Baseerat Online News Portal

علماء سے نیازمندی کا دن

 

 

محمد تعریف سلیم ندوی

 

تعلیمی و انتظامی مشغولیت و مصروفیات نے مدرسہ کے احاطہ میں محبوس کر دیا، لاک ڈاؤن میں بھی نرمی و تخفیف ہو چکی ہے،ہریانہ میں بازار کھلنے کا دورانیہ بھی نو بجے سے شام چھ بجے تک ہو گیا ہے، لیکن بوجوہ آج خارج از مدرسہ کا ارادہ کیا۔

ظہرانہ عزیزم مولانا ساجد سلمہ کے دولت کدہ رانیکا پر طے تھا،میوات ٹائمس کے مدیر سفیان سیف کے ہمراہ میوات کی مشہور سماجی شخصیت محترم جناب چودھری رمضان صاحب کو بھی دعوت و رفاقت کی زحمت دی، جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا،میری ان سے رات ہی بات ہوئی تھی، ذہنی آزمائش اور عجب بے کلی میں بکھرے جا رہے تھے۔

خلجان زدہ اذہان اور زخم خوردہ قلوب کو خلوتوں سے نکال کر جلوتوں کے حوالے کرنا، تاریکیوں و ظلمتوں کے سیاہ مورچوں سے روشنیوں و قمقموں کی حدود میں داخل کرنے جیسا ہے، جہاں دل کو سکون اور ذہن کو راحت پہچانے کا طبعی سامان مہیہ ہوتا ہے۔

 

پریشاں ہو تم بھی پریشاں ہوں میں بھی

چلو مے کدے میں وہیں بات ہوگی

بشیر بدر

 

سفیان سیف نرم طبیعت اور باصلاحیت نوجوان ہیں، صحافتی پیشہ کی وابستگی کے باعث عمدہ ذوق ہے،البتہ ان کی ہر ادا سے کہالت بھی مترشح ہوتی ہے، یہ عادت ہے جو تغیر پذیر ہو جائے تو خوبصورت مستقبل کی تعمیر ممکن ہے، ساجد بھائی کے دولت کدہ پہنچتے ہی دسترخوان مختلف اقسامِ طعام سے بھر گیا، دل و دماغ کے ساتھ اشتہاء کو سیرابی سے تر کر دیا تھا۔

میزبانِ محترم مدت مدید سے بلندشہر میں مقیم ہیں، ذائقہ دار کھانے برن شہر کی خبر دے رہے تھے۔

چودھری رمضان صاحب کی غیر متوقع آمد سے انہیں بڑی خوشی ہوئی۔

پھر بات بلند شہر سے چل کر جھالاواڑ،بھوپال، مندسور، علی گڑھ ہوتی بانس بریلی پہنچی جہاں میواتی دنیا کا جہاں آباد ہے، رب سب کو شاد کام و فائز المرام رکھے۔

اس پر خلوص و پر تکلف دعوت کے بعد مدرسہ پہنچے۔

ظہر کی نماز بعد صالح نوجوان عزیزی شکیل احمد نظام پور کو لیکر مولانا خالد قاسمی دامت برکاتہم سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہنچے، موصوف نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی عرضی انگلینڈ کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھیجی، جہاں کینٹ یونیورسٹی سے انہیں داخلہ کا پیغام موصول ہوا، اب مسئلہ داخلہ خرچ پر معلق ہو گیا، اسی تگ و دو اور جستجو میں جمعیت علماء متحدہ پنجاب کے سابق صدر سے یہ میٹنگ ہوئی، جو بے دم و لاحصل رہی ، اب جمعیت (م) سے رابطہ کی کوشش کی جا رہی ہیں وہیں زکوٰۃ فاؤنڈیشن اور جماعت اسلامی کے ذمہ داران سے بھی رابطے میں ہیں . رب العالمین وسائل و وساطت کا غیبی انتظام فرمائے.

اب مولانا مبارک علی میؤ کی تائید پر بڑے مدرسہ کا رخ کیا، لاک ڈاؤن کے قہر و جبر نے جامعہ معین الاسلام بمعروف بڑا مدرسہ کے دامن کو خیر و رحمت سے بھر دیا ہے۔

چند سال قبل طلبہ کی تعداد تین ہندسہ کو نہیں عبور کرتی تھی، وہیں گزشتہ و امسال طلبہ نصف ہزار کے قریب ہیں.

