Baseerat Online News Portal

حریمِ کبریاسے آشناکر

سمیع اللہ ملک
سبزعینک لگاکردیکھنے سے سبزہ گل نہیں اگتے،خوش حالی پکارنے سے خوشحالی نہیں آتی’’نظام بدل دیں گے‘‘کانعرہ لگانے سے کب بدلاہے نظام!’’روٹی،کپڑااورمکان‘‘اور ’’نیا پاکستان‘‘اوراب ایک مرتبہ پھر’’پراناپاکستان‘‘!اچھے ہیں یہ نعرے،کانوں کوبہت بھلے لگے،بڑاحوصلہ افزاتھے نعرے لیکن عملاًبے جان الفاظ ثابت ہوئے یہ سب،عملاًزندگی پہلے سے بھی زیادہ تلخ ہوگئی۔ انصاف،انصاف کی گردان بے اثررہی۔جب عدالتوں میں انصاف نہ ملے یاملنے میں اس قدرتاخیرہوجائے کہ مدعی خاک ہوجائیں تو حقوق انسانی کتابوں میں د رج رہ جاتے ہیں چاہے آبِ زرسے لکھے ہوئے ہوں اورانسان خاک بسرہوں۔خواب،خواب رہتاہے جب تک تعبیرنہ پائے۔خواہش،تمناہی رہتی ہے جب تک آسودہ نہ ہوجائے۔ الفاظ کی بازی گری،تقریروں کاسرکس اوراچھلتے کودتے مسخرے،بس جی بہلانے کے لئے تواچھاہے لیکن جی کے بہلنے سے کب بدلاہے کچھ ۔
چلتے پھرتے مسخروں کی اچھل کودکودیکھئے اورجی بہلائیے۔اتنے سارے مائیک دیکھتے ہی غبارے کی طرح پھول کرکپاہو جاتے ہیں اورپھردیکھتے اوردیکھتے چلے جائیے۔جناب لوگوں کوروٹی چاہئے،گزربسرکیلئے روزگاردرکارہے،انصاف چاہئے، روٹی کپڑامکان چاہئے،بدل دیں گے ہم نظام، کٹ مریں گے ہم اپنے عوام پر،پہاڑچھیدکردودھ کی نہریں نکالیں گے،اپنے خون سے سینچ دیں گے یہ گلشن ،اقتدارمیں آکرپہلے چھ مہینے میں نیاپاکستان اوردوسوبلین ڈالرکی سرمایہ کاری کرکے ملک کانقشہ تبدیل کردیں گے،ایسے درجنوں وعدے کئے گئے بعدمیں ہروعدہ پریوٹرن لیکراس کوسیاسی دانشمندی کانام دے دیاگیاوغیرہ وغیرہ لیکن اپنے نام کی تختیاں توہرروزنصب ہوئیں لیکن ترجیحات بالکل ہی تبدیل ہوگئی۔ عوام کے ساتھ ساتھ ہم بھی سردھنتے رہتے ہیں۔واہ، واہ جیوے بھئی جیوے۔کوئی سرپھراسوال کربیٹھے کہ جناب ایسے کیسے بدلے گانظام،کیا خالی خولی لفظوں سے پیٹ بھریں گے ؟ تو پھررعونت سے تنی گردن ذراسی خم ہوتی:’’جناب آپ دیکھتے جائیں‘‘یہی تودیکھ رہے ہیں۔عوام جودل میں سوچ رہے ہوں قیادت اسے بھانپ لیتی ہے اوراس کانہ صرف اظہار کرتی ہے بلکہ خودکواس کانمونہ بناکرپیش بھی کرتی ہے۔اوریہ جواقبال بابے نے میرِ کاررواں کے لئے شرائط بتائی ہیں:
نگہ بلند سخن دلنوازجاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرِ کاررواں کے لئے
کوئی آپ کوایسانظرآتاہے؟عوام کیاچاہتے ہیں اوروہ پکارپکارکرتھک گئے،چیخ چیخ کران کے گلے بیٹھ گئے لیکن کسی نے نہ سنی ان کی یہ دہائی،ان کے دل کی پکار!بس اپنی کہے چلے گئے۔انہیں سامنے کی چیزنظرنہیں آئی۔ہم ان سے بصیرت اورفراست کے طلبگاررہے۔لیکن یہ ہمراہی قصورٹھہراکہ اندھوں سے بلندنگاہی کے طلبگارسخن دلنوازتوتب ہوجب آپ میں اخلاص کا دریا بہہ رہا ہو۔جاں پرسوزکورہنے دیجئے،یہ توبہت مقامِ بلندہے،بہت کٹھن ہیسوزتودل کاجوہرہے،یہاں دل ہی نہیں توجوہرکی تلاش کے کیامعنی!
یہ سوہنی دھرتی جہاں بچے گٹروں میں گرکرمرجاتے ہیں اورمزدورایڑیاں رگڑرگڑکر،جہاں خودکشیاں دکھوں کامداوا بن جائیں، خاک بسراپنے لختِ جگر کے گلے میں برائے فروخت کابورڈ لٹکائے سڑک پرکھڑے ہوں،جہاں بیمارہسپتالوں میں دم توڑرہے ہیں، جہاں زندہ لوگوں کومردہ خانے میں رکھ دیاجائے،جہاں جعلی ادویات کے بیوپاری انسانوں کوموت کے گھاٹ اتاررہے ہوں،نوجوان سڑک چھاپ رہے ہوں،جہاں مظلوم قیداورظالم آزادہوں،جہاں دین کو بھی تجارت بنالیاگیاہو،جہاں پرظلم کے نظام کی حکمرانی ہو اوروحشت رقص کناں،جہاں دانشوری اپنے محلات میں محو آسائش وآرام ہواورآنکھ کھلتے ہی انقلاب،انقلاب پکارنے لگے۔ایسے خوش فہمی کے موسم میں ہم جی رہے ہیں۔
