Baseerat Online News Portal

عیدالفطر؛مسلمانوں کے لئے اللہ کے انعام و اکرام کا دن 

 

ابو عمارمحمدعبدالحلیم اطہر سہروردی 

 صحافی و ادیب روزنامہ کے بی این ٹائمز گلبرگہ

اللہ رب العزت کا یہ ہم پر بے انتہا کرم ہے کہ اس نے ماہ رمضان کے فوری بعد عید الفطر کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کو زمین پر بھیجتا ہے اور وہ راستوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں کہ اے رسول رحمت ﷺ کی امت آج اپنے رب کریم کی طرف آئو وہ تمہیں بہت کچھ دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جب لوگ عیدگاہ میں آجاتے ہیں تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ جن مزدوروں نے اپنا کام مکمل کیا ہو ان کی مزدوری کیا ہے،فرشتے عرض کرتے ہیں ان کی مزدوری یہ ہیکہ انہیں پورا پورا اجر دیا جائے ،تب اللہ فرماتا ہے گواہ رہنا کہ جن بندوں نے روزے رکھے ،نمازیں پڑھیں، تلاوت کیا ،زکواۃ دی،صدقہ خیرات کیا ،نیک اعمال کئے ان کے عوض میں نے انہیں مغفرت سے نواز دیا ۔عید کے دن رب کریم کی رحمتوں اور بخششوں اور اللہ کی بے انتہا کرم نوازیوں کو دیکھ کر شیطان بھی پریشان ہوجاتا ہے کہ اس کی کارستانیاں سب خاک میں مل گئیں۔عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہے۔عید کے اس پر کیف موقع پر بھی رحمت العالمین ﷺ نے غریبوں اور مفلسوں کو یاد رکھا اور حکم دیا کہ صدقہ فطر ادا کیا کرو تاکہ غریبوں اور مفلسوں کی بھی عید ہوجائے۔عید کی نماز کو جانے سے قبل صدقہ فطرہ ادا کریں او اگر اپنے رشتہ داروں یا دوست احباب میں کوئی مستحق ہے تو اس کی مدد کریں آس پڑوس میں کوئی غریب ہیں تو اس کی بھی مدد کریں اور پھر مکمل وقار اور شان کے ساتھ اللہ کی تسبیح بیان کرتے عید گاہ جائیں اور حقیقت میں عید اان کی ہے جنہوں نے رمضان المبارک میں اللہ کے ہر حکم کی تعمیل کی اور اس عہد کے ساتھ عید گاہ گیا کہ جو توبہ اس ماہ مبارک میں کی ہے اس کی پاسداری کرے گا اور بعد توبہ پھر گناہ نہیں کرے گا عید کی نماز جانے سے قبل حضور اکرم ﷺ مسواک کرتے غسل فرماتے عمدہ لباس زیب تن فرماتے خوشبو لگاتے اور عید گاہ روانگی سے قبل صدقہ فطر ادا فرماتے اور طاق تعداد میں کھجوریں نوش فرماکر عید گاہ کی جانب تشریف لے جاتے اور جاتے وقت جو راستہ ہوتا واپسی میں دوسرا راستہ اختیار فرماتے تا کہ شوکت اسلام کا ہر طرف اظہار ہو شریعت میں بعد نماز عید مصافحہ اور معانقہ کرنا دونوں مسنون ہے تمام مسلمان بھی رسول رحمت علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے عید منائیں اور عید کے بعد بھی نیک اعمال کی رمضان المبارک میں جس کی پابندی کرتے تھے وہ ہمیشہ کرتے رہیں اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات اور اتباع سنت پر عمل کرنیوالا بنائے اور رحم کا کرم کا عافیت کا معاملہ فرمائے ۔

