Baseerat Online News Portal

مسئلہ کشمیر کاحل :پندرہ نکاتی فارمولہ

مفتی منظور ضیائی
نوٹ:بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالرمفتی منظور ضیائی ، صدر آل انڈیا علم وہنر فاؤنڈیشن،صدر انٹرنیشنل صوفی کارواں ،چیئر مین مدرسہ فیضان رضا،مینجینگ ٹرسٹی جامعیت الظہرا نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک پندرہ نکاتی فارمولہ مرتب کرکے ملک کے ارباب اقتدار کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے ۔ان تجاویز کا متن ذیل میں دیا جاتا ہے ۔
مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تجاویز ،سفارشات ،گذراشات
جنت عرضی کے نام سے سارے عالم میں مشہور تاریخی،تہذیبی ،ثقافتی جغرافیائی،عسکری کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل سرزمین کشمیر ایک عرصہ سے مشکلالات ،مسائل ومصائب اور بحران کا شکار ہے ،ایک درد مند اور اساس ہندوستانی کی حیثیت سے ہم نے اپنی طرف سے اور اپنی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے تمام امن وانصاف پسند ہندوستانیوں کی جانب سے کچھ تجاویز ،گذارشات،سفارشات اور نکات مرتب کئے ہیں جو حکومت ہند کی خدمت میں پیش ہے ۔
۱۔جمو کشمیر مآپاکستان مقبوضہ کشمیر وگلگٹ وبالغستان ہندوستان کا ناقابل تنسیخ جزو(آٹوٹ انگ ہے)اسی طرح اس خطہ کے عوام ہندوستانی شہری ہیں اور اُن کو وہ تمام حقوق واختیارات حاصل ہے جو ایک ہندوستانی شہری کے ہیں فی الحال ہماری توجوہات کا مرکز کشمیر کی سر سبزوشاداب حسین وجمیل وادی ہیں۔سب سے زیادہ بحران کا شکار بھی یہی خطہ ہے مثلاً سوریش،بد امنی اور انتہا پسندی کے نتیجے میں کچھ اپنوں کی نادانیوں اور اغیار کی سازشوں کے نتیجے میں اس خطے کے عوام کی ایک طبقے کے اندر احساس بے گانگی (SENSE OF ALIELATION)پیدا ہو گیا ہے ۔اس کے علاوہ یہاں غربت ،ناخواندگی اور معاشی عدم مساوات کا دوردورہ ہے اس صورت حال کو فوراً ختم کیا جانا ضروری ہے ۔
۲۔سب سے زیادہ ضروری ہے کشمیریوں کو باقی ہندوستان سے اور پورے ہندوستان کو کشمیریوں سے جذباتی ونفسایاتی ،سیاسی،سماجی ومعاشی سطح پر مربوط کرنا ،اس کیلئے ضروری ہے کہ کشمیر میں ایسے پروگرام منعقد کئے جائے جن کے ذریعے کشمیری عوام کو عام ہندوستانیوں سے جڑا جائے اور اُن کے ذہن میں موجود شکوک وشبہات کو دور کیا جائے۔اسی طرح دارلحکومت دہلی سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلسہ شمپوزیم اور دیگر پروگرام منعقد کیا جائے اور ان شہروں میں مقیم کشمیری طلبا بزنس مین اور مختلف قسم کے روزگار سے وابستہ کشمیریوں کو تحفظ کا احساس دلایا جائے اور اُن کے اوپر واضح کر دیا جائے کہ آپ ہمارے اپنے ہیں ۔
۳۔مسلسل شوریش اور بد امنی کی وجہ سے یہاں کا تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ وادی کشمیر میں چھوٹے بڑے شہروں سے لیکرقصبے اور گاؤں تک تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا جائے اور وادی کے اندر اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی ،میڈیکل انجینئرنگ مینجمنٹ اور تکنیکل تعلیم کے ادارے قائم کئے جائیں۔کشمیری طلبا کو ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی سہولت فراہم کی جائیں ۔ظاہر ہے اس میں خطیر سرمایہ کی ضرورت ہوگی اس کیلئے ریاستی حکومت ،مرکزی حکومت مختلف این جی اوس اور ہماری تنظیمیں تعاون کر سکتی ہیں ۔
