Baseerat Online News Portal

عوامی مسائل سے کب تک آنکھیں بند رکھی جائیں گی ؟

مسلمانوں کو تکلیف پہنچا کر ملک کا بھلا ہوتا ہے تو مسلمان یہ قربانی دینے کو تیار ہیں
کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
8287421080
حکومت کا کام اپنی عوام کی خیر خواہی ہوتا ہے ۔ایک فلاحی حکومت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان،مال ،عزت اور آبرو کی حفاظت کو یقینی بنائے۔اس کی ریاست میں کوئی بھوکا نہ رہے ۔کوئی انصاف سے محروم نہ ہو۔ہر شخص کو علاج معالجے کی یکساں سہولت حاصل ہوں،غریبوں کا خصوصی خیال رکھاجاتا ہو۔ہر حکمراں چاہتا ہے کہ اس کے ملک میں امن و سلامتی ہو۔رعایا کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں۔جمہوری نظام میں تو حکمراں ان تمام باتوں کے پابند ہوتے ہیں ۔کیوں کہ وہ ووٹ ہی اس عہدپر لیتے ہیں کہ عوام کی فلاح کے لیے کام کریں گے ۔وہ آئین پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھاتے ہیںکہ ملک کے شہریوں میں رنگ ،علاقہ اور مذہب کے نام پرکوئی بھید بھائو نہیں کیا جائے گا۔لیکن بھارت کی موجودہ مرکزی حکومت سے لے کر بعض ریاستی حکومتیں تک جس طرح آئین اور اخلاق کی دھجیاں اڑارہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ملک لٹیروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے ۔جو نہیں چاہتے کہ ملک میں امن و سلامتی ہواور ملک کے شہری چین کے ساتھ دو روٹی کما اور کھاسکیں۔
ہرریاست میں حکومتی ناانصافی جگ ظاہر ہے۔پورے ملک کو فاشزم کی آگ میں جھونکا جارہا ہے ۔گزشتہ آٹھ سال میں جتنے بھی ایشوز اٹھائے گئے ان میں سے کسی ایک کا تعلق بھی عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی سے نہیں تھا۔بلکہ وہ تمام ایشوز باشندگان ملک کو آپس میں تقسیم کرنے والے ،ان کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے والے تھے۔کچھ ایسے ایشوز بھی تھے جن کا تعلق اگرچہ مسلمانوں سے نہیں تھا لیکن ان سے بھی کسی کا بھلا نہیں ہوا۔بلکہ حکومت نے اپنے چند دوستوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر عوام کا گلا گھونٹا۔مثال کے طور پر جی ایس ٹی کا قانون لایا گیا۔اول تو وہ قانون اتنا پیچیدہ بنایا گیا کہ دوسال اس کو سمجھنے میں لگ گئے ،پھر اس میں عوامی ضرورت کی بنیادی چیزوں کو بھی شامل کرکے جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا۔آج تک جی ایس ٹی ایک معمہ ہے ۔جس کو ملک کے وزیر خزانہ بھی شاید نہ سمجھا سکیں ۔بعض اشیاء ضروریہ کی قیمتیں اِسی جی ایس ٹی کی وجہ سے بڑھ گئیں جس کو یہ کہہ کر نافذ کیا گیا تھا کہ ایک ملک ایک ٹیکس کے نظام سے عوام کو فائدہ ہوگا۔اسی طرح نوٹ بندی کا فیصلہ لیا گیا۔کالا دھن نکالنے کی بات کہی گئی ۔مگر اس کا انجام کیا ہوا۔سیکڑوں جانیں صرف بنک میں قطار لگانے کے سبب چلی گئیں۔لاکھوں لوگوں کے روزگار ختم ہوگئے۔حکومت نے آج تک نہیں بتایا کہ نوٹ بندی سے عوام کا کیا فائدہ ہوا۔اسی زمرے میں زراعت بل لایا گیا۔جس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس کی وجہ سے بھی ایک سال تک احتجاج جاری رہا ۔اس احتجاج کی وجہ سے اربوں روپے کا عوامی نقصان ہوا۔آخر کار اسے واپس لیا گیا۔کشمیر سے دفعہ 370ہٹا کر اسے تین حصوں میں تقسیم کرکے آخر کیا ملا؟بھارت کی عام جنتا کو کتنا فائدہ ہوا؟کتنے کشمیریوں کی زندگی کامیاب ہوگئی ۔سرحد پار سے در اندازی میں کتنافرق آیا ؟کیا اپنے ہمسایہ ملکوں سے رشتے اچھے ہوگئے ۔؟ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ۔بجائے اس کے کشمیریوں کو ہزاروں کروڑ کا نقصان ہوا۔پڑوسی ملک نے تو خیر ہم سے اچھے رشتے قائم نہ کرنے کی قسم کھارکھی ہے لیکن مسلم دنیا میں بھی بھارت کی تصویر خراب ہوئی ۔
رہے وہ ایشوز جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح اسلام اور مسلمانوں سے ہے ان سے عوامی فلاح کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔البتہ ان ایشوز سے ملک کو عظیم نقصانات ہوئے۔ ملک میں نفرت پیدا ہوئی،انسانی جانیں گئیں ،گھر جلائے گئے،کاروبار تباہ ہوئے ۔ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا،سماجی تانے بانے بھی بکھر گئے اور بیرون ملک بھی ہماری تصویر خراب ہوئی ۔ان کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی،غربت میں اضافہ ہوا۔مثال کے طور پرسی اے اے بل لایاگیا ۔پورے ملک میں دھرنے اور مظاہرے ہوئے ۔سڑکیں جام ہوگئیں،کاروبار متاثر ہوئے۔