Baseerat Online News Portal

کشمیرمیں اردوزبان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جارہی ہے

عبدالرافع رسول
5 اگست 2019کو مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے کشمیرکے مسلم تشخص کو ببانگ دہل ختم کرنے کا آغاز کر دیا اس میں ریاست میں اردو کی مرکزی حیثیت بتدریج ختم کرکے اس کی جگہ ہندی زبان کومسلط کرنے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے جبکہ ’’فارسی کی طرزپر‘‘کشمیری زبان کے رسم الخط کو بدل دینا بھی اس منصوبے میں شامل ہے۔واضح رہے کہ مقبوضہ جموںجوکشمیرکے 20،اضلاع میں سے 15ضلعوں کے نوجوان اردوسے مانوس ہیں جبکہ 5اضلاع جہاں ہندئووں کی اکثریت ہے میں روزانہ بول چال میں بھی اکژ اردوزبان ہی بولی جاتی ہے۔ اردوکے خلاف مودی حکومت کے اس فیصلے سے کشمیر میں 131سال سے بولی جانے والی اردو زبان کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔
26ستمبر2020ہفتے کوبھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے جموں و کشمیر میں سرکاری زبانوں میں کشمیری ، ڈوگری اور ہندی کو شامل کرنے کی بل کو منظوری دی اور اس طرح اب جموں و کشمیر میں اردو اور انگریزی کے علاوہ کشمیری ، ڈوگری اور ہندی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ مل گیا ہے۔ ستمبر2020کے وسط میںبھارتی پارلیمنٹ میںجموں و کشمیر میں خالص اردوزبان کے بجائے دوسری زبانوں کوشامل کرنے کا بل پاس کیا گیا۔ 27ستمبر2020اتوارکودہلی سرکار کی جانب سے جاری کی گئی نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر آفیشیل لنگویجز ایکٹ 2020کوبھارتی صدر نے 26ستمبر2020 کو منظوری دی جس کے بعد یہ بل باضابطہ بھارتی قانون کاحصہ بن گیا۔ اردو ریاست جموںوکشمیر کی پہچان، تہذیب اور شناخت ہے اس لئے اردو زبان کو تبدیل کرنا ریاست جموںوکشمیر کی تہذیب پرکھلی یلغار ہے ۔
لگ بھگ ایک صدی سے زائدعرصے اردو سے ریاست جموںو کشمیر کے تمام خطوں آزادکشمیراورمقبوضہ کشمیرمیں مختلف زبانیں بولنے والے باشندوں کے لیے رابطے کی زبان رہی ہے۔زبان فارسی 14ویں صدی سے اس خطے میں موجود تھی اور 1845میں انگریزوں کی آمد تک یہ سرکاری زبان کے طور پرموجود رہی۔ 1846 میں ڈوگرہ اقتدار کشمیر کی تاریخ کا حصہ بنا۔ اس کے پہلے حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور سلطنت تک سرکاری زبان فارسی ہی تھی۔لیکن مودی کی طرح ہی ڈوگرہ شاہی کوفارسی کے ساتھ کدبنی رہی ۔کیونکہ اردوزبان کے حوالے سے مودی جس مرض کاشکارہے تقریباَیہی مرض جموںکے ڈوگرہ مہاراجوں کوبھی لاحق تھاکیونکہ اس وقت دینیات کاساراسرمایہ فارسی میں ہی موجود تھاجسے ریاست جموںوکشمیرکے مسلمان استفادہ کررہے تھے۔اس لئے ڈوگرہ شاہی نے فارسی کوکالعدم قراردینے اور ڈوگری زبان کو ریاست جموںوکشمیر کی سرکاری زبان کا درجہ دینے کی کافی کوششیں کی لیکن اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی اس لئے کہ ڈوگری زبان میں وہ اہلیت ہی نہیں تھی جو سرکاری زبان کے لئے ضروری ہوتاہے۔
ڈوگرہ زبان بول چال کی زبان سے زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کر پائی۔ کیونکہ ڈوگرہ زبان کا رسم الخط مہاجنی سے ملتا جلتا ہے اور کافی مشکل بھی ہے۔ڈوگرہ زبان مشکل اس لئے ہے کہ ایک کا لکھا ہوا دوسرے کے لئے وہی پڑھنا جو لکھا گیا ہے مشکل ہے۔ڈوگرہ شاہی میںاگرچہ اسے آسان بنانے کی بھی کوشش کی گئی لیکن یہ تعلیمی اور سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ڈوگری زبان کے ایک شاعر کے گیت سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے لیکن لکھے کبھی نہیں گئے۔یہی وجہ ہے کہ نہ تو یہ تعلیمی اور ادبی زبان بن سکی اور نہ ہی اس میں ڈوگری کاکوئی سرمایہ ادب محفوظ ہو سکا۔ڈوگرہ شاہی جب ڈوگری زبان کوریاست جموںوکشمیرکی سرکاری بنانے میں ناکام ہوئی تو1889کو ڈوگرہ سلطنت کے ایک حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ نے اردو کو زیادہ فروغ دینا شروع کیا۔اس کے بعداردوزبان ریاست جموں و کشمیرکی زبان قرارپائی ۔ اسے سرکاری اسکولوں میں ذریعہ تعلیم کا درجہ دیا گیا۔
