Baseerat Online News Portal

ملک کی اس سنگین صورت حال میں کرنے کے کچھ کام!

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
اس وقت ہمارے ملک بھارت کی جو سنگین صورت حال بنی ہوئی ہے۔اس نے پوری عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے ۔ پڑوسی ملکوں میں ہمارے تعلق سے ہرممکن بےچینی اوراظطراب ہے۔صورت حال یہ ہےکہ انسانی آبادی میں قیامت خیز منظر ہے۔لوگ بےگانوں اورانجان لوگوں کی طرح اپنے عزیز اقارب کے جنازوں سے دوربھاگ رہے ہیں ۔زندہ انسانوں سے کترارہے ہیں ۔دوگزدوری اورماسک کے نام پر لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے ہیں ۔جسے کسی قیمت پر انسانیت کےتحفظ اور اولاد آدم کے ساتھ انصاف نہیں کہاجاسکتا ۔بیماری کاعلم اللہ کوہے مگر میں آج بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ دنیاکایہ ماحول انسانیت کے خلاف بغاوت پر مبنی ہے ۔انسان ایک دوسرے کےلئےتریاق اوردردکادرماں تو ہوسکتا ہے ،منبع امراض نہیں ہوسکتا ۔ بہرحال اس سنگینی کے نتائج یہ سامنے آرہے ہیں کہ بہت سے گھر ویران ہوگئے ۔نہ جانے کتنی خواتین کے سہاگ لٹ گئے ۔ملک میں ہزاروں بچے اوربچیاں اپنے ماں باپ کے سائے سے محروم ہوگئے ۔کسی نے اپنے باپ کوکھویا توکسی نے اپنے جواں سال بچے کو ۔عالمی پیمانے پر اکیسویں صدی کے انسان نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیاہوگا کہ ایسے ناگفتہ بہ اورہیبت ناک مناظر کا ان کوسامناکرنا پڑے گا ۔ہرطرف خوف ہے، دہشت ہے، بے گانگی ہے ،اپنوں کے بچھڑنے کا غم ہے ۔پوری انسانیت حیران وششدر ہے کہ یہ کیاہورہاہے اورکیوں ہورہاہے ۔معصوم بچوں کے ذہن ودماغ پر اس احساس کادستک ہے کہ اے کائنات کے خالق ومالک ہم معصوموں کاقصورکیاہے؟اس سفاک دنیا اورمطلب پرست بستی جس میں انسان کومارنا ماب لنچننگ کرنا ،عزت لوٹنا ایک فیشن ہے۔ اس میں کون ہماراسہاراہوگا؟ ۔انسانیت کا ہرطبقہ اس بےچارگی سے دوچار ہے ۔اس صورت حال نے نہ جانے کیسی کیسی قیمتی اور قدآور ہستیوں کو اپناہمسفربنالیا ایسالگتاہے پوری زمین انسانیت کے غمخواروں سے خالی ہوجائےگی ۔اے مالک کل اب ہم بحیثت انسان اپنی خطاؤں پر شرمندہ اوراپنی لغزشوں پر شرمسار ہیں معاف فرمادے ۔اور روئے زمین پر اپنی رحمتوں کی بارش برسادے ۔انک علی کل شی قدیر۔
دوستو میں اب آپ سے مخاطب ہوں!
ایک طرف ملک میں انسانوں کی یہ صورت حال ہے،عصبیت،بھی ہے نفرت بھی ۔زندگی تمام شعبوں سے مسلمانوں کو موجودہ ملکی سٹپ نے بے دخل کرہی دیاہے۔نقوی شیعہ اقلیت منسٹرنام کاہے۔کاٹھ کا الو ہے اور دوسری طرف ہم ہیں ۔جواگرچہ سامان زندگی سے محروم اور وسائل دنیوی سے تہی دست ہیں ۔مگر اللہ تعالی نے باوجود اس کے ہمیں انسانیت کے ساتھ خیر خواہی اورہمدری کا مکلف بنایاہے ۔انسانیت کو اس بھنورسے نکالنے میں اپناکردار اداکرناہے ۔ہم وسائل کا رونا روکر عنداللہ جواب دہی سے بچ نہیں سکتے ۔ اگر ہم خوف کھاکر بیٹھ گئے تو معمار انسانیت ﷺکی آخری پونچی اور جماعت ہونے کا حق کھودیں گے ۔اس لئے ہمیں انسانیت کی خدمت کا علم اپنے ہاتھوں میں لیناہی ہوگا ۔