ایک دو نہیں لاکھوں کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔فائدہ کیا ہوا؟اس بل سے کسی کو فائدہ پہنچانے میں بھی حکومت سنجیدہ نہیں ہے ورنہ 800ہندوپاکستانی خاندانوں کو شہریت نہ ملنے کے سبب ہندوستان سے واپس نہ جانا پڑتا۔جیسا کہ 10مئی کے اخبارات میں خبر ہے کہ یہ خاندان دوسال سے شہریت کے لیے درخواست دیے ہوئے تھے جو منظور نہیں ہوئی ۔ عوامی احتجاج کے باعث اس بل کوبھی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔بابری مسجد کا قصہ تو خیر بہت پرانا ہے ۔اس کا فیصلہ اپنے حق میں کرواکر کم سے کم ہندو بھائیوں کو رام کے نام پر ایک وشال مندر مل گیا۔لیکن اس فیصلے نے عدالتی نظام پر سوالات کھڑے کردئے۔طلاق بل سے کس کو فائدہ پہنچا یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے ؟حجاب کا ایشو اٹھاکر کتنے لوگوں کو روزگار میسر آیا۔اذان کے مسئلے سے کتنے بے روزگاروں کو روزگار مل گیا۔نفرت انگیز تقریرں کرکے کتنے بیمار اچھے ہوگئے ؟کیا حکومت ان سوالوں کے جواب دے گی۔
کیا ملک کے حقیقی مسائل سے آنکھیں بند کرلینے سے ملک ترقی کرجائے گا؟ کیا مسلمانوں سے نفرت کرکے معیشت میں اچھال آجائے گا؟کیا بہو بیٹیوں کو عریاں کرکے ہمیں دنیا میں عزت اور وقار نصیب ہوگا؟محض اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کو لڑوایا جاتا ہے ۔روز ایک نیا حادثہ لایا جاتا ہے۔اس وقت دہلی میں انکروچمنٹ کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ملک مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے۔ڈیزل ،پیٹرول اور گیس میں اضافے نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔روپے کی قدر گزشتہ پچھتر سال میں سب سے نیچے چلی گئی ہے ۔سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔لیکن حکمران گیان واپی مسجد کا سروے کرارہے ہیں۔متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد پر عدالت میں بحث ہورہی ہے۔تاج محل کے بائیس کمروں کی جستجو کی جارہی ہے۔اس حال میں جب کہ آئین میںعبادت گاہ ایکٹ کے تحت مذکورہ کسی بھی عبادت گاہ پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی پھربھی عدالتیں سماعت کررہی ہیں۔یعنی اب آئین کا وجود بھی بے معنیٰ ہے۔ریت میں گردن چھپالینے سے بگلے کی موت نہیں ٹل سکتی۔اگر حقیقی مسائل سے اسی طرح روگردانی کی گئی تو ملک بھیانک تباہی کا شکار ہوگا۔پنجاب میں خالصتان حامیوں اور شیو سینا کارکنان کے درمیان جھڑپ اور ہماچل پردیش کی اسمبلی پر خالصتانی جھنڈے نئے خطرات کی آہٹ کا اشارہ ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ملک میں علاحدگی پسند تحریک پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے ۔
ان سنگین حالات میں اپوزیشن کی کہیں بازگشت نہیں سنائی دیتی۔میں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھاکہ ذرا سی مہنگائی ہونے پر اپوزیشن جماعتیں آسمان سر پر اٹھالیتی تھیں۔کرایہ مہنگا ہوتا تو بسیں جلادی جاتی تھیں۔ریل روکو آندولن ہوتے تھے۔سرکاری املاک کو نشانہ بنایا جاتا تھا ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کسی قسم کا نقصان کیا جائے لیکن سڑکوں پر احتجاج کرنا اور دھرنے دینا تو جمہوریت میں قانونی حق ہے ۔اگر صرف مسلمان یا مسلمانوں کی کوئی تنظیم مہنگائی اور بے روزگاری پر احتجاج کرے گی تو فرقہ پسند عناصر اسے بھی ہندو مسلم کے زاویہ سے دیکھیں گے ۔اس لیے ضروری ہے کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکرعوامی فلاح اور ملک کی سالمیت سے متعلق ایشوز پر ملک گیر ہڑتال کا اعلان کریں۔مسلمان ان کے شانہ بشانہ نظر آئیں گے۔مجھے تعجب ہوتا ہے کہ چالیس سال پہلے روپے دو روپے کے اضافے پر بھی شور مچ جاتا تھا اور آج سو روپے کا اضافہ بھی خاموشی سے برداشت کرلیا جاتا ہے۔حکمران اگر عوام کی خیر خواہی بھول گئے ہیں تو کیا اپوزیشن جماعتیں بھی عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گی؟اپوزیشن کی بعض جماعتوں کی خاموشی خود ان کے کردار کو مشکوک بنا رہی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہی کسی ایک ہی آفس سے ہدایات دی جارہی ہیں۔ ملک کی اپوزیشن سیاسی جماعتیںاپنے مقام کو پہچانیں اور اپنا حقیقی رول ادا کریں۔وہ حکومت کی فرقہ پرست سیاست کا شکار نہ ہوں ۔انھیں عوام کی تکلیف کا احساس ہونا چاہئے۔کسی بھی ملک کی اقتصادیات اس کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ملک اگر ایک بار معاشی دیوالیہ ہوگیا توباشندگان ملک کی لنکا لگ جائے گی۔

 

Comments are closed.