Baseerat Online News Portal

شب قدر فضیلت واہمیت کے آئینے میں

حماد نعمانی قاسمی
یوں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ اور ہر گھڑی نہایت قیمتی اور قابل قدر ہے،جس میں عبادت کی بڑی اہمیت احادیث میں منقول ہے،اور جس کے روزوشب صبح وشام میں مغفرت و بخشش کی موسلادھار بارش برستی رہتی ہے جس میں بندگانِ خدا گناہوں کی آلائشوں سے پاک ہوتے رہتے ہیں،لیکن اس ماہِ مبارک کا آخری عشرہ دونوں عشروں کے بالمقابل اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی طاق راتوں میں ایک ایسی رات آتی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے،یعنی جس شخص کو اس رات میں عبادت وتلاوت وغیرہ نصیب ہوجائے تو ایک ہزار مہینے کی عبادت کا ثواب ملتا ہے،ایک ہزار مہینے کا اگر حساب لگایا جائے تو 83 /سال 4/ماہ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی اس امت پر کتنی بڑی مہربانی ہے کہ صرف ایک رات میں عبادت کا ثواب 83 سال 4/ماہ کے بقدر بڑھاکر عطا کر دیتے ہیں-
ویسے سال میں نو (٩) ایسی راتیں ہیں جن میں عبادت کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہیں (١)شب قدر (٢)شب برات (٣)شب منی گیارہ ذی الحجہ کی رات (٤)شب منی بارہ ذی الحجہ کی رات (٥)شب عیدالفطر (٦)شب عیدالاضحی (٧)شب یوم عرفہ (٨)یوم النحرجو مزدلفہ میں گزاری جاتی ہے (٩) اور جمعہ کی رات ، ان تمام راتوں میں سب سے اہم لیلۃ القدر ہے،جس کی فضیلت و برتری کیلئے یہی کافی ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل ہوا اور اس رات میں عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کے برابر ہے اگر کسی شخص کو اس رات میں عبادت کی توفیق مل جائے تو زہے نصیب اس کا ثواب 83 سال 4/ماہ کے برابر ہوجاتا ہے،اس رات میں فرشتے اور جبرئیل امین آسمان سے اتر کر دنیا میں تشریف لاتے ہیں اور زمین میں گشت کرتے ہیں پوری رات ہر چار سو سلامتی ہی سلامتی رہتی ہے جس طرح تمام گھروں مکانوں کا قبلہ بیت اللہ ہے،اسی طرح تمام دنوں راتوں ہفتوں اور مہینوں کا قبلہ لیلتہ القدر ہے،جس طرح دنوں میں سب سے اہم دن جمعہ مہینوں میں سب سے اہم مہینہ رمضان المبارک اسی طرح راتوں میں سب سے اہم رات شب قدر کی رات ہے۔
*لیلۃ القدر نام رکھنے کی وجہ!* لیل کے معنی رات کے ہیں اور قدر کے معنی طے کرنے،متعین کرنےکے آتے ہیں چونکہ اس رات میں موجود رمضان سے آئندہ رمضان تک ہر چیز کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کس کو کتنی رزق ملے گی،کس کی روح قبض ہوگی،اور کون زندہ رہے گا،کتنی بارش ہوگی،کتنا اناج پیدا ہوگا وغیرہ یہ سب امور اسی رات میں طے کئے جاتے ہیں،اس وجہ سے اس رات کو لیلتہ القدر کہا جاتا ہے،،
ابوبکر وراق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس رات کو لیلتہ القدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بندہ چونکہ بد اعمالی وگناہوں کے دلدل میں پھنسا رہتا ہے،جس کی وجہ سے اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی لیکن جب وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرتاہے اور اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے،تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بندہ اللہ کی نگاہ میں قدروقیمت والا ہوجاتاہے۔
*شب قدر اس امت کو کیوں عطاء کی گئی؟*
یہ امت اللہ کے نزدیک سب سے بہتر امت ہے اس کا مقام ومرتبہ تمام امتوں سے بڑھا ہوا ہے لیکن اس امت کی عمریں اوسطاً/ ٦٠ /٧٠/سال کی ہوتی ہیں،جس میں ایک تہائی حصہ سونے میں اور ایک تہائی حصہ فکر معاش میں جبکہ زندگی کے مختصر اوقات ہی عبادت میں لگ پاتے ہیں، دوسری طرف گزشتہ اقوام اور سابقہ امتوں کی جانب توجہ کی جائے تو روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی عمریں طویل ہوتی تھیں۔ جس کی وجہ سے ان کی نمازیں عبادتیں اور دیگر کارِ خیر لا محالہ اس امت سے زائد ہوں گی۔ ایک دفعہ اللہ کے نبیﷺنے صحابہ کے درمیان بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا تذکرہ فرمایا،جس نے اللہ کے راستے میں ایک ہزار مہینے تک مسلح ہوکر جہاد کیا اور کبھی ہتھیار نہیں اتارا یہ سن کر مسلمانوں کو بہت تعجب ہوا ،اس موقع پر اللہ نے سورۂ قدرنازل فرماکر یہ پیغام دیا کہ اگر اس امت کے افراد اس رات میں عبادت کریں گے تو انکا ثواب اس مرد مجاہد سے بھی بڑھ جائیگا (سنن کبری)ایک دوسری روایت میں ہے کہ بنی کریمﷺنے بنی اسرائیل کے چار انبیاء کرام کا ذکر فرمایا (١) حضرت ایوب (٢) حضرت زکریا (٣) حضرت حزقیل اور حضرت یوشع بن نون علیھم السلام کہ ان میں سے ہر ایک نے اسّی اسّی سال تک اللہ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی کوئی نگاہ نہیں کیا ،تو صحابہ کرام ان کی عبادت کے تذکرے سن کر بہت متعجب ہوئے تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس سورت کو نازل کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس ایک رات میں عبادت کرے تو اس کا ثواب ۸۰ /سال سے بھی زیادہ ہوجاتاہے (تفسیر قرطبی)
