Baseerat Online News Portal

پردہ :عقل وفطرت کی روشنی میں(۱)

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
اسلام کے معاشرتی قوانین پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں، ان میں ایک مشہور اعتراض پردہ سے متعلق ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو پردہ کا حکم دے کر ان کے ساتھ ظلم وناانصافی کی گئی ہے اور اس سے ان کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کی جاتی ہے، اس اعتراض کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے چند نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
۱۔ کیا پردہ کا حکم صرف عورتوں کے لئے ہے؟
۲۔ کیا پردہ کا مقصد عورتوں کی اہانت وتذلیل ہے یا اس سے ان کی حفاظت مقصود ہے؟
۳۔ کیا پردہ عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور زندگی کی دوڑ میں ان کے لئے مواقع کو کم کر دیتا ہے؟
پردہ کا حکم مردوں کے لئے بھی!
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اول تو پردہ کا حکم صرف عورت کے لئے نہیں ہے، دوسرے: تمام عورتوں کو پردہ کے سلسلے میں مساوی احکام نہیں دئیے گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پردہ کا حکم مردوں کے لئے بھی ہے، مردوں کے حق میں لازمی حکم یہ ہے کہ ناف سے لے کر ٹخنہ تک کا حصہ چھپایا جائے؛ چنانچہ فقہاء نے بھی اس کو واجب قرار دیا ہے:
ستر العورۃ واجب علی کل حال (المبسوط للسرخسی: ۲؍۵۹)
حصۂ ستر کا چھپانا واجب ہے۔
عورۃ الرجل ما بین سرتہ الیٰ رکبتیہ (المبسوط للسرخسی: ۱۰؍۱۴۶)مرد کا حصۂ ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے۔
یہ تو مردوں کے لئے ستر کا لازمی حکم ہے؛ لیکن مستحب طریقہ یہ ہے کہ گردن سے کمر تک کا حصہ بھی چھپا ہوا ہو؛ اس لئے کہ اس طرح نماز پڑھنے کو منع کیا گیا ہے کہ انسان کے بازو کھلے ہوئے ہوں؛ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے دو کپڑوں کا استعمال فرماتے تھے، ایک: تہبند جو کمر کے نیچے کے حصہ کو ڈھانک لے، دوسرے: وہ کپڑا جس سے اس سے اوپر کا حصہ چُھپ جائے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تہبند میں نماز پڑھی تو دیکھنے والے صحابی کے لئے یہ بات حیرت کا باعث ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استعجاب دور کرنے کے لئے فرمایا :کیا میری امت کے تمام لوگوں کے پاس دو چادریں ہوں گی؟(مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۶۲۸۷)— مقصد یہ تھا کہ امت میں ایسے غریب افراد بھی ہو سکتے ہیں، جن کو دو چادریں میسر نہ ہوں، ان کے پاس ایک ہی چادر ہو، ایسی صورت میں وہ نماز سے محروم نہ ہو جائیں، اس سے معلوم ہوا کہ عام طور پر کمر سے نیچے اور کمر سے اوپر دونوں حصے چھپائے جاتے تھے، عربوں کا جبہ اسی روایت کا تسلسل ہے، جس کو مرد استعمال کرتے ہیں، اور جو گردن سے پاؤں تک پورے جسم پر ہوتا ہے، اسی طرح مردوں کے لباس میں کسی ایسی چیز کو بھی شامل رکھا گیا ہے، جو سر کو چھپانے والی ہو، جیسے: ٹوپی یا عمامہ، مگر یہ استحباب کے درجہ میں ہے، ضروری نہیں ہے۔(عمدۃ القاری:۲؍۳۸۲)
عورتوں کے لئے پردہ کا علاحدہ حکم ہے اور اس میں پردہ کی زیادہ رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
الف: مَحرم کے لئے چہرہ، ہاتھ، بازو، گردن سے متصل حصہ، پنڈلی اور پیٹھ ستر میں شامل نہیں ہے، جسم کے باقی حصہ کا ستر ضروری ہے، (تکملہ البحر الرائق:۸؍۲۲۱)اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محرم کے سامنے خواتین ان تمام اعضاء کو کھول کر رکھیں؛ بلکہ منشاء یہ ہے کہ اصل میں تو چہرہ اور ہاتھ محرم کے سامنے کھولنا چاہئے؛ لیکن اگر یہ اعضاء بھی کھل جائیں یا معمولی ضرورت کی بناء پر کھولے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ (المبسوط للسرخسی: ۱۰؍۱۳۹)
ب: ایسے غیر محرم جن سے بار بار سامنا ہونے کی نوبت آتی ہو، جیسے ہندوستانی معاشرہ میں ایک ہی گھر میں دو بھائیوں یا دو بہنوں کی اولاد کا قیام ہوتا ہے اور چچا زاد، خالہ زاد، ماموں زاد بھائی بہنوں میں مکمل پردہ دشوار ہوتا ہے، تو اس صورت میں چہرہ اور ہتھیلی کے بقدر ہاتھ نیز پاؤں کھلے رکھنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع سے آپ کی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی بنت ابی طالبؓ آپ کے سامنے ہوئی ہیں، (حاشیہ علی مسند احمد:۴۴؍۴۵۵)، یا حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ آپ کے سامنے ہوتی رہی ہیں (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۸۱۸) ؛ مگر یہ حکم اسی وقت ہے جب کہ ان کے ایک دوسرے کے سامنے آنے میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، فتنہ سے مراد ہے: گناہ میں مبتلا ہو جانے کا شدید اندیشہ(رد المحتار: ۱؍۴۰۶) ؛ چنانچہ فقہاء حنفیہ نے لکھا ہے:
خوف الفتنۃ أي الضرر بھا أو الشھورۃ والمعنیٰ تمنع من الکشف لخوف أن یری الرجال وجھھا فتقع الفتنۃ (رد المحتار: ۱؍۴۰۶)
ج: جو عورتیں عمر دراز ہوں، یعنی ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہو چکی ہو، پردہ کے معاملہ میں ان کا حکم مردوں کے لئے محرم عورتوں کا سا ہے۔(ہدایہ: ۴؍۳۶۸)
د: عورت کے لئے عورت سے پردہ اسی قدر ہے، جتنا مرد کا حصۂ ستر ہے۔ (تکملہ البحرالرائق: ۸؍۲۱۹)
دو صورتیں ایسی ہیں جن میں مردوں اور عورتوں کا حکم یکساں ہے، ایک: ازدواجی رشتہ، اس میں نہ شوہر کے لئے بیوی سے ستر ضروری ہے اور نہ بیوی کے لئے شوہر سے؛ البتہ شوہر وبیوی کے لئے بھی بہتر ہے کہ بلا وجہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے صنفی اعضاء کو نہ کھولیں، یہ حیاء کے خلاف ہے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا اتی أحدکم أھلہ فلیستر ولا یتجرد تجرد العیرین (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۹۲۱)
جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے ، تب بھی (ممکن حد تک)ستر کا لحاظ رکھے، گدھوں کی طرح بالکل ننگا نہ ہو جائے۔(ابن ماجہ، حدیث نمبر:۱۹۲۱)
دوسرا موقع ہے ضرورت کا، ضرورت دو طرح کی ہے، ایک وہ جو زندگی کے عام مسائل میں پیش آتی ہو، اس میں چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی صحابیات ملاقات کیا کرتی تھیں اور مسائل دریافت کرتی تھیں، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلیطؓ اور حضرت بریرہؓ کے یہاں جانا ثابت ہے(عمدۃ القاری: ۱۴؍۱۶۸، نیز دیکھئے: سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۲۳۱) حج کے موقع سے ایک خثعمی خاتون نے آپ سے مسئلہ دریافت کیا، جب حضرت فضل بن عباسؓ آپ کے ساتھ اونٹنی پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا چہرہ موڑ دیا (مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے مواقع پر عورت کے لئے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے، یہاں تک کہ اس کی اجازت بعض ایسے سخت ضرورت کے مواقع پر بھی ہے، جب کسی فریق میں شہوت پیدا ہونے کا اندیشہ ہو؛ اسی لئے مخطوبہ کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے، اور فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عورت گواہ یا مدعی یا مدعی علیہا ہو تو قاضی اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، چاہے شہوت کا اندیشہ ہو۔(ہدایہ: ۴؍۳۶۸-۳۶۹)عہد صحابہ میں بھی اس طرح کے آثار موجود ہیں۔
غرض کہ پردہ کے احکام مردوں کے لئے بھی ہیں اور عورتوں کے لئے بھی ؛ البتہ اس کے حدود الگ الگ ہیں؛ اسی طرح مردوں اور عورتوں دونوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ غضِّ بصر سے کام لیں، یعنی دوسرے فریق کو تاکنے، جھانکنے، نظر جما نے اور لذت اندوز ہونے کے لئے صنف مخالف کو دیکھنے سے بچیں،اور قرآن نے جہاں نگاہ کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے، وہاں عورتوں سے پہلے مردوں کو خطاب کیا گیا ہے:
آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے صاف ستھرا طریقہ ہے، وہ جو کچھ کرتے ہیں، یقیناََ اللہ کو ان سب کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش وآرائش کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو کھلا رہتا ہے، اور اپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈال لیا کریں، ہاں، اپنے شوہر، والد، خسر، بیٹے، شوہر کے بیٹے، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، اپنی عورتوں ، باندیوں، شہوت نہ رکھنے والے مرد خادم، یا عورتوں کے پردہ کی باتوں سے ناواقف بچوں کے سامنے اپنی زیب وزینت ظاہر کر سکتی ہیں، نیز (زمین پر) اس طرح زور سے پاؤں نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ بناؤ سنگار ظاہر ہو جائے، اور اے ایمان والو! سب مل کر اللہ کے سامنے توبہ کرو؛ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(نور: ۳۱۔۳۲)
پردہ اور دیگر مذاہب:
پردہ کی حدود مردوں کے مقابلہ عورتوں کے لئے زیادہ کیوں رکھی گئی؟ یہ بالکل واضح ہے اور فطرت کی آواز ہے، اللہ تعالیٰ نے تخلیقی طور پر عورتوں کے اندر مردوں کے مقابلہ زیادہ کشش رکھی ہے؛ اسی لئے دنیا کے تمام ہی مذاہب میں اس کی رعایت ہے، ہندو مذہب میں سیتا جی کو ایک آئیڈیل خاتون مانا گیا ہے، جنھوں نے دشمنوں کے بیچ رہ کر بھی اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کی اور اپنی آبرو پر کوئی دھبہ لگنے نہیں دیا، سیتا جی کے بارے میں ہندو مذہبی مآخذ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب شری رام جی کے بھائی لکشمن کو کہا گیا کہ وہ سیتا جی کا چہرہ دیکھ کر ان کو پہچانیں تو انھوں نے کہا کہ میں نے کبھی اپنی بھاوج کے قدموں سے اوپر نگاہ نہیں اُٹھائی اور ان کا چہرہ نہیں دیکھا؛ چنانچہ انھوں نے سیتا جی کے پازیب دیکھ کر ان کو پہنچانا ؛اسی لئے عام طور پر ہندو بھائیوں کے یہاں دیویوں کی تصویر اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ان کا سارا بدن سوائے چہرہ کے ڈھکا ہوتا ہے اور سرپر آنچل ہوتا ہے، ہندوؤں کے بہت سے خاندانوں، خاص کر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں عورتوں کے گھونگھٹ لٹکانے کا قدیم رواج رہا ہے، اور بہت سی جگہوں پر آج بھی موجود ہے، یہ گھونگھٹ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سر، چہرہ اور سینہ کا حصہ اچھی طرح چھپ جاتا ہے؛ بلکہ ہندو دھرم کی بنیادی کتاب وید میں پردہ کا بہت واضح حکم ملتا ہے:
’’ چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے؛ اس لئے اپنی نظر یں نیچی رکھو اوپر نہیں، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے‘‘ ۔ ( رِگ وید: ۸۔۳۳۔۱۹)
تورات کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی مذہب میں بھی عورتوں کے لئے پردہ کا حکم تھا، عیسائیوں کے یہاں حضرت مریم ؑکی شخصیت آئیڈیل اور نمونہ ہے، ان کی تصویریں بھی اس طرح بنائی جاتی ہیں کہ سوائے چہرہ کے پورا جسم چھپا رہتا ہے، آج بھی چرچ کی راہبات سوائے چہرہ کے پورے جسم کو چھپانے والا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہیں، جن مغربی ملکوں میں برقعہ یا حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے، وہاں بھی نَنوںکو اپنا بدن ڈھانک کر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، راہبات کے لئے تو سر چھپاناان کے یہاں واجب ہے ہی؛ لیکن اس کے علاوہ بعض عیسائی فرقوں جیسے: آمیش اور مینونایت کے نزدیک عورت کے لئے سر چھپانا ضروری ہے؛ بلکہ ۱۹۱۷ء تک کیتھولک چرچوں میںعورتوں کے لئے سر چھپانا ضروری سمجھا جاتا تھا (دیکھئے: ویکیپیڈیا،مادہ: غطاء الرأس فی المسیحیۃ)
غرض کہ یہودی اور عیسائی مذہب میں بھی پردہ کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے احکام یکساں نہیں ہیں؛ اسی لئے تورات نے عورت کو مرد کا اورمرد کو عورت کا لباس پہننے سے منع کیا ہے ؛ چنانچہ تورات میں ہے:
’’عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے؛ کیوں کہ جو ایسے کام کرتا ہے، وہ خداوند کے نزدیک مکروہ ہے ۔ ( استثناء:۲۱:۵)(جاری)
(بصیرت فیچرس)

 

Comments are closed.