Baseerat Online News Portal

لڑکی کو رشتہ کے انتخاب کا حق اورشادی کے بعدمیکہ سے اس کا تعلق!

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں ایک اہم ترین نعمت اولاد ہے، اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں، اگر بچوں کی پیدائش کے وقت ان کی جسمانی کیفیت اور قُویٰ کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے ان کی پرورش کوئی آسان بات نہیں ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے دل میں ان کے لئے محبت کا اتھاہ خزانہ رکھ دیا ہے، وہ خوبصورت ہو یا بد صورت ، خوش اخلاق ہو یا بداخلاق، یہاں تک کہ والدین کا فرمانبردار ہو یا نافرمان ، ماں باپ ان سے محبت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، یہی محبت ان کی پرورش وپرداخت کا ذریعہ بنتی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے کہ جو زیادہ کمزور ہوتا ہے، اس کی طرف والدین کی توجہ بڑھ جاتی ہے، وہ صحت مند کے مقابلہ بیمار اور جوانی کی دہلیز پر پہنچی ہوئی اولاد کے مقابلہ کم عمر، کم سِن اور کم شعور بچوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اسی اصول پر بیٹوں کے مقابلہ بیٹیوں کے لئے بعض پہلوؤں سے ان کی فکر بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔
اولاد کی فطرت میں بھی یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ ماں باپ کے جتنے زیادہ محتاج ہوتے ہیں، اتنے ہی زیادہ اپنے والدین سے لگے چمٹے رہتے ہیں، شیر خوار بچہ غذا کھانے والے بچوں کے مقابلہ اور غذا لینے والے بچوں کے مقابلہ اور بڑے لڑکے اور لڑکیاں نسبتاََ والدین کی دوری کو گوارا کر لیتے ہیں، یہی حال لڑکوں اور لڑکیوں کا ہے، لڑکوں پر والدین کی دوری اتنی شاق نہیں گزرتی، جتنی لڑکیوں پر ؛ اسی لئے عام طور پر لڑکیوں میں اپنے ماں باپ سے تعلق، ان کی خدمت کا جذبہ اور ان کے لئے ایثار ومحبت کسی قدر زیادہ ہوتی ہے، اور شادی کے بعد تو اس سلسلہ میں کافی فرق آجاتا ہے، بیٹوں کی توجہ بیوی اور بچوں کی طرف بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات والدین کی طرف کم ہو جاتی ہے، بیٹی اپنی سسرال میں اگرچہ بے بس ہوتی ہے؛ لیکن والدین کی محبت اس کو ہمیشہ تڑپاتی اور بے قرار رکھتی ہے؛ اور وہ خود بھی اپنی مجبوری اور بے کسی کی وجہ سے ماں باپ کی زیادہ محبت اورتوجہ کی محتاج ہوتی ہیں؛ اسی لئے اسلام نے بہ مقابلہ بیٹوں کے بیٹیوں کی محبت کے ساتھ پرورش اور ان کے ساتھ حُسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے؛ بلکہ جو شخص محبت کے ساتھ اپنی بیٹی کی پرورش کرے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح نہیں دے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جنت میں آپ کی رفاقت کی خوشخبری دی ہے۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۱۴۶)
مگر جب سماج میں بگار آتا ہے تو عورتوں کے ساتھ خود اپنوں کی طرف سے بڑی زیادتی ہوتی ہے، یہ صورت حال آج بھی ہے اور پہلے بھی رہی ہے ، خود ہمارے ملک میں برادران وطن کا تصور تھا کہ عورت اپنی اصل کے اعتبار سے مرد کی ملکیت ہے، شادی سے پہلے وہ باپ کی ملکیت میں ہے اور باپ کو اختیار ہے کہ وہ جہاں اور جس سے چاہے اپنی بیٹی کی شادی کر دے، اور شادی کے بعد وہ شوہر کی ملکیت ہے؛ اسی لئے ان کے یہاں شادی کو’’ کنیا دان ‘‘کہا گیا ، وہ باپ اور شوہر کی ملکیت سے اپنی مرضی سے آزاد نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ ان کے یہاں طلاق کا تصور نہیں تھا، یہاں تک کہ ’’ ستی ‘‘ کی رسم قائم ہوئی، اسلام نے عورتوں کو عزت کا مقام دیا، ان کو قریب قریب مردوں کے برابر حقوق دئیے، والدین پر نہ صرف ان کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری رکھی؛ بلکہ مختلف مواقع پر فطری حالات کی رعایت کرتے ہوئے لڑکیوں کا زیادہ خیال رکھا۔