کل منتخبات أحادیث نبویہ کا مطالعہ کررہاتھا تو ایک مشہور حدیث نظرسے گزری ”ألدال علی الخیر کفاعلہ واللہ یحب اغانة اللھفان“(بخاری حدیث نمبر٦٠٢٨ مکتبہ شاملہ ۔مسلم وترمذی)(خیر کی رہنمائی کرنے والابھی کار خیرانجام دینے والے کی مانند ہے اوراللہ تعالی مظلوموں اوربےسہاراوبےکسوں کی مدد کرنے والوں سے محبت فرماتاہے ۔)
اس کی روشنی میں یہ بات ذہن میں آئی کہ بحیثیت امت خیر ہماری ذمہ داری ہے ۔میں بطور شکایت یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ اس صورت حال میں مسلمانوں کو اور بطورخاص مسلم ممالک کو اوردانشوران امت کو آگے بڑھ کرجورہنمائی اورخدمت کاکردار ادا کرناچاہئے اس سے محروم رہے اورہنوز وہی نامعقول جمود دیکھنے کومل رہاہے ۔ہردن ہماری طرف سے کوئی نہ کوئی مایوس کن اورحوصلہ شکن خبر اور پوسٹ آہی جاتی ہے ۔ایسالگتاہے ہم دنیامیں صرف تماشہ دیکھنے کے لئے پیداہوئے ہیں ۔ہماری اپنی کوئی نہ فکر ہے ۔نہ آئڈیولوجی ہے نہ فکر وخیال میں قائدانہ اورداعیانہ بالیدگی ہے۔بس ہرمعاملہ میں دوسرے کے دست نگر ہیں ۔اورمکمل ہم نےہتھیار ڈال دیا ہے۔
پہلے توہمیں اس بےبسی کی کیفیت سے خود کونکالناہوگا اوریہ احساس اپنے اندر پیداکرناہوگا کہ ہم دنیاکودینے کے لئے پیداہوئے ہیں لینے کے لئے نہیں۔
دوسری طرف گزشتہ کچھ دہائیوں سے عالمی پیمانے پر اورہمارے ملک میں ہمارے خلاف جو نفرت کاماحول پیداکیاگیاہے اس کو بدلنے کا یہ بہترین موقعہ اللہ تعالی نے ہمیں عطاکیاہے اس کو کیسے استعمال میں لانا ہے اورنفرت کے حالات کو محبت اورہمدردی میں کس طرح تبدیل کرناہے یہ ہمارے اوپر ہے ۔
میں سمجھتاہوں کہ اس ناگفتہ اورسنگین صورت حال میں انسانیت کی خدمت کے ذریعہ اس کو یقینی بنایاجاسکتاہے ۔شہری سطح پربھی اور دیہی سطح پربھی۔
ایک اہم کام پنچایتی سطح پر نفرت کے ماحول کو بدلنے کے لئے یہ کرنے کاہے کہ جتنے بھی گاؤں کی سطح کے مکھیاہیں ۔اورمسلمان ہیں ان کوچاہئے کہ فوری طور پر اس افراتفری کے ماحول میں اپنے گاؤں کے غیر مسلم محلوں میں جاکر غریبوں کو دلاسا دیں اوران سے کہیں کہ ان حالات میں ڈرنے اورگھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اورہماراگھر آپ کے لئے 24گھنٹہ کھلاہواہے ۔اگر ہم اور ہمارے بچے کھائیں گے تو آپ اورآپ کے بچے بھی کھائیں ۔پہلے ہم بھوکھے رہیں گے تب آپ رہیں گے ۔ اورایسانہیں ہوگاکہ ہم اورہمارے بچے کھائیں اورآپ بھوکھے رہیں اور عملابھی مسلمانوں کوچاہئے کہ رمضان کے اس مبارک مہینے میں اس کامظاہرہ کریں ۔ان شااللہ کم ازکم گاؤں کی سطح پر اس سے نفرت کاماحول بھی ختم ہوگا اور سنگھیوں کے پھیلائےزہر میں بھی کمی آئے گی خاص طورسے بہار میں اس پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے ۔وماتوفیقی الاباللہ

Comments are closed.