۴۔کشمیر میں ہیلتھ کئیر کا سسٹم انتہائی ناقص اور نکارہ ہو چکا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہاں پر اعلیٰ معیار کے میڈیکل کالج ،یونانی کالج اور متبادل طریقہ علاج کے ادارے قائٹ کئے جائے ۔وادی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسپتالوں اور دواخانوں کا جال بچھا دیا جائے ۔ملک میں نجی سطح پر چلائے جانے والے پیچیدہ اور نا امراض علاج کیلئے قائم اسپتال کے ذمہ داروں کو اس بات کیلئے آمادہ کیا جائے کہ وہ وادی میں بھی اپنی یونٹ قائم کریں تاکہ سنگین امراض میں مبتلا کشمیریوں کو دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے ۔
۵۔شوریش کی وجہ سے قدرتی وسائل وذرائع سے مالا مال خطے کی معاشی حالت بہت خراب ہو چکی ہے ۔معاشی بحران بہت سے مسائل اور مشکلات کو جنم دیتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر میں پیدا ہونے والے پھل یہاں کا زعفران ،شہد اور دیگر جڑی بوٹیوں کی مناسب قیمت پر کشمیریوں سے خریداری ہوں اور پورے ملک میں اس کو فروخت کرنے کا ایک جامعہ نظام مرتب کیا جائے تاکہ عام کشمیری کی معاشی حالت بہتر ہوسکے ۔
۶۔کشمیر میں دستکاری کی ایک عظیم الشان روایت موجود ہے ۔کشمیر کے مقامی تہذیبی و ثقافتی پروگرام مقامی لوگوں میں بے حد مقبول ہے ۔کشمیر میں فنونِ لطیفہ کی انتہائی توانا روایت موجود ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دستکاروں اور فنکاروں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے اور ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کشمیر میلے منعقد کئے جائے جس سے کشمیریوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی اور باقی ہندوستان کو کشمیریوں سے جذباتی طور پر ملنے کا موقع ملے گا ۔اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہوگا ۔
۷۔کشمیر کی تعمیر و ترقی کیلئے اعلیٰ معیار کا انفرا اسٹرکچر ،بہترین شہری سہولیات بالخصوص اآمدورفت کے کم خرچ اور بہترین ذرائع کی اشد ضرورت ہے ۔پہاڑی علاقوں کے حساب سے معیاری سڑکیں اور آمدورفت کے ساتھ ساتھ نقل وحمل کے نظام کو بھی بہتر بنانا ضروری ہے ۔
۸۔کشمیر بزرگان ِ دین ،اولیا اللہ صوفی سنتوں اور رشی ومنیوں کی سر زمین ہیں عوام پر ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے ان بزرگوں کی تعلیم بلا تفریق تمام انسانوں کے ساتھ محبت ہے وادی میں امن وامان کے قیام کیلئے صوفیوں اور سادھوں سنتوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ہمارا صوفی کارواں اس ضمن میں اپنی ذمہ اریاں پوری کرنے تیار ہیں
۹۔مسئلہ کشمیر کے پیچیدہ ہونے کی ایک وجہ یہاں کی موروثی،کرپٹ اور نا اہل سیاسی قیادت اور مذہب کو اپنے مخلوط ومذہب کو اپنے مقرور ومذوم عزائم کی تکمیل کرنے والی تنظیموں سے نجات دلائی جائے اور اُن کی جگہ صلح دیانت دار اور ہندوستان کی وفادار سیاسی قیادت کو اُبھارا جائے جو کشمیری عوام کا درد سمجھتے ہوں اور اُن کے حل کیلئے مخلص ہوں۔