۔ اس نے اردو میں ایک اخبار’’ رنبیر‘‘ کے نام سے جاری کیا جس سے حوصلہ افزائی پاکر کئی اور اردو اخبارات موجود میں آئے۔مہاراجہ رنبیر سنگھ نے جموں میں ایک دارالترجمہ قائم کیا۔اس ادارے سے فارسی کی کتابوںکے بہت سے مسودے اردو میں ترجمہ ہوتے اور ان کو باضابطہ طور پر شائع کیا جاتا تھا۔اس عہد کے کئی مسودات ملتے ہیں جن میں سے اکثر انگریزی ،فارسی اور عربی سے اردو میں ترجمہ ہوئے ہیں۔
ریاست جموںوکشمیرمیں بولی جانے والی کشمیری، ڈوگری، پہاڑی، ہندکو،گوجری،شینا،بلتی تومعروف مانی جاتی ہیں لیکن اس کے علاوہ ،درد، پنجابی، بھدرواہی، بروشتکی،پشتو اور بکروالی وغیرہ بھی چھوٹی چھوٹی زبانیں ہیں۔ان درجن بھر زبانوں اوراس اس کثیر لسانی صورتحال کے درمیان اردوزبان ہی ایک آسان رابطے کا ذریعہ تھی ۔ریاست جموںوکشمیرمیں بولی جانے والی کسی بھی زبان سے مماثلت نہ رکھنے کے باوجوداردونے پوری ریاست میں اس وسیع پیمانے پر اپناسکہ جمایا کہ2011میں بھارتی مردم شماری کے مطابق صرف 0.13فی صدمقامی افراد کے بولنے والوں کی تعدادکیساتھ اردو نے آسانی سے اپنی جگہ بنا لی۔1857 کی جنگ آزادی بھی جموں وکشمیرمیں اردو کی ترویج کااہم سبب بن گئی۔ انگریزوں نے تحریک آزادی کو ناکام کرنے کے لیے گلاب سنگھ سے فوجی امدادطلب کی۔ گلاب سنگھ خوداگرچہ 1857 میں حکومت انگلش کے کاموں سے دستبردارہوچکاتھا۔ پھر بھی اس نے انگریزوں کی مددکے لئے ڈوگرہ فوج کو دہلی کے لئے روانہ کیا۔ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو یہ ڈوگرہ فوج عرصہ دہلی میں رکی رہی جہاں انہیں مزید تربیت دی گئی۔ ڈوگرہ فوجی اس دوران ایسے لوگوں سے ملتے رہے۔ جن کی زبان اردو اور پنجابی تھی اور اس طرح یہ فوج ٹوٹی پھوٹی ا ردو بولنے لگے اور جب یہ فوج ریاست جموںوکشمیر میں واپس لوٹ آئی تو اپنے ساتھ اردو کے چند الفاظ ساتھ لائی اور ان الفاظ کی مددسے ریاست کشمیر میں اردو کے رائج ہونے میں بڑی مددملی۔اس کے علاوہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ سیاحت کاروبار کی ترقی اور دوسرے علاقے کے لوگوں سے رابطے نے کشمیرمیں اردو کو رائج کرنے اور مقبول بنانے میں اہم کردار اداکیا۔
بھارت کی بی جے پی حکومت کشمیر میں ہندی کو تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے اسی لئے کئی زبانوں کوکشمیرکی سرکاری زبان قراردیااوراگلے مرحلے پردیگر تمام زبانوں کوکالعدم قراردے کربھارت کی طرح صرف ہندی کوہی سرکاری زبان قرار دیاجائے گا۔کشمیرمیں اردو کے خاتمے پرمودی حکومت بضد کیوں رہی ۔اس پر ذہن میں کئی قسم کے سوالات کلبلارہے ہیں۔کیونکہ صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ مودی کی قیادت میںبی جے پی سرکار پورے بھارت میں اردو مخالف مہم لانچ کرچکی ہے۔ اس نے نئی تعلیمی پالیسی میں جو لسانی فارمولا پیش کیا گیا ہے اس فارمولا میں اردو زبان کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ مادری زبان کی فہرست میں اردو کو نظر انداز کر کے مراٹھی کے ساتھ ساتھ ہندی اور سنسکرت زبان کے فروغ کی خوب گنجائش رکھی گئی ہے۔ بھارت میںمادری زبان کی فہرست میں اردو زبان کو جگہ نہ دیئے جانے پربھارت کے مسلمان ماہرین تعلیم اور اساتذہ اسے مسلم دشمنی سے ہی تعبیرکرتے ہیں۔حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ اردو ایک ایسی زبان ہے کہ جس کاہماری دینیات کے ساتھ چولی دامن کاساتھ ہے ۔اس لئے اس ناچیزکے بشمول کشمیرکے اہل دانش بھی اسے مسلم دشمنی ہی سمجھتے ہیں۔
اس ناچیزکااس پراپناتجزیہ ہے اوروہ یہ ہے کہ برصغیرکے اکابرعلماء کرام کی تفاسیرقرآن اردو زبان میںہیں۔ تفہیم القرآن ،معارف القرآن ،تدبرقرآن اوربیان القرآن کے علاوہ،لگ بھگ تمام عربی تفاسیرجن میں تفسیرابن کثیر،تفسیرجلالین، تفسیر فتح القدیر، تفسیر فخر رازی،تفسیر بیضاوی ،تفسیر طبری، تفسیرقرطبی ، اورتفسیر بغوی،جبکہ ذخیرہ احادیت پرمشتمل احادیث نبوی کی سات بڑی کتابوں’’ صحاح ستہ‘‘ کی تشریح وتفہیم اردوزبان میںہے ۔کشمیرکی نسل نوکودین سے بے گانہ کرنے کے لئے مودی نے اردوزبان کے خلاف ایک مذموم اور شرمناک ایکشن لیا۔اس کے علاوہ تحریک آزادی کشمیرکاڈنکابجانے میں اردونے اپنابڑاحصہ ڈالا۔
ارض پاکستان سے تعلق رکھنے والے سلیم ناز بریلوی مرحوم نے جہادی ترانے اورