ الیکشن کے نتائج صاف طور پر بتاتے ہیں کہ ملک کے اکثریتی طبقہ نے متحد ہو کر وزیراعظم نریندر مودی کی(بی جے پی کی نہیں) بڑے پیمانے پرحمائت کی ہے۔ اس پر کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہوناچاہئے۔ ہم جمہوری نظام میں رہتے ہیں ووٹ اور عوام کی رائے پرسرکار بنانے میں یقین کرتے ہیں ۔ اس لئے اکثریتی طبقے نے اگر متحد ہو کر نریندر مودی کو منتخب کیا ہے تو اس کا انہیںپورا آئینی اختیار حاصل ہے۔ لیکن الیکشن کے بعد اگر وزیراعظم نریندر مودی اکثریتی طبقے کو خوش کرنےکے لئے کوئی ایسے قدم اٹھاتے ہیں جس کا اقلیتوں پر الٹا اثر پڑے یا ان میں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کے ساتھ بلاوجہ زیادتی ہو رہی ہے تو وہ قدم مناسب اور ٹھیک نہیں کہیں جائیں گے۔

تین طلاق بل لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے روی شنکر پرساد نے بتایا کہ ۲۰۱۷ سے اب تک تقریباً ڈھائی سال میں طلاق کے پانچ سو تینتالیس(۵۴۳) واقعات پیش آئے ہیں۔ ان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تین سو انتالیس اور مرکزی سرکار کے آرڈیننس جاری ہونے کے بعد اکتیس معاملات پیش آئے ہیں۔ اس لئے تین طلاق روکنے کے لئے سخت قانون ہونا ضروری ہے۔ ڈھائی سال میں ملک کی تقریباً بیس کروڑ مسلم آبادی میں طلاق کے کل ۵۴۳ معاملات اور ان پر قابو پانےکے لئے مودی سرکار سخت قانون بنانا چاہتی ہے، اس ملک میں جہاں ڈھائی سالوں میں طلاق سے کہیں زیادہ معاملات ریپ کے ان میں بھی معصوم بچیوں کے ریپ اورقتل کے معاملات پیش آچکے ہیں۔ اس سے زیادہ معاملات ان خواتین کے بیوہ اور بے سہارا ہونے کے بھی ہو چکے ہیں جن کے شوہروں، بھائیوں اور والد کو قتل کردیا گیا۔ ان خواتین کی فکر سرکار کو کیوں نہیں؟ ان اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے تو یہی نظرآتا ہے کہ سرکار کو خواتین کے احترام اور عزت کی فکر نہیں ہے یہ صرف ایک بہانہ ہے۔ دراصل مسلم طبقہ ہی سرکار کے نشانے پر ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں جواب دیتے ہوئے جھار کھنڈ میں ہوئی شمس تبریز کی لنچنگ کے سوال کو جس طرح سرسری طور پر ٹالنے کا کام کیا اور لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا میں بھی اپنی سرکار کے تین طلاق بل کو پاس کرانے کے لئے اپوزیشن ممبران سے کہا، ان کا یہ رویہ ان تمام مسلمانوں کو مایوس کرنے والا تھا، جن مسلمانوں کو ان کی سینٹرل ہال کی تقریر سن کر یہ امید بندھی تھی کہ شائد ۲۰۱۴ سے ۲۰۱۹ تک ان کی پہلی تقریرمیں مسلمانوں پر جو زیادتیاں ہوئیں اس طرح کی زیادتیاں ان کے دوسرے دور کی سرکار میں نہیں ہوں گی۔ لیڈر آف اپوزیشن غلام نبی آزاد نے ان سے پہلے بولتے ہوئے جھار کھنڈ کے معاملے کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا ایسا لگتا ہے کہ جھار کھنڈ لنچنگ کی فیکٹری بن گیا ہے۔ جواب میں وزیراعظم نے ان سے کہا کہ اگر ایک واقعہ ہو گیا تو اس کی وجہ سے جھار کھنڈ کو لنچنگ کی فیکٹری کہہ کر پوری ریاست کو بدنام کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ہوا اس کا انہیں بھی افسوس ہے۔ قانون اور انصاف اس پر کاروائی کرے گا۔ مودی سمیت پورا ملک اچھی طرح واقف ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں لنچنگ اور طرح طرح کے بہانے بنا کر مسلمانوں کو سرعام پیٹنے کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان میں سب سے زیادہ اٹھار(۱۸) لنچنگ کےواقعات جھارکھنڈ میں ہی ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر جھار کھنڈ کو لنچنگ کی فیکٹری نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا؟ مودی کے روئیے نے لنچنگ کرنےوالوں کی حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔

جھار کھنڈ میں ہوئی لنچنگ پر وزیراعظم مودی کا یہ کہنا کہ قانون اپنا کام کرے گا ٹھیک ہے قانون ہی اپنا کام کرے گا لیکن جھار کھنڈ کے واقعہ سے تو یہی ثابت ہوتا ہےکہ وہاں قانون اور نچلی عدالتیں اپنی ذمہ داری ٹھیک سے نہیں نبھا رہی ہیں۔ بی جے پی کے دبنگ پپو منڈل اور اس کے ساتھی دہشت گردوں نے تبریز پر موٹر سائیکل چوری کرنے کا الزام لگا کر پکڑا، اسے ایک کھمبے سے باندھ کر بری طرح پیٹا اس کی پٹائی گھنٹوں جاری رکھی، اطلاع ہونے کے باوجود پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ اگلے دن پپومنڈل اپنے ساتھیوں کے ساتھ تبریز کو تھانے لے گیا اس کے خلاف رپورٹ درج کرائی تو جرم قبول کرانے کے لئے پولیس نے تھانے میں بھی اس کی پٹائی کی اور عدالت میں پیش کیا تو آنکھوں پر فرقہ پرستی کی پٹی باندھے بیٹھے مجسٹریٹ نے اسے جوڈیشیل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ پولیس اور مجسٹریٹ دونوں نے ہی اس کا میڈیکل کرانے کی ضروری قانونی کاروائی نہیں کی۔ پھر کہاں قانون اور کہاں انصاف؟ پولیس نے پپو منڈل اور اس کے ساتھیوں سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ وہ اتنی شدید طور سےزخمی کیوں ہے۔ جیل میں اس کی طبیعت بگڑی تو اسپتال بھیجا گیا جہاں پہونچنے سے پہلے راستے میں ہی اس نے دم توڑ دیا۔ اس درمیان قانون اور انصاف سے بے خوف، اقتدار کے نشہ میں چور پپو منڈل وغیرہ نے ہی اس کی پٹائی کا ویڈیو وائرل کردیا۔ ویڈیو دیکھ کر جب پورے ملک میں ہنگامہ مچا، لوگوں نے سڑکوںپر اتر کر مظاہرہ کیاتبھی پولیس نے قاتلوں کے خلاف کاروائی کی۔ تبریز مرچکا پولیس نے مرنے سے پہلے اس کا بیان بھی درج نہیں کیا باقی تمام گواہ قاتلوں کے ساتھ ہیں تو عدالت میں انصاف کیسے ملے گا؟ نریندر مودی جن مسلم خواتین کو تین طلاق بل کے ذریعہ طاقت ور بنانے کی باتیں کررہے ہیںکیا تبریز کی نو بیاہتا بیوی ان مسلم خواتین میں شامل نہیں ہے؟