آج عالم اسلام میں خونریزی چل رہی ہے۔فلسطین ،برما ،شام اور دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔ قبلہ اوّل پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ عالم اسلام جن حالات سے گزر رہا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں۔ ماضی میں بھی بارہا ایسا دورِ حزیں آیا کہ مسلمانوں نے درد و کرب کے سائے میں عید کے لمحات گزارے اور صبر و استقامت کے ساتھ عید منائی۔ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہ امتِ مسلمہ کے لیے سیکڑوں چیلنجوں سے پُر ہے۔ بڑی مشقت اور صبر آزما گھڑی آن پڑی ہے۔ مسلم دُنیا پر کئی طرز کی جنگیں مسلط کر دی گئی ہیں۔ شام ویمن کی حالیہ خوں ریزی نے مسلم امّہ کے جسموں کو زخموں سے چٗور چٗور اور روحوں کو کرب زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ان ممالک میں حالیہ خانہ جنگی اور قتل و خون نے انسانیت کو شرمسار کر کے رکھ دیا ہے۔آج اگر شام و یمن کے مسلمان عزیزوں کے لہو کی سُرخی کے درمیاں عید منا رہے ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے شہید مسلمانوں سے ہم دردی میں اپنی عید اسلامی طرز سے منا کر اس بات کا ثبوت فراہم کریں کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے، جسم کے کسی حصے پر زخم آئے گا پورا جسم تڑپ اٹھے گا۔موجودہ حالات اسلام سے رجوع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ باطل قوتیں ہمارا وقار چھیننا چاہتی ہے اسی لیے ہمیں مسلسل زخم دیئے جا رہے ہیں، ایسے حالات میں اسلام پر استقامت میں ہی ہماری کامیابی ہے ۔ان پرآشوب حالات سے مقابلہ کے لئے ضروری ہیکہ اللہ رب العزت اوربارگاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کا رشتہ ہموار کر لیا جائے تو انشاء اللہ اغیار کی سازشیں دم ٹوڑ جائیں گی۔ عالم اسلام کے لئے امیدوں کی صبح نمودار ہو جائے گی، کامیابیوں کے آفتاب طلوع ہوں گے، امیدوں کی فصل ہری ہو جائے گی ۔وطن عزیز کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کے ملک ہندوستان میں مسلمانوں پر ناطقہ بند کرنے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ ہندوتوا کا جنون سر چڑ ھ چکا ہے ۔اس لئے ہم عید منائیں گے اوراپنی دعائوں میں گڑگڑا کر اللہ رب العزت سے عالم اسلا م اورمسلمانوں کی مذکورہ پریشانیاں دور کرنے کیلئے مناجات کریں گے۔ہمارا اِیمان ہے اور ہم قران کے واضح پیغام "ہر پریشانی کے ساتھ آسانی ہے”پر یقین رکھتے ہیں ۔ان حالات میں ہمیں صرف اور صرف اللہ سے لو لگانی ہے۔اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔قرآن ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ "اللہ کی طرف رجوع ہوجاو”اور اب ہمیں یہی کرنا ہے۔اس عید کے ساتھ ہمیں اپنے اعمال کاا حتساب کر کے اصلاح کرنی ہے۔رمضان المبارک کی عبادتوں کے صلہ میں خدا نے ہمیں عید جیسی عظیم خوشی کا تحفہ عطا فرمایا ہے ۔ساری دنیا میں عید کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔اس مبارک اور خوشی کے دن ہم یہ عہد کریں کہ دینا بھر میں خاص کرملک میں امن و اتحاد بھائی چارگی سماجی ،تعلیمی ،کاروبار کی ترقی کیلئے مل جل کر جد و جہد کریں گے۔