مگر افسوس کہ آج مسلم معاشرہ میں بھی لڑکیوں کے ساتھ بڑی ظلم وزیادتی ہوتی ہے، ان میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں، جن کا اثرلڑکی کی پوری زندگی پر پڑتا ہے، ایک: رشتۂ نکاح میں لڑکیوں کی رضامندی اور خوشنودی کا لحاظ نہ کرنا، شرعاََ جیسے لڑکے کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا، اسی طرح لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا؛ بلکہ لڑکوں سے بڑھ کر لڑکیوں کی رضامندی کا لحاظ کرنا ضروری ہے، اگر رشتہ میں موافقت نہیں ہوئی تو لڑکا تو طلاق دے کر اپنا دامن چھڑا سکتا ہے، وہ جسمانی اعتبار سے بھی طاقتور اور کسب معاش کی جدوجہد کا اہل ہوتا ہے؛ لیکن لڑکی کے لئے شوہر سے علاحدگی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا، وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہوتی ہے اور حفاظتی ضرورت نیز فطری عوارض کی وجہ سے کسب معاش کے میدان میں بھی مرد سے پیچھے ہوتی ہے؛ اس لئے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ رشتہ کے انتخاب میں اس کی پسند کا خیال رکھا جائے۔
ایک لڑکی کا نکاح اس کے والد نے اس کی پسند کے خلاف کر دیا ، انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو رد فرمایا۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۲۱۰۱)اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ باپ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند بیٹی پر تھوپ دے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر والد نے لڑکی کی ناپسندیدگی کے باوجود اس کا رشتہ طئے کر دیا تو لڑکی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے، نہ یہ بے حیائی ہے اور نہ بغاوت اور نہ والد کی عدول حکمی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رشتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طئے فرمایا تو حضرت فاطمہؓ کی مرضی معلوم کی، پھر یہ قدم اٹھایا؛ لیکن آج کل مزاج، معاشی صورت حال، معیار زندگی اور معیار تعلیم کا فرق کئے اور لڑکیوں سے ان کی مرضی معلوم کئے بغیر ان کا رشتہ طئے کر دیا جاتا ہے، یہ ظلم اور ایک غیر شرعی عمل ہے۔
راقم الحروف کو بعض احباب کی خواہش پر دہلی میں ایک نکاح پڑھانے کا موقع ملا، عاقدین کا تعلق غالباََ میوات سے تھا، میں نے خطبہ دینے سے پہلے لڑکی کے والد کو قریب بلایا اور ان سے دریافت کیا :کیا آپ نے نکاح کی اجازت لے لی ہے؟ کہنے لگے: کیا مطلب؟ میں نے کہا: لڑکی سے اس رشتہ کے بارے میں پوچھ لیا ہے؟ کہنے لگے: میں اس کا باپ ہوں، میں اس سے پوچھوں گا اور اجازت لوں گا؟؟ ظاہر ہے اس طرح کی بات اس وقت پیش آتی ہے جب سماج میں اس طرح کا مزاج بنا ہوا ہو؛ اس لئے آج بھی دیہات اور قریہ جات میں بسنے والے بہت سے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے لوگ لڑکی سے نکاح کی پسند معلوم کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔
اسی طرح اگر کسی لڑکی نے کسی خاص لڑکے سے نکاح کا رجحان ظاہر کر دیا تو اس کو بہت ہی بُرا سمجھا جاتا ہے، گھر میں قیامت آجاتی ہے، ہر آدمی اس لڑکی کو لعنت ملامت کرتا ہے اور ہر طرف سے اس پر طعن وتشنیع کے تیر برسنے لگتے ہیں، یہ غیر اسلامی اور جاہلانہ طرز فکر ہے، بعض خواتین نے کسی خاص مرد سے نکاح کا ارادہ کیا؛ مگر ان کے اولیاء رکاوٹ بننے لگے تو قرآن نے اس طرز عمل کو منع فرمایااور اولیاء کو صاف طور پر کہا گیا کہ انہیں اس میں رُکاوٹ بننے کا کوئی حق نہیںہے: فلا تعضلوھن أن ینکحن أزواجھن (بقرہ: ۲۳۲)متعدد صحابیات کے واقعات موجود ہیں کہ انھوں نے اپنی پسند سے اپنا نکاح کیا، خود ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کے نکاح میں ام المؤمنینؓ ہی نے پیش قدمی فرمائی تھی؛ اس لئے یہ ضرور ہے کہ نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان کو اپنے رشتہ کے سلسلہ میں اولیاء کے مشورہ کو خصوصی اہمیت دینی چاہئے؛ کیوں کہ عموماََ ان کا مشورہ محبت اور تجربہ پر مبنی ہوتا ہے، اور یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جو رشتے اولیاء کو اعتماد میں لئے بغیر کئے جاتے ہیں، اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں، ان میں عقل کے بجائے جذبات اور مصلحت کے بجائے خواہشات کا زور ہوتا ہے؛ لیکن بہر حال یہ بات ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ شریعت نے بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کو فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے اور ان کے اولیاء کو صرف مشورہ دینے کا۔