تین طلاق کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے ملک کے تمام مسلمانوں، مسلم اداروں اور مسلم سیاسی اور سماجی قیادت نے سپریم کورٹ کے آرڈر کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ مطلب یہ کہ اب اگر کوئی مسلم شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو طلاق نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود روی شنکر پرساد کے پیش کردہ بل میں کہا گیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے والے کو تین سال تک قید کی سزا ہوگی۔ یہ کون سا قانون ہے۔ جو جرم ہوا ہی نہیں ہوگا اسکے لئے تین سال کی سزا کا کیا جواز ہے؟ بل تیار کرتے وقت روی شنکر پرساد کی وزارت نے مسلم تنظیموں یا سماج کے نمائندوں سے کوئی مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اب ملک کے مسلمان کہہ رہے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق غلط طریقہ تھا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے والے اسلام مخالف کام کررہے تھے۔ اچھا ہوا سپریم کورٹ نے ہی اسے خارج کردیا۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے پھر اس کے لئے تین سال کی قید کی سزا کا قانون کیوں لایا جارہا ہے؟ اس کا اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے وزیراعظم مودی اور وزیر قانون روی شنکر پرساد بضد ہیں کہ ہم تو یہی بل پارلیمنٹ میں پاس کرائیں گے۔

راجیہ سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن غلام نبی آزاد نے بھی یہی کہا ہے کہ ہمیں تین طلاق ایک ساتھ منظور نہیں ہے لیکن ایسا کوئی قانون بھی منظور نہیں ہے جو یکطرفہ ہو۔ انہوں نے بار بار یہی کہا ہےکہ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی‘ کے پاس بھیج دیا جائے سبھی سیاسی پارٹیوں کے ممبران اور ملک اوراسلامی قوانین کے ماہرین سے اس پر رائے لے لی جائے اس کے بعد اسے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ بات اقتدار میں بیٹھے لوگ کسی بھی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ خود وزیراعظم مودی کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن میں کتنے ممبر ہیں اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا ملک چلانے کے لئے سبھی کے مشوروں کو اپنی رائے میں شامل کرکے ہی ہم سرکار چلانا چاہتے ہیں۔ پھر تین طلاق بل پر اپوزیشن کے مشورے تسلیم کرنےمیں آخر کیا قباحت ہے؟ اگر پارلیمنٹ کے اندر کئے گئے اپنے وعدے پر وزیراعظم ایک مہینے تک بھی قائم رہنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو ان کی نیت پرشک ہونا لازمی ہے۔

لوک سبھا الیکشن کی مہم سے اب تک وزیراعظم مودی، وزیرقانون روی شنکر پرساد اور ان کی پوری پارٹی بار بار ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ سرکارتو تین طلاق جیسی سماجی برائی کو ختم کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن پارٹیاں خصوصاً کانگریس اور مسلم معاشرے کے کچھ خود ساختہ ٹھیکہ دار ہماری کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہ پروپگینڈا غلط ہے۔ مسلم معاشرے کی اکثریت تو خود ہی ایک ساتھ تین طلاق جیسی برائی کو ختم کرنے کے حق میں تھی یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ مذہبی ٹھیکہ دار اس برائی کو ختم نہیں ہونے دے رہےتھے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر نے یہ مسئلہ حل کردیا۔ اس لئے کوئی بھی اس کے خلاف نہیں ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق نہیں ہونی چاہئے۔ اس فیصلے کی مخالفت کوئی نہیں کررہا ہے۔ مخالفت تو صرف اس تین طلاق بل کے کچھ ضوابط کی ہے جو غلط ہیں۔ تین سال کی قید کی سزا والا بل پارلیمنٹ سے منظور کرانےکی ضد پر اڑے مودی اور روی شنکر پرساد یہ بھی سننے کےلئے تیارنہیں ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کہنے سے اب طلاق مانانہیں جائے گا۔ لیکن کہنے والے شخص کو اگر تین سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے گا تو اتنی لمبی مدت تک شوہر بیوی کے درمیان جسمانی تعلقات قائم نہ ہونا تو خود ہی طلاق یا شادی ختم کرنے کی وجہ بن جائے گا۔ اس لئے سرکار کوچا ہئےکہ اس اہم مسئلے پر غلط فہمی پیدا کرکے اپنی ضدپوری کرنے کا کام نہ کرے۔

Comments are closed.