Baseerat Online News Portal

غلط فہمیوں کا ازالہ ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے

عبد الحمید نعمانی
بھارت ایک مختلف مذاہب و فرقے والا ملک ہے ، ماضی کے مختلف حالات کو حال کے مختلف حالات پرمنطبق کرنا تاریخ کے ساتھ ظلم اور انصاف و دیانت کا خون کرنے کے ہم معنی ہے ، نظام حکومت میں شامل اور نظام حکومت سے باہر، افراد کو ایک سطح پر رکھنا سراسر ناسمجھی کی بات ہے ، بھارت کے آئین کی تو ضیع سے پہلے اور بعد کی مختلف صورت حال کو یکساں قرار دے کر حالات و مسائل کی غلط اور فرقہ وارانہ تعبیر و تو ضیح،سراسر شرپسندی اور کوڑھ دماغی ہے نہ کہ تاریخ نگاری اور حقیقت پسندی ، ماضی کی کمی کو حال کی فخر پسندی سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یہ تاریخ سازی ہے نہ کہ تاریخ نگاری ،یہ کہنا کہ عبد الحمید نے ٹینک کو نہیں اڑایاتھا ، مہارانا پرتاپ کو جنگ میں فاتح قراردینے کی مہم اسی تاریخ سازی کی مہم کا حصہ ہے ، اقتدار کے لیے جنگی کشمکش کو حکمرانوں کی معرکہ آرائی قرار دینے کے بجائے ہندو مسلم رنگ میں پیش کرنا ،تاریخ کے ساتھ کھلواڑ اور فرقہ پرستی ہے نہ کہ نئی نسل کو تاریخ کی آگہی فراہم کرنے کی کوشش ،مہارانا پرتاپ کے مسلم سپہ سالار اور اکبرکے ہندو سپہ سالار ہونے کی بات سے ہی ہندو مسلم فرقہ وارانہ تاریخ سازی کا غلط ذہن پوری طرح بے نقاب ہوجاتا ہے ۔ اکبر ، مہارانا پرتاپ کی طرح اورنگ زیب اور شیواجی کا بھی معاملہ ہے ۔ کئی سارے مصنفین پس منظر اور حالات کے سیاق و سباق کو نظر انداز کرکے امام ربانی ،شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی کو بھی فرقہ وارانہ ماحول کو بڑھانے اور بنانے رکھنے کے لیے پیش کرتے رہے ہیں ، افسوس کی بات ہے کہ کئی ایسی شخصیات بھی غلط پروپگینڈا کا شکار ہوتی رہی ہیں ، جن کے متعلق فرقہ وارانہ تناظر میں نہیں سوچا جاسکتا ہے ان میں رام دھاری سنگھ دنکر ، پروفیسر محمد مجیب ، سید اطہر عباس رضوی جیسے مسلم ، غیر مسلم نام بھی ہیں ، ان حضرات کا شمار ہندو تووادی اور فرقہ پرست مصنفین میں نہیں ہے۔ تاہم وہ غلط پروپگینڈا کا توڑ کرنے کے بجائے متاثر ہوگئے ، جب کہ ایسے حضرات کے بر عکس انصاف پسند ، غیر جانب مصنفین نے حالات و افکار کی بہتر تحقیق و تعبیر پیش کر کے فرقہ وارانہ دھند کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہ بات قطعی یک طرفہ بلکہ بے بنیاد ہے کہ شیخ احمد سر ہند ی ؒ غیر مسلموں اور ہندوؤں کے متعلق رواداری کے بجائے سخت رویہ اپنانے کے حامی تھے ، جب کہ دیگر حضرات صوفیائے کرام جمیع انسانوں کے لیے محبت و الفت کاا ظہار کرتے تھے ، ظاہر ہے کہ یہ شیخ احمد سر ہندی کے منفرد و بے مثال تجدیدی کارنامے کی ایک طرح سے نفی کرنے کی کوشش ہے ، کسی فرقے کے غلط عناصر اور افراد کے خلاف بات یا عمل کو پورے فرقے پر منطبق نہیں کیا جا سکتاہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بد عہدی ،غداری ، بغاوت و فساد کرنے والے کچھ یہودیوں ، بنو قینقاع ،بنو نضیر ، بنو قریظہ کے خلاف کارروائیاں یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی تھیں ، بلکہ بد عہدی ،غداری ،باغی ہونے کے سبب کی گئی تھیں ، اسی طرح بھارت میں بھی جتنے لوگوں کے خلاف جو کارروائیاں ہوئی تھیں ، وہ ہندو ،سکھ ،عیسائی ہونے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ بغاوت ،غداری ،فساد، شرپسندی اور بدامنی پھیلانے یا باغیوں کو پناہ دینے اور اقتدار میں غلط مداخلت کرکے بغاوت و بد امنی کی فضا بنانے کی وجہ سے کی گئی تھیں ۔جہانگیر ، اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان وغیرہم کی طرف سے کارروائیوں میں مذکورہ اسباب و علل کو باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے ان میں کسی مذہب و فرقہ سے تعلق رکھنے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، مذکورہ اسباب میں سے کسی سبب کے پائے جانے کی صورت میں تو حکمراں نے اپنے فرقے کے حتی کہ باپ ،بیٹے ،بھائی ،بھتیجے تک کو نہیں بخشا تو دیگر مذاہب والے کو کیسے آزاد چھوڑ د یا جاتا ،غیر مذہب والے کی تو تھوڑی رعایت بھی کی جاتی تھی ۔ شیخ احمد سر ہندی ؒ نے کسی کے محض غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اپنے غم و غصے اور سخت مزاجی کا اظہار نہیں کیا ہے ۔ بلکہ شرپسندی اور فساد انگیز ی کی وجہ سے سخت مزاجی اور بیزاری و نفرت کو اظہار کیا ہے ،ایسا بالکل نہیں ہے کہ کسی معصوم ،بے قصور آدمی کے خلاف، صرف کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بیزاری و شدت پسندی کا اظہار کیا گیا ہے معتوب و مطعون افراد ایسے معصوم اور دودھ کے دھلے نہیں تھے ،جیسا کہ آج کی تاریخ میں بتانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ فرقہ وارانہ ذہن کے مصنفین کے اثر سے جو غلط تعبیر رام دھاری سنگھ دنکر وغیرہ نے کی ہے ۔ وہیںغلطی ان سے متاثر ہوکر پروفیسر محمد مجیب اور اطہر عباس رضوی وغیرہ نے بھی کی ہے ،
