Baseerat Online News Portal

قربانی ،قرب ربانی کا اہم ذریعہ ہے

ڈاکٹر جہاں گیرحسن
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کا گوشت اوراُس کا خون ہرگز نہیںپہنچتا ہےبلکہ صرف تمہاراتقویٰ واخلاص پہنچتا ہے
اللہ رب العزت کی عظیم نشانیوں میں سے دو اہم نشانیاں حج اورقربانی ہیں۔حج ہر مسلم عاقل بالغ اور سفر حج کی قدرت رکھنے والے پر صحت وتندرستی کے ساتھ زندگی میں ایک بار فرض ہے، جب کہ قربانی ہر صاحب نصاب پر ہر سال واجب ہے۔ان دونوں عبادتوں میں کافی حد تک جو مماثلت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دونوں عبادتیں اللہ تعالیٰ کےمخصوص اور محبوب بندوں (حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل )کی پیاری پیاری اداؤں اور سنتوں کا قابل رشک مجموعہ ہے ۔یہ دونوں عبادتیں جہاں ایک طرف اللہ رب العزت کے محبوب اور مقبول بندوں کی یاد دلاتی ہیں وہیں دوسری طرف اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تقرب اورتقویٰ وطہارت حاصل کرنے کے طریقے کی رہنمائی بھی کرتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب حج اور قربانی دونوں تقویٰ وطہارت اوربارگاہ الٰہی میںمقبولیت حاصل کرنے کے انمول ذرائع ہیں، تو آج جب کہ پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ حج کیے جارہے ہیں اوراُسی قدر قربانیاں بھی پیش کی جارہی ہیں، پھر بھی آج ہم تقویٰ وطہارت اور اللہ رب العزت کاتقرب حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
ہمارے خیال میں اس کی واحد وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم لوگ ’’ اول المسلمین‘‘ کی صف میں شامل نہیں ہیں، اور اس کاواضح ثبوت آئے دن رونما ہونے والے ہمارے اعمال ہیں۔ مثال کے طورپر جب کبھی ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز چیز،جیسے:دین، آل اولاد ، مال وزر، منصب وعہدہ وغیرہ میں سے کسی ایک چیز کواپنانے کا حکم دیا جاتاہے تو ہم بلا جھجھک آل اولاد، مال وزر، اور منصب وعہدہ کو اَولیت دیتے ہیں،دین کویکسر فراموش کردیتے ہیںاور اس وقت ہماری دینداری پس پشت چلی جاتی ہے، جب کہ اللہ کے بندوں کی یہ خصوصیات رہی ہیں کہ اُن کا ہر چھوٹا بڑا عمل خالص دین کے لیے ہواکرتا ہے اور اُن کے نزدیک جان سے زیادہ عزیز چیز پربھی دین کو اَولیت اور فوقیت حاصل رہتی ہے۔ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اُن کی نظر ہمیشہ اللہ کی مشیت پر رہتی ہے، وہ ہمیشہ اللہ کی طرف متوجہ رہتے ہیں،اور غیر اللہ سے کبھی لو نہیں لگاتےبلکہ یہ کہتے نظر آتے ہیں:’’بےشک میں پورے طورپر آسمانوں اور زمین کے خالق کی طرف متوجہ ہوں اور میں غیر اللہ کی طرف لولگانے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(سورۂ انعام:۷۹)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:’’بے شک میری نماز، میری قربانی ، میرا جینااور میرامرنااللہ ہی کے لیے ہےجو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اِسی بات(اس کاشریک نہ ٹھہرانے)کا مجھے حکم ملا ہے اور میں پہلے مسلمان ہوں (بعدمیں کچھ اور)۔‘‘(انعام:۱۶۳)
اس تعلق سے حضرت ابراہیم ،حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل ہمارے لیےایک بہترین مثال کی حیثیت رکھتے ہیںکہ جب اِن عظیم ہستیوں کویہ حکم ملا کہ اپنی پیاری سےپیاری اور قیمتی سے قیمتی چیز وں کو اللہ کی راہ میں پیش کرو، تو اِن محبان خدا نے نہ صرف لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کی صدائیں بلند کیں، بلکہ اپنے’’ اول المسلمین‘‘ ہونے کادعویٰ بھی سچ کردکھادیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِن بابرکت اوربزرگ ہستیوںکے پاکیزہ اور تقویٰ شعاراَعمال کو قیامت تک کے لیے ہر مسلم صاحب ثروت پرواجب کردیاگیا،اور اَرکان حج میں اُسے ایک اہم رکن کی حیثیت بھی عطاکردی گئی کہ قربانی اورصفاومروہ پر سات چکرلگائےبغیر حج قبول نہیں۔
بظاہر حج اور قربانی ایک دینی فریضہ اور اللہ رب العزت کے چند نیک بندوں کی سنت اور یادگار ہے، لیکن حقیقت میں حج اور قربانی دونوںبارگاہِ الٰہی میں تقرب پانے اور تقویٰ و طہارت کے مقام پر فائز ہونےکےدواَہم ذرائع ہیں۔لہٰذاہمیں یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حج اور قربانی دونوں کے بنیادی مقاصد میں تقویٰ وطہارت کومغز کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح انسانی جسم لاکھ خوب صورت ہوجائے،اورہربیماری اور نقص سے پاک و صاف بھی رہے، لیکن اُس کے اندر مغز نہیں تو انسانی جسم کی ساری خوب صورتی اور ساری تندرستی بیکار ہے، اسی طرح ہم ایک سے ایک جانور کی قربانی پیش کریں، ہزاروں کیلو میٹر کی دوری طے کریں اورحج کریں، نیزحج اور قربانی کے لیے لاکھوں لاکھ کےاخرجات برداشت کریںمگر ہمارا مقصد رضائے الٰہی حاصل کرنا نہیں،بلکہ اس کی جگہ نام ونمود اور شہرت و خیر خواہی پانا ہوتو ہمارا قربانی کرنا بھی بیکار ہےاورہمارا حج پر جانا بھی لغو ہے۔
اس میں دورائے نہیں کہ ایسی صورت میں بھی فریضۂ حج اور قربانی کا ذمہ ساقط ہوجائےگا لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ تقویٰ وطہارت کا حصول نہیں ہوپائےگا جوحج اور قربانی دونوںکی روح ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کا گوشت اور قربانی کا خون ہرگز نہیںپہنچتا ہے،البتہ! تم لوگوں کاتقویٰ (اخلاص) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ضرور پہنچتا ہے۔‘‘(حج:۳۷)
محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’ جس نے اللہ کی رضاکے لیے حج کیا اوربدکلامی اور فسق و فجور سے اجتناب کیاتوگویاوہ ایسا لوٹاکہ وہ اسی دن اُس کی ماں نے اس جنم دیا ۔‘‘( صحیح بخاری،حدیث:۱۸۱۹)(یعنی اللہ کے لیےحج کرنے والا تمام ترگناہوں سے پاک ہوجاتاہے۔)
خلاصۂ کلام یہ کہ اگرہم سال بہ سال حج اداکریں، قربانی کریں، اور بُرائیوں میں ملوث بھی رہیں تو گویاہماراحج اور ہماری قربانی دونوںتقویٰ سے خالی ہیں اوربارگاہِ ربانی میں قبولیت سے محروم بھی۔ اس طرح ہم تقویٰ وطہارت کے دواہم ذرائع پانے کے باوجود نقصان میں ہیں ،اور یہ نقصان ہمارے لیے کسی بھی طرح مناسب نہیں، نہ دینی اعتبار سے اور نہ دنیوی لحاظ سے۔(ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد)
ےےے

 

Comments are closed.