مفتی ابراہیم، ،مفتی ضیاء الحق اور مفتی زاہد حسین قاسمی صاحبان سے سرسری و ضروری علیک سلیک کے بعد طے شدہ شیڈول کے مطابق، ڈاکٹر ابو الفضل ندوی سنگار سے شرفِ نیاز کو مولانا مولانا ساجد محمد حسین صاحب ندوی جے سنگھ پور کی قیام گاہ قدم رنجہ ہوئے۔

دیکھتے ہی ڈاکٹر ابو الفضل صاحب نے اعلیٰ ظرفی کا اظہار کرتے ہوئے اپنائیت و قربت کا احساس اپنے چہرہ کی دل پذیر خد و خال اور حرکات و سکنات سے ظاہر فرمایا،انہیں کے ہم عصر و ہم سبق قدیم و بزرگ ندوی مولانا عبدالغفار بلئ بھی زینتِ مجلس تھے، مفتی عبدالحنان، مولانا عارف سلمبہ،مولانا مبارک آلی میؤ اور میزبانِ محترم کے ساتھ مجلس جمی،علمی لطائف و ظرافت بھرے جملے اور عمدہ امثلہ و مضبوط طرزِ تکلم نے مجلس کو خالص علمی و گراں قدر بنا دیا تھا، ڈاکٹر صاحب نے درس و تدریس کا سلسلہ جامعہ شاہ ولی اللہ پھلت سے کیا اور تادمِ حین علی گڑھ میں یہ اس معزز پیشہ سے وابستہ ہیں،

میوات میں علمی رسوخ اور دلچسپ طرزِ تکلم میں پہلی شخصیت سے روبرو تھا جو دینی دلائل اور عصری علوم پر مضبوط پکڑ رکھتے ہیں۔

میں نے انہیں نئے مرتب شدہ چھ سالہ عالمیت کورس سے آگاہ کیا تو بے حد خوش ہوئے بلکہ اسے پانچ سال تک کا کرنے کا مشورہ دیا اور اس کے علاوہ بھی بیش قیمت مفید مشوروں سے مستفید کیا۔

یہ مجلس عصر بعد بھی قائم رہی جو تین گھنٹے بعد تشنگی و مزید کی چاہ پر ختم ہوئی۔ پر:

 

اجر تو صبر کے جلو میں ہے

موجِ دریا میں، تشنگی میں نہیں

 

موصوف مدت دراز سے ”الكلمة العربية“ میگزین کے مدیر، جامعہ امہات المؤمنات علی گڑھ کے ممتاز استاد اور کئی سارے اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں، گھر پر مطب قائم ہے، جس سے خدمتِ خلق میں مصروف ہیں.

آبائی گاؤں سنگار ہیں والدِ گرامی مولانا عبدالرحیم ایک نیک صفت بزرگ تھے، آپ کے برادرِ کلاں مفتی عامر صمدانی بھی ایک معروف عالم دین ہیں۔

 

مغرب بعد گھر آنا تھا،پسرم ”محمد“ کی طبیعت خراب ہے،اس سے قبل کے سواری کا انتظار کرتا ایک نوجوان نے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا،گفتگو کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا ہمارے سینئر ساتھی محمد صالح ندوی نوگاواں ہیں، سفر شروع ہوا اور پل بھر میں پورا ہوا۔

افتاد طبیعت میں تازگی کا سامان ہوا تو باصرار انہیں گھر لایا وہ ایک دیندار گھرانے کے فرزند ارجمند ہیں اور ان کی گفتار و کردار اس کے مشیر بھی تھے۔

ہلکہ پھلکا عشائیہ تناول کر وداع چاہی۔

 

اب بے چین و بے قرار معصوم محمد کی آہوں نے مجھے سخت گرمی میں نرم بستر سے دور گرم بستر پر لٹا دیا تھا۔

پدرانہ محبت خواہشات و آرام پر گراں تھی۔

انما أموالکم و اولادکم فتنہ

Comments are closed.