۱۰۔کشمیر کو مرکزی حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد کی اشد ضرورت ہے ماضی میں کشمیر کی تعمیر و ترقی کیلئے خطیر رقمیں منظور کی گئیں لیکن یہ رقم عوام کی فلاح وبہبود اور عوام کی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے چند کرپٹ سیاسی گھرانوں اور نام نہاد ٹھکیداروں کی تجوریوں میں پہنچ گئی اور کشمیری عوام کا مسئلہ جوں کا توں بنا رہا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکز کی جانب سے منظور کی گئی اس رقم کے درست استعمال کیلئے نگرانی (check and blance)کا ایک جامعہ نظام مرتب کیا جائے تاکہ ترقی کے اثرات ،ثمرات اور فوایت نچلی سطح تک پہنچ سکیں ۔
۱۱۔کشمیری عوام پر دو ٹوک انداز میں واضح کر دینا چاہئے کہ دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵ ڈی ماضی کا حصہ بن چکی ہے ۔کشمیر ہندوستان کا ہے اور پورا ہندوستان کشمیریوں کا ہے ۔کشمیریوں کے سامنے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی کشمیر ی ،مذہبی اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو جذباتی سطح پر ہندوستا ن کے ساتھ مربوط کرے اور ایم محب وطن ہندوستانی ہونے پر فخر کرنا سیکھیں یہ کام بہت مشکل اور صبر آزما ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ہم اس عظیم والشان مشن کی تکمیل کیلئے حکومت ہند ،حکومت جمو کشمیر ،ریاستی انتظامیہ اور کشمیری عوام کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہیں ۔
۱۲۔وادیِ کشمیر سے دہشت گردی ،انتہا پسندی اور شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھیکناہے اس کیلئے ہر سطح پرہر ممکن جہدوجہد کرنا ہو گی ۔ہم اس کیلئے حکومت ہند ،ہندوستان کی تمام ایجنسیوں ،ہندوستانی فوج اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں ۔
۱۳۔کشمیر کا مسئلہ کشمیریت ،ہندستانیت اور انسانیت کشمیر کے تمام مسائل کا حل ہے ۔یہ فارمولہ ہندستان کے عظیم مدبیر اور سیاست داں آنجہانی اٹل بہاری واچپائی نے پیش کیا تھا لیکن انسانیت ،کشمیریت اور ہندوستانیت کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ کشمیری پنڈتوں کی باعزت اور با وقار ڈھنگ سے وادی میں واپسی نہ ہو کشمیری پنڈتوں کو ایک مخصوص سیاسی ذہنیت کے تحت وادی سے نکالا گیا تھا عام کشمیری کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر تمام کشمیری پنڈتوں کی باعزت و با وقادر ڈھنگ سے واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔
۱۴۔وادی کشمیر میں ایک بہت بڑا مسئلہ بیواؤں کا ہے یہ وہ بے سہارا خواتین ہیں جن کے شوہر جنگ میں سیکوریٹی فورسیز کے کارروائی میں مارے گئے یا پھر جن کے شوہر غلط عناصر کے ہاتھ لگ کی جنگجویت کے راستے پر چل پڑے اور مارے گئے ۔ایک تعداد اُن خواتین کی بھی ہیں جن کے شوہر سالوں سے لاپتہ ہے جن کو ہاف ویڈو کہا جاتا ہے ۔ان کا مسئلہ بھی حل کیا جانا ہے ۔ہم اس معاملے میں بھی اپنا بھر پور تعاون پیش کرتے ہیں ۔
۱۵۔جو نوجوان کسی سازش کے تحت غلط راستے پر چل نکلے اُن کو راہ راست پر لانے اور اُن کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ایک جامعہ اسکیم مرتب کی جائیے اور اُن تمام لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جنہوں نے معصوم نوجوانوں کو ورغلا کر اُن کے ہاتھوں میں پتھر ،بم اور اسٹین گن پکڑا دی ۔اس ضمن میں بھی ہم ہر طرح کے تعاون کیلئے تیار ہے ۔
فقط
دستخط
منظور ضیائی

Comments are closed.