ہمارے ہاتھوں میں انقلاب کے سازہیں اورہم انہیں بجارہے ہیں۔ہمارے ہاتھ تالیاں پیٹ پیٹ کرلہولہان ہوگئے ہیں۔ ہمارے خواب روٹھ گئے ہیں۔اب ہمیں چاندبھی روٹی نظرآتاہے۔مہنگائی نے جینادوبھرکردیاہے،آٹا،بجلی،پانی ہماراوظیفہ جاں ہے۔ایسے میں جب کوئی اپنی لاکھوں کی گاڑی میں بیٹھ کرہاتھ ہلاکرانقلاب کانعرہ لگائے توہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں۔کوئی بے روزگارنوجوان وزیراعلیٰ کی گاڑی کے پیچھے جیوے جیوے کانعرہ لگاتے ہوئے دوڑرہاہوتوپولیس کے ہتھے چڑھ کرپٹتاہے اور سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاجاتاہے۔کیایہی ہے انقلاب؟جن چہروں کوہم روزانہ ٹی وی اسکرین پرمائیک کے پیچھے سے ارشاد فرماتے سنتے ہیں،ایسے چہرے کب انقلاب لائے ہیں!اداکاراچھے ہیں،ہرکردارمیں ڈھل جاتے ہیں۔خوب مزے اڑاتے ہیں،ڈیل ڈیل کرکے پاک پوتربن جاتے ہیں اوراشراف کہلاتے ہیں۔ہم اورآپ سادہ ہیں۔ سادہ ہیں یابے وقوف؟ سادگی تواچھی خوبی ہے لیکن بے وقوفی؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ذراسوچئے تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی،سراب کوپانی سمجھنے والوں نے کب فلاح پائی ہے؟دھوکاہی دھوکا ،فریب سب کچھ بکاؤسب کچھ۔ دنیابھی دین داری بھی۔
وہ جواقتدارکے حصول کیلئے پاکستان میں آزمودہ گھسے پٹے سیاسی چہروں کوساتھ ملاکرتبدیلی کادن رات نعرہ لگاکرقوم کی نوجوان نسل کونت نئے خواب دکھا کرہلکان ہوئے جارہے تھے ،مخالفین کوچورڈاکوکرپٹ کے القابات قراردیکران کی کہانیاں سنا سناکرقوم سے دادوصول کرنے کوہی اپنی کارکردگی قراردیتے رہے۔اب اپنی کارکردگی کی بنا پررخصتی کوغیرملکی سازش قراردیکرایک بارپھرقوم سے قربانی مانگنے کیلئے سیاسی ابتری کاآغازشروع کردیاگیا۔اپنی جماعت میں انتہائی شریف النفس ایماندارقانون دان ریٹائرڈجسٹس وجیہ الدین صاحب کومحض اس لئے برداشت نہ کرپائے کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے بدعنوان عناصرکی نشاندہی کی اوربالآخرانہوں نے مستعفی ہوکراس تبدیلی سے اپنی جان چھڑالی اور موصوف اب بھی ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے آئے دن اورعوام کے کمزورحافظے سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف شہروں کے نظام کو تلپٹ کرنے کیلئے بڑی دلیری سے دندناتے پھررہے ہیں۔
اگرآپ اسی میں خوش ہیں توپھرروتے کیوں ہیں؟ ہنسیں، کھیلیں، موج اڑائیں۔اسے ہی اگرزندگی کہتے ہیں توموت کوکیاکہتے ہیں؟ عزتِ نفس کیاہوتی ہے؟حقوقِ انسانی کیا ہوتے ہیں؟آزادی کیاہوتی ہے؟خودمختاری کی تعریف کیاہے اوریہ جمہوریت کس بلاکانام ہے کہ جب بھی حکمرانوں کوان کے انتخابی وعدے یاد دلائیں توجمہوریت پرلرزہ طاری ہوجاتاہے۔اب یہ توآپ ہی مجھے بتائیے کہ جمہوریت کی کیاخوبیاں ہیں، میں تودورِجدید کی نئی لغت سے ناآشناہوں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مرتبہ پھرجمہوریت کے نام پرسیاسی جماعتوں نے عوام کوتقسیم کرکے ایوانِ اقتدارپرقبضے کیلئے اپنے دانت تیزکرناشروع کردیئے ہیں!
کچھ بھی تونہیں رہے گاجناب بس نام رہے گااللہ کا!
دلوں کومرکزِمہرووفاکر،حریمِ کبریاسے آشناکر
جسے نانِ جویں بخشی ہے تونے ،اسے بازوئے حیدربھی عطا کر

 

Comments are closed.