رام دھاری دنکر کی معروف کتاب سنسکرتی کے چار ادھیائے کثیر الاشاعت کتابوں میں شامل ہے اس حد تو نہیںلیکن پروفیسر محمد مجیب کی The Indian Muslimsاور اطہر عباس کی The Muslim Revivalist Moments in Northern India in the Sixteenth and Seventeenth Centuriesکتابیں بھی خاصی پڑھی جاتی ہیں ،اس کا غیر مسلموں کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اذہان و قلوب بھی ازحد متاثر ہوتے ہیں ،جہاں پروفیسر محمد مجیب نے حضرت مجددپر بہت سخت اور نا مناسب طریقے پر اعتراضات کیے ہیں ،وہیں ، ڈاکٹر اطہر عباس رضوی نے سخت الفاظ میں شیخ سر ہندی کی تحقیر و تنکیرکرتے ہوئے ان کو بالکل ہی الگ مکروہ رنگ میں پیش کیا ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب شبیر احمد خاں غوری ایم اے ، ایل ایل بی نے رسالہ معارف میں لکھا تھا کہ رضوی نے تنقید کو تنقید کی حد میں رکھنے کے بجائے تبرا سے کام لیا ہے ایسے حضرات نے کچھ خصوصی معاملے کو عمومی رنگ میں تحریر کرکے غلط فہمیوں کو راہ دے دی ہے ۔ مولانا ابوالحسن زید فاروقیؒ کی اس بات میں خاصا دم ہے کہ یہ صریح الزام ہے کہ شیخ احمد سر ہندی کو ہندوؤں سے نفرت تھی وہ صرف ان ہندوؤں کے مخالف تھے جو اسلام او ر مسلمانوں کے دشمن تھے ۔(مقامات مظہری اردو کا حاشیہ صفحہ5صفحہ139)مولانا فاروقی ؒ نے حضرت مجدد اور ان کے نا قد کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں بہت سے اعتراضات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے ۔
رام دھاری سنگھ دنکر ،پروفیسر محمد مجیب ،ڈاکٹر اطہر عباس رضوی کے بر عکس انگریز تذکرہ نگار،ارتھر ایف بیولر نے زیادہ منصفانہ اور غیر جانب داری سے صورت حال اور مسائل کا تجزیہ کیاہے انھوں نے شیخ احمد سر ہندی کی حیات و خدمات اور مکتوبات پر بہت اچھا تحقیقی کام کیاہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ سر ہندی کا مستحکم معاشرتی نظام خاص مسلمانوں کے لیے نہیں تھا ، ان کا عالمی نظریہ اس کو قبول کر تاتھا کہ مختلف قومیں اپنے اپنے طریقے اور اصولوں پر زندگی گزاریں اور وہ ہے ”جیو اور جینے دو“جس کی طرف قرآن بھی اشارہ کرتا ہے ۔ تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے ۔ انھوں نے کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرو ،یا غیر مسلموں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے سے یاان کے طریقہ پر زندگی گزارنے سے روکو،ان کا پریشان کن تاثر اس بات کو لے کر تھا کہ مسلمان آزادانہ طور پر اسلامی احکام کا اظہار (مسلمانی طریقے سے) نہیں کرسکتے تھے ۔
شیخ سر ہندی ؒ یہ شدت سے محسوس کرتے تھے کہ اکبری دور میں دین اسلام کمزور ہوگیا ہے اور مسلمانوں کے لیے اسلام پر عمل مشکل ہورہا ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے کئی مکتوبات میں اظہار خیال بھی کیا ہے ایک دوسرے مورخ تھا مس ڈانہارٹ نے بھی فرقہ وارانہ تعبیر کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نظریہ خصوصاً پریشان کن ہے ۔ جن کو شیخ احمد اور ان کے جانشینوں کے لیے جدید دور کے ہندستانی اسکالرز نے قائم کیا ہے کہ ان کا مزاج غیر مصالحت آمیز اور سخت اسلامی درجہ کے تھے جس سے ہندواور مسلمانوں کے باہمی پر سکون تعلق خراب ہوئے۔
آج کے بھارت میں اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ غلط طریقے سے ماضی کے واقعات و حالات کی فرقہ وارانہ تعبیرات سے بچاجائے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی ضروری ہے کہ باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے ، نہ یہ کہ من گھڑت کہانیوں سے نفرت کا ماحول بنایا جائے اور ماضی کے واقعات کی فرقہ وارانہ تعبیرات پیش کرکے مختلف فرقوں کے درمیان دوری اور دشمنی پیدا کی جائے ۔

Comments are closed.