رمضان کا بابرکت مہینہ جیسے ہی ہمارے پر سایہ فگن ہوتا ہے ظاہری اور باطنی معاملات بدل جاتے ہیں دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور وہ مسلمان جو صرف نام کے ہوتے ہیں وہ بھی نماز روزہ کی پابندی کی فکر میں لگ جاتے ہیں دوسری قوموں کے لئے یہ کوئی معجزہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس مہینے میں صرف خیر ہی خیر دیکھتے ہیں مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں سروں پر ٹوپیاں نظرآتی ہیں ہر طرف ایک دینی ماحول چھا جاتا ہے جسے ساری دنیا محسوس کرتی ہے اہل فکر دن اور رات اللہ کو راضی کرنے میں لگے رہتے ہیں طاق راتوں میں  شب قدر تلاش کرتے ہیں زکوۃ ادا کرتے ہیں تو غریبوں کی بھی عید ہوجاتی ہے اس ماہ مبارک میں سبھی پر اللہ کی رحمتیں برستی ہیں مسلم سماج میں اتنی بڑی تبدیلی سے دوسری قومیں رشک کرتی ہیں لیکن جیسے ہی ماہ مبارک رخصت ہوتا ہے مسلمان خود اس ماحول کو نیست و نابود کردیتے ہیں اور عید کے دن سے ہی اپنی پرانی روش اور لہوولعب میں مشغول ہوجاتے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ پورے ایک مہینے تک یہ سروں پر ٹوپیاں سجائے مساجد میں نمازوں کے لئے حاضر ہوتے رہے ہیں اور پورے مہینے میں ہر برائی اور جھگڑوں سے دور رہے ہیں عید کے دن ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خواب تھا جو ٹوٹ گیا یا ختم ہوگیا عید کا چاند دیکھتے ہی ایک بڑا طبقہ عید کی تیاریوں میں جٹ جاتا ہے اور وہ مسلمان جو صرف سیزن کی خاطر راہ راست اختیار کئے ہوئے تھے وہ چاندرات سے ہی اپنی پرانی روش پر لوٹ جاتے ہیں او ران میں مردو خواتین دونوں شامل ہیں چاند رات میں ایسے مردو خواتین بازاروں میں بے پردگی اوربے حیائی کا نظارہ پیش کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ یہ رات لیلۃ الجائزہ یعنی انعام و اکرام کے تقسیم کی رات ہوتی ہے اس کا انہیں ذرہ برابر بھی خیال نہیں ہوتا مکمل ایک ماہ تک اللہ او رسول اللہ کی اطاعت کرنیوالے یہ مسلمان اچانک سرکش ہوجاتے ہیں حالانکہ اس ماہ مبارک کی اہم فرض عبادت روزوں کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا گیا کہ  اس کے ذریعہ تم متقی بنو اور اس ماہ مبارک کو تربیت کا مہینہ کہا گیا لیکن ایک ماہ کی تربیت ختم ہونے کے بعد بھی چند ایسے بدنصیب ہوتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی پتھر تو سمندر سے بھی پیاسا نکلا کے مصداق وہ اس مبارک مہینے میں بھی سدھر نہیں پاتے عید کے دن ہی وہ دھوم مچاتے ہیں کہ دوسری قومیں جو مہینہ بھر انہیں صابر و شاکر اور عبادت گزار پاتی ہیں ان سے عید کے دن خوف محسوس کرتی ہیں اور گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دیتی ہے عید کے دن جو دھما چوکڑی او رہمارے نوجوان نعرہ بازی کے ساتھ ساتھ بائیک ریسنگ ہوٹلوں اور سنیماہالوں پر جمع ہونا سگریٹ پان گٹکا کے حصول کیلئے سرگرداں اس ٹولے کو دیکھ کر ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ ان کی عید سے کوئی محبت ہے اور عید کا پیغام انہوں نے سمجھا ہے اور جب ان ہی لوگوں نے خود عید کا پیغام نہیں سمجھا تو اوروں تک کیسے پہنچائیں گے ،اس مرتبہ شائد ایسا نہ ہوسکے کیونکہ عالمی عباء کورونا کے سبب لاک ڈاون اور پولس کے ڈنڈے ایسے اودھم مچانے والوں کو گھر میں بیٹھنے پر مجبور کر سکتے ہیں،عید کے دن اپنے کسی عمل سے یہ ظاہر نہ کریں کہ ہماری عید دوسروں کے لئے شکایت بن رہی ہے ۔عام طور سے ہر سال ایسا ہوتا تھا کہ مسلمان عید کے دن نفیس لباس زیب تن کرکے خوشبو میں بسے نہایت وقار اور بردباری کے ساتھ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہوئے عید گاہ جاتے نماز عید اداکرتے اور اسی متانت و قار کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس ہوتے ،اپنے اہل خانہ سے محبت و شفقت کے ساتھ عید ملتے ،پھر رشتہ داروں سے ملاقات کرتے لیکن اس مرتبہ محدود طریقہ سے محلوں کی مساجد میں ہی نماز عید پڑھنا ہے ،دعا کریں کہ اللہ رب العزت اس وباء اور اس وباء کی آڑ میں جو ظلم ڈھایا جارہا ہے اس سے انسانیت کو نجات چطا فرمائے اس کے علاوہ رمضان کی طرح ہمیشہ مساجد کو آباد رکھیں ورنہ ہوتا یہ ہے کہ رمضان ختم ہوتے ہی عید کے دن سے ہی مساجد ویران ہوجاتی ہیں اور حیران سوچتی رہ جاتی ہیں کہ ایک ماہ تک ہمیں اپنی تنگ دامنی کا احساس ہورہا تھا آج سے ویرانی کا احساس جاگ گیا ہے اللہ کے واسطے مساجد ویران نہ کریں مساجد ویران ہونگے تو دل ویران ہونگے اور یہ ویران دل کھنڈر بن جائیں گے جہاں شیطان اپنا بسیرا بنالے گا اور بندے کو دین کی راہ سے ہٹا کر دنیا کے لہوولعب میں مشغول کردے گا اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان کے بعد بھی اعمال صالح ترک نہ کریں اور ہر حال میں قرآن و سنت کی پابندی کریں ،عید کی خوشیوں میں اپنے پڑوسیوں ،غرباء ،مساکین ،ضرورتمندوں کو ضرور یاد رکھیں۔ اللہ تعالی ہمارے روزے ،نماز،زکوۃ ،عطیات،تلاوت کلام پاک کو قبول فرمائے۔ اور رمضان کے بعد بھی ہمیں ان اعمال صالح پر جمائے رکھے ان اعمال کی پابندی کی توفیق عطاء فرمائے اور یہی عید اور ہر مُسرت و خوشی کا حاصل ہے کہ ہم اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔

Comments are closed.