*شب قدر کی تعیین:* اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکو شب قدر کے متعلق متعینہ طور پر بتلادیا تھا کہ وہ رمضان کی فلاں رات ہے اور اللہ کے نبی ﷺصحابہ کرام کو اس کی اطلاع دینے جارہے تھے کہ راستے میں دو صحابیوں کو دیکھا کہ وہ لڑائی کر رہے ہیں،یہ لڑائی اور جھگڑے اس قدر بُری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ کی طرف سے اتر نے والی رحمت بھی روک دی جاتی ہے،اور نیک اعمال کی توفیق بھی سلب ہوجاتی ہے اسی لڑائی کی وجہ سے شب قدر کی تعیین بھی امت سے اٹھالی گئی اور آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کا حکم دیا گیا،لڑائی اور جھگڑے بہت بُری چیز ہے لیکن صحابہ کرام کے اختلافات امت کیلئے باعث رحمت ہیں چنانچہ اگر شب قدر کی تعیین امت کے سامنے آجاتی تو پوری امت صرف اس رات میں عبادت کرتی دیگر طاق راتوں میں عبادت کی غافل ہوجاتی یہ امت کیلئے بڑے خسارے کی بات ہوتی،اس لئے شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اور اسے طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیاگیا۔
لہذا ہم اس مہینے میں دنیا کی مصروفیات سے کنارہ کش ہو کر پورے ماہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں اگر پورے مہینے کیلئے ہم اپنے آپ کو فارغ نہ کر سکیں تو کم از کم آخری عشرے میں پوری طرح اپنے آپ کو فارغ کرکے اعتکاف میں بیٹھ کر اللہ سے اپنا قرب بنائیں۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم آخری عشرے کی طاق راتیں عبادت میں گزاریں،اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں کیونکہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کے ہونے کا پورا امکان ہے،اور جس شخص کو اس مبارک رات میں عبادت کرنا نصیب ہوجاتا ہے،تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں
ایک روایت میں ہے کہ تم لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ (بخاری)
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ تم لیلۃ القدر کو رمضان کے آخر کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔ اور پھر طاق راتوں کی تعیین فرمادی،کہ اکیسویں،تیسویں،پچسویں،ستائیسویں، اور آخری شب میں تلاش کیا کرو۔ (ترمذی)
*شب قدر کی علامت:* پہلی علامت یہ ہے کہ جباس رات کے بعد والے دن میں سورج طلوع ہوتاہے تو اس میں ویسی شعاعیں نہیں ہوتی جیسا کہ عام دنوں میں ہوا کرتی ہیں ،اس رات کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس میں شیاطین کو ستارے پھینک کرنہیں ماراجاتا ،اور اس رات میں سمندر کے پانی کا میٹھا ہونا بھی بیان کیا گیا ہے۔
*شب قدر کی عبادتیں:*
(١)اس رات میں تمام عبادتیں ہم اپنے گھروں پر رہ کر کریں،مساجد کا رخ نہ کریں،اللہ کے نبی ﷺاور صحابہ کرام کا معمول تھا کہ وہ نفلی عبادت گھروں ہی میں کیا کرتے تھے حالانکہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت ان کے نگاہوں کے سامنے تھی اس کے باوجود وہ گھروں ہی میں عبادت کو ترجیح دیا کرتے تھے
(٢)اس رات کی کوئی مخصوص نماز جس میں مخصوص سورتیں پڑھی جائیں شریعت سے ثابت نہیں ہے
(٣)اس رات کی نیند کو قربان کرکے پوری رات عبادت میں گزاریں
،(٤)اس رات کے تین حصے کرلئےجائیں (١) پہلے حصے میں نوافل وغیرہ کا اہتمام کیا جائے (٢) دوسری حصے میں تلاوت کی جائے (٣)تیسرے حصے میں توبہ واستغفار کااہتمام ہو یہ طریقہ قرآن سے زیادہ مشابہت رکھتاہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
جو کتاب تری طرف وحی کی گئی ہے اسےپڑھاکرو،اور نماز کے پابند رہو، بےشک نماز بے حیائی اور بُری بات سے روکتی ہے،اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے (21)
(٥)اس رات میں صلاۃ التسبیح کا اہتمام کریں،جس کی بڑی فضیلت احادیث میں وارد ہے

(٦)اَللّٰھُمَّ إنَّکَ عَفُوٌّکَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّی۔ اس رات اس دعاء کا خوب ورد کریں۔
(٧) اور جو شخص اس رات میں عبادت کا اہتمام نہیں کرتاگویاوہ ہرطرح کی خیروبرکت سے محروم ہو جاتاہے۔ اللہ کے نبی ﷺکا ارشاد ہے بےشک یہ مہینہ یقیناً تمہارے سامنے آگیا ہے اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جو شخص اس رات کی خیروبرکت سے محروم ہوجاتا ہے یقیناً وہ ہر طرح کی خیروبرکت سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی خیروبرکت سے محروم نہیں ہوتا مگر محروم القسمت شخص ( ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مبارک رات نصیب فرمائے،اور اس ماہِ مبارک میں ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین-

Comments are closed.