Baseerat Online News Portal

کسان بل کی حقیقت اور فسانہ

 

ڈاکٹر سلیم خان

زراعت  بل  کے خلاف مظاہرہ    پنجاب اور ہریانہ کے راستے دہلی  پہنچ گیا جہاں  انڈیا گیٹ کے پاس  ایک  ٹریکٹر کو آگ لگا دی گئی۔ مظاہرین اس  پرانے ٹریکٹر کو ایک گاڑی میں لاد کر لائے تھے اور ’جئے جوان جئے کسان‘ کے نعرے لگارہے تھے لیکن اس کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ۔   کیونکہ ایک دن قبل کسانوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اصرار کے باوجود صدر رام ناتھ کووند نے زرعی اصلاحات سے متعلق بلوں کی منظوری دے دی۔  صدر کے دستخط کے بعد اب  ’ زرعی پیداوار کاروبار اور تجارت (فروغ اور آسانیاں) ایکٹ 2020‘ اور ’کسان (امپاورمنٹ اور تحفظ) پرائس انشورنس اور زرعی خدمات کے معاہدے ایکٹ 2020‘ملک میں نافذالعمل ہوگئے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان  میں ایسی کیا بات ہے جو پورے ملک کا کسان اس کے خلاف چیں بہ جبیں  ہے اور آر ایس ایس کے بھارتیہ کسان سنگھ کے لیے منہ چھپانا مشکل ہورہا ہے؟

اس بل کے ذریعہ  کسانوں کو اب سرکاری منڈی سے باہر اپنی پیداو ار کو بیچنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔  سوال یہ ہے کہ کسان پر یہ پابندی کب تھی کہ وہ اپنی پیداوار لازماً سرکاری منڈی میں فروخت کرے؟ وہ اس کے لیے پہلے سے آزاد تھا ۔   اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پابندی سرے سے تھی ہی نہیں اس کو ختم کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا گیاہے۔ اس بل سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کسان سرکاری منڈیوں سے باہر اپنا مال فروخت کرنا چاہتے ہیں ، اس کے برعکس  حقیقت یہ ہے کہ کسان سرکاری منڈی کے اندر اپنا اناج بیچنے پر اصرار کررہا  ہے۔  یہ کسان کی دیش بھکتی نہیں مجبوری ہے۔ کسانوں کو سرکاری منڈی سے باہر کم بھاو ملتا ہے اس لیےوہ چاہتا ہے کہ اس کا مال منڈی میں بکے ۔ ہریانہ اور پنجاب کی حکومت اس کا اہتما م کرتی ہے اس لیے وہاں کا کسان دیگر ریاستوں کے مقابلے خوشحال ہے ۔ اسی سبب سے مغربی اتر پردیش کا کسان بھی اپنا مال ہریانہ اور پنجاب میں لاکر فروخت کرتا ہے لیکن دور درازوالے نہیں لاپاتےکیونکہ 70روپئے لیٹر ڈیزل  ڈال کر سفر کرنے پر سارا منافع ٹرانسپورٹ کی نظر ہوجائے گا۔

  ہندوستان بھر کا کسان تو  چاہتا کہ ہر علاقہ میں سرکاری منڈی موجود ہو اور وہاں اپنی پیداوار سرکاری بھاو میں بیچے لیکن حکومت  اس کو وہاں سے بھگانا چاہتی ہے۔ اس چیز کو ایک مثال سے سمجھیں کہ کل سرکار ایوان پارلیمان میں یہ قانون منظور کرے کہ ہم نے عام شہریوں کے اوپر سے ہوائی جہاز پر چلنے کی پابندی ہٹا لی ۔ اب وہ ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے لیے آزاد ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان پر پابندی کب تھی ؟   وہ تو پہلے بھی اس کے لیے آزاد تھے لیکن چونکہ ان کے پاس ہوائی جہاز کا کرایہ ادا کرنے  کے لیے روپیہ  نہیں تھا ، اس لیے وہ  ریل گاڑی میں سفر کرنے پر مجبور تھے ۔ اب سرکار ان کو اتنا خوشحال بنانے کے بجائے کہ وہ  ہوائی جہاز میں سفر کرسکے ایسا بدحال بنانا چاہتی ہے کہ  ریل گاڑی میں بھی سفر کرنا دشوار ہوجائے۔ ریلوے کو بتدریج نجی ہاتھوں میں دیا جارہا ہے اور اب وہاں پر بھی  منافع خوری کا دور دورہ ہوگا ۔ اس کے بعد ہندوستانی کسان تو دور دیگر عوام کے لیے  بھی ریل میں سفر کرنا دشوار ہوجائے گا ۔ سرکار تو ٹرین اور ریلوے اسٹیشن اونے پونے بھاو اپنے دوست سرمایہ داروں کو بیچ کر ایک طرف ہوجائے گی لیکن اس کے استحصال کی قیمت غریب عوام چکائیں گے  ۔ اسی طرح کسانوں کو خوف ہے کہ وہ بتدریج سرکاری منڈیو ں کو بند کرکے کسانوں کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی اور مہاراشٹر و تلنگانہ کی مانند پنجاب اور ہریانہ کا کسان بھی خودکشی پر مجبور ہوجائے گا۔