جب کوئی رشتہ لڑکے یا لڑکی پر زبردستی تھوپ دیا جاتا ہے تو وہ اول دن سے ہی تلخیوں اور کڑواہٹوں کا شکار ہوتا ہے، اور نکاح کا جو اصل مقصد ہے: پُر سکون زندگی کا حصول : لتسکنوا الیھا (روم: ۲۱)وہی فوت ہو جاتا ہے، اس لئے اس سے بچنے کی ضرورت ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ تعلیم میں لڑکیاں لڑکوں پر سبقت حاصل کر رہی ہیں، اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر کامیابی کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کر رہی ہیں، تو ہر گز یہ رویہ درست نہیں ہو سکتا کہ ان کو اپنی ذات کے معاملہ میں فیصلہ کرنے سے محروم کر دیا جائے۔
دوسرا اہم مسئلہ جو بے حد سنگین ہے اور جس کی وجہ سے بعض اوقات خود کشی جیسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں، وہ ہے شادی کے بعد لڑکی کا اپنے میکہ سے تعلق ، یہ بات معاشرہ میں زبان زد ہو گئی ہے کہ جس گھر میں’’ ڈولی‘‘ جائے اس گھر سے ’’ڈولا ‘‘نکلے، یعنی لڑکی جب اپنے سسرال جائے تو وہ یہ سمجھ کر جائے کہ اسے پوری زندگی وہیں گزارنا ہے، یہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ لڑکیوں کو تیار کیا جائے کہ زندگی میں سردوگرم حالات آتے ہیں ، ان کو برداشت کر کے رشتہ نکاح کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس پس منظر میں لڑکیوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب سسرال تمہارا اپنا گھر ہے اور میکہ پرایا؛ لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ چاہے شوہر سے موافقت ہو یا نہ ہو، چاہے شوہر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہو ؛ لیکن بہر حال رہنا اسی کے ساتھ ہے، جب ماں باپ اس طرح کی بات کہتے ہیں تو یہی بات لڑکی کے بھائیوں کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے، اور بیٹی کا اپنے میکہ میں آنا بھاوجوں کے دل میں تو بہت ہی کھٹکنے لگتا ہے، وہ ان کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کرتی ہیں، جو کسی بِن بلائے مہمان کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے اپنے سسرال میں اس کا گزر نہ ہو سکے تو اس غریب پر قیامت آجاتی ہے؛ حالاں کہ ایسا صرف لڑکی کی بدمزاجی سے نہیں ہوتا ہے ، لڑکے اور ان کے گھر والوں کی بداخلاقی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ اس کو سسرال سے نکال دیا جاتا ہے، کبھی تو بچوں کا بوجھ بھی اس کے کاندھوں پر رکھ دیا جاتا ہے، اور کبھی حد درجہ شقاوت کا اظہار کرتے ہوئے بچے بھی اس کی گود سے چھین لئے جاتے ہیں، اگر ان حالات میں میکہ بھی اس کے لئے پرایا گھر بن جائے تو وہ اپنے آپ کو بالکل بے سہارا محسوس کرتی ہے، یہ ایک بے حد تکلیف دہ صورت حال ہے جو سماج میں پیش آتی ہے، اگر شوہر نے دوسری شادی کر لی تو شادی تو وہ شریعت کا نام لے کر کرتا ہے؛ لیکن دوسری شادی کے بعد اسلام میں عدل وانصاف کے جو احکام دیے گئے ہیں، ان کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے، اگر شوہر نے یہ رویہ اختیار کیا، یا طلاق دے دی، یا خدا نخواستہ اس کا انتقال ہو گیا تب بھی بعض اوقات عورتیں اسی صورت حال سے دو چار ہوتی ہیں۔
اگر چہ اس ظلم وزیادتی کے مختلف عوامل ہیں؛ لیکن ایک اہم سبب یہ تصور ہے کہ شادی ہو جانے کے بعد لڑکی کا اپنے میکہ میںکوئی حق نہیں ہے، وہ اس کے لئے پرایا گھر ہے، ایسی بے سہارا لڑکیاں جب کوئی جائے پناہ نہیںپاتیں، نہ والدین ان کو قبول کرنے کو تیار ہیں نہ سسرال والے، تو ان پر مختلف قسم کا رد عمل ہوتا ہے، بعض لڑکیاں ڈپریشن کا شکار ہو کر دماغی عارضہ مین مبتلا ہو جاتی ہیں، بعض خود کشی کر لیتی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو چکی ہے، لڑکیوں کی خود کشی کے بہت سے واقعات اس طرح پیش آرہے ہیں، بعض اوقات کوئی راستہ نہ پا کر وہ گھر سے باہر نکل جاتی ہیں، اور مستقل طور پر غلط راستے پر پڑ جاتی ہیں اور بعض اوقات کسی غیر مسلم کے ساتھ اپنی شادی رچا لیتی ہیں، لوگ ایسی لڑکیوں کو لعنت ملامت کرتے ہیں؛ لیکن ان واقعات کے پیچھے جو حالات کار فرما ہیں، ان پر غور نہیں کرتے، اور جن لوگوں نے اس کا ارتکاب کیا ہے، ان کو تنبیہ نہیں کی جاتی۔
بنیادی طورپر یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ لڑکی کا نکاح کے بعد بھی اپنے میکہ اور والدین سے تعلق باقی رہتا ہے اور جیسے والدین کی اَملاک میں بیٹے کا حق ہوتا ہے، بیٹیوں کا بھی حق ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحات میں تین باتوں کی خاص طور پر نصیحت فرمائی، ایک: بیوہ عورت کے ساتھ حسن سلوک، دوسرے: یتیم بچوں کے ساتھ، تیسرے: نماز کا اہتمام، (شعب الایمان، عن انس حدیث نمبر: ۱۰۵۴۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے کسی یتیم یا بیوہ کی کفالت کی۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں جگہ دیں گے، اور جنت میں داخل فرما دیں گے، (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۹۲۹۲) اگرچہ یہ ارشاد بیوہ اور یتیم کے بارے میں ہے؛ لیکن جس عورت کا شوہر اسے چھوڑ دے یا گھر سے بے گھر کر دے، اور اس سے پیدا ہونے والے بچوں سے آنکھیں موند لے وہ عورت بھی اپنی صورت حال کے اعتبار سے بیوہ ہی کے درجہ میں ہوتی ہے، اور ان بچوں کو بھی یتیموں کی سی ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے؛ اس لئے اُن کے ساتھ حُسن سلوک پر وہی اجر حاصل ہوگا، جس کا وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ حُسن سلوک پر کیا ہے، اور پھر بیٹی بہن کے ساتھ حُسن سلوک میں تو صِلہ رحمی کا پہلو بھی ہے، جس کی قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی بہت تاکید فرمائی گئی ہے۔
باپ کے مال میں مقدار کے فرق کے ساتھ بیٹی کا بھی اسی طرح حق ہوتا ہے، جیسے بیٹوں کا ہوتا ہے؛ اسی لئے اس کے ترکہ سے جو رشتہ دار کسی صورت محروم نہیں ہو سکتے، وہ چھ ہیں، ان میں بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ۵؍ ۱۹۴) اگرچہ کہ ترکہ کی تقسیم میں ترکہ کے مطالبہ کا حق مورث کی موت کے بعد حاصل ہوتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کو محروم کرنے کی تدبیر کرے ، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، تو وہ شرعاََ گناہ گار ہوگا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے حصہ سے اس کو محروم کر دیں گے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۷۰۳) اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی اپنی ضروریات سے بچی ہوئی دولت میں ایک حد تک اس کے ورثاء کا حق ہوتا ہے، جس میں بیٹی بھی شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر باپ کوئی ایسا قدم اٹھائے جس کی وجہ سے وہ حق سے محروم ہو جائے تو باپ گناہ گار ہوتا ہے۔
فقہاء نے شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ شادی تک لڑکیوں کا نفقہ باپ پر واجب ہے ،اور چاہے لڑکی کسب معاش پر قادر ہو، اگر باپ کے اندر نفقہ ادا کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ بیٹی سے مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ خود کمائے، اگر خدانخواستہ وہ مطلّقہ ہو جائے اور شوہر چھوڑ دے تو جیسے پہلے اس پر اس لڑکی کی پرورش کی ذمہ داری تھی، اب دوبارہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی: واذا طلقت وانقضت عدتھا عادت نفقھا علی الأب (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰)
اس لئے یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکی کا اپنے خاندان اور اپنے ماں باپ سے تعلق ختم ہو گیا، اب وہ اس گھر کے لئے بے گانہ اور پرائی ہوگئی؛ بلکہ جتنا حق اس میں بیٹوں کا ہے، مقدار کے فرق کے ساتھ اسی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے، نہ ماں باپ اس کو مشکل حالات میں میکہ آنے اور یہاں بسنے سے روک سکتے ہیں، نہ بھائی اور بھاوجیں ان کو ان کے حق سے محروم کر سکتے ہیں، اور مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ظلم وزیادتی سہتے ہوئے سسرال میں ہی اپنا وقت گزاریں!!!

Comments are closed.