اس معاملے میں کسان کتنے سنجیدہ بلکہ رنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بل کے خلاف  احتجاج کے دوران ایک کسان خودکشی کرکے اپنی جان دے چکا ہے مگر سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ پولیس کے بموجب18ستمبر  کے دن  پنجاب کے ضلع مختصر میں نئے قوانین  کے خلاف احتجا ج کے دوران ایک 70سالہ کسان نے زہر پی کر اپنی جان دیدی ۔بادل گاؤں میں بھارتیہ کسان یونین کی جانب سے منعقدہ 15ستمبر سے جاری احتجاج میں مانسا ضلع کے گاؤں اکن والی کے ساکن پریتم سنگھ نے حصہ لیاتھا‘ پڑوس کا گاؤں سابق وزیر اعلیٰ  پرکاش سنگھ بادل کا آبائی مقام ہے۔ پولیس کے مطابق  مذکورہ کسان قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ اس کسان کو جب اندیشہ ہوا کہ سرکاری منڈیاں بند ہوجائیں گی تو اس پیداوار صحیح قیمت پر نہیں بکیں گی اور وہ قرض نہیں ادا کرسکے گا ۔ اسی خوف نے اسے یہ انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کردیا۔ بی کے یو کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ نے انتظامیہ سے متوفی کے افراد خانہ کو معاوضہ دینے  کا مطالبہ کیاہے۔ 

 اس  معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سرکاری منڈی میں مال خریدنے والاتاجر  ٹیکس دیتا ہے لیکن  باہر لین دین کرنے  والا سرمایہ دار ضروری نہیں کہ ٹیکس ادا کرے ۔  اس  طرح ٹیکس کے سبب  عوامی فلاح بہبود مثلاً سڑک ، پانی ، بجلی اور تعلیم و صحت کی  جو سہولیات  سرکار فراہم کرتی ہے وہ بھی متاثر ہوں گی ۔ کسانوں کے احتجاج سے گھبرا کر وزیر اعظم نے یہ کیا کہ اچانک چند فصلوں کی کم از کم قیمت  خرید میں معمولی اضافہ کردیا ۔   وزیر اعظم نے اپنے  ٹویٹ میں اس  بات کا یقین دلایا کہ حکومت ایم ایس پی کا نظام ختم نہیں کرے گی لیکن یہی تیقن  اس نے  اپنے قانون میں نہیں کیا ۔ کسان اس بات  کو سمجھتا ہے کہ   وزیر اعظم کے ٹویٹ کی انتظامی امور میں کوئی اہمیت نہیں   ہوتی۔ حکومت کو تو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے والا قانون بنائے کہ کسانوں کا سارا مال سرکاری منڈی میں ایم ایس پی پر خریدا جائے گا لیکن سرکار ایسا اقدام کرنے کے بجائے گمراہ کن   ٹویٹ اور اوٹ پتانگ  بیانات کے ذریعہ کسان تحریک میں انتشار برپا کرنے کی مذموم کوشش  کررہی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوگی۔  اس کی بہت بڑی قیمت اسے پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں چکانی پڑے گی جہاں کا  بیدارکسان  کسی فریب میں  نہیں آئے گا ۔ 

کسی زمانے میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ  جاپانی وزیر اعظم نے تین ماہ میں پٹنہ کو ٹوکیو بنانے کی پیشکش کی  تو اس کے جواب میں لالو پرشاد یادو نے تین دن میں ٹوکیو کو پٹنہ بنا دینے کا یقین دلا دیا۔  فی الحال مرکزی حکومت اس لطیفے کو  حقیقت میں بدل رہی ہے۔ وہ بہار کے کسان کو پنجابی کاشتکار کی طرح مالدار بنانے کے بجائے پنجاب کے کسان کو بہاری کاشتکار  کی مانند بدحال بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ سرکاری  اعدادو شمار اس  کی تائید کرتے ہیں     پنجاب میں سرکاری منڈی کے اندر 71فیصد دھان فروخت ہوتا  ہے جبکہ بنگال کا کسان صرف 15فیصد دھان  سرکاری منڈی میں فروخت کرپاتا ہے ۔  اسی طرح پنجاب کا کسان 39 فیصد گیہوں  سرکاری منڈی میں فروخت کرتا ہے جبکہ بہار میں اس 0.1فیصد گیہوں سرکاری منڈی میں بیچا جاتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گزشتہ 14سالوں میں این ڈی اے نے بہار سے سرکاری منڈی کا نظام ختم کردیا ۔ یہی کام مرکز کی این ڈی اے حکومت قومی سطح پر کرنا چاہتی ہے۔  اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پنجاب کے  ایک گھر میں کسان کی جو   آمدنی 18ہزار روپئے  ہے  وہ گھٹ  بہار کے 3500 روپئے جیسی ہوجائے گی ۔   پنجاب کے کسان کو یہ اندیشہ ہے کہ اس نئے قانون کے سبب آج نہیں تو کل اس کی  حالت  بھی بہاری کاشتکار کی طرح ہوجائے گی ۔ 

حکومت کے اس ناقص رویہ کا ایک اثر یہ ہے کہ بہار میں ۱۰ ایکڑ زمین کا مالک پنجاب اور ہریانہ میں آکر 2ایکڑ کے کسان کی کھیتی میں  مزدوری کرنے پر مجبور ہے ۔ یہ بھی کوئی خیالی اندیشہ نہیں ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہر سال 79  لاکھ 49 ہزار کسان مزدوری کے لیے دیگر ریاستوں میں مہاجرت کرتے ہیں۔  بہار سے بھی برا حال اتر پردیش کا ہے ۔ گنگا اور جمنا کا یہ زرخیز علاقہ  ایک کروڈ 30 لاکھ کسانوں کو دیگر صوبوں میں روانہ کرنے پر مجبور ہوتاہے بلکہ راجستھان بھی 30 لاکھ  49 ہزار کسان مزدور برآمد کرتا ہے۔   یہ کسان پنجاب اور ہریانہ کا سفر کرکے اپنی تنگدستی کو دور کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ   دیگر صوبوں کو خوشحال کرنے کے بجائے ہریانہ اور پنجاب کو بھی بدحال کردیا گیا تو یہ مزدور کہاں  جائیں گے َ ؟  اور سب سے اہم یہ بات ہے اگر کل کو یہی برا وقت ہریانہ اور پنجاب کے نازو اندام میں  پلے  کسانوں پر آگیا تو ان کا کیا ہوگا ؟ فی الحال  گولی مار دینے کا مطالبہ اسی تناظر میں کیا جارہا ہے ۔انہیں اندیشہ ہے  کہ وہ  بھی مہاراشٹر اور تلنگانہ کے کسانوں کی مانند خودکشی پر مجبور ہوجائیں گے ۔

ذخیرہ اندوزی اچھی چیز نہیں ہے اس لیے یہ ممنوع تھی۔ اس کو   نئے قانون کے مطابق یہ پابندی  ختم کردی  گئی ہے ۔  ہندوستان میں قرض  تلے دبے  کسان کی یہ حیثیت ہی نہیں ہوتی  کہ وہ ذخیرہ جمع کرکے رکھے اور اس کے پاس اس کی سہولت بھی نہیں  ہوتی ۔ وہ تو چاہتا ہے کہ جلد ازجلد اپنا مال بیچ کر فارغ ہوجائے اور قرض کی ادائیگی کے بعد دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرے۔ حکومت کی یہ نام نہاد سہولت غریبوں کامفت  میں بنک  اکاونٹ کھولنے جیسی ہے ۔ بنک میں کھاتا کھلنے کے بعد  کم ازکم بیلنس  رکھنا لازم ہوجاتا ہے اور جو غریب یہ  نہیں کرپاتا بنک والے اس کی  جیب کاٹ لیتے ہیں ۔ اس طرح سرمایہ داروں کا قرض معاف کرنے والے بنک ملک کے غریبوں کو لوٹ ہزاروں کروڈ کماتے ہیں۔  اس بل کا سب  سے خطرناک پہلو بڑے سرمایہ داروں کو  ٹھیکے  پر زمین اٹھانے کی سہولت ہے ۔ اس کے ذریعہ کڑی شرائط پر عالمی سرمایہ کار کسانوں کی زمیں ٹھیکے پر لے گا اور کسان اپنے ہی کھیت میں مالک سے مزدور بن جائے گا۔ اس کے علاوہ ایسی شرائط اس  معاہدے میں شامل ہوں گی کہ کسان خون پسینہ بہاکر بھی بھوکا مرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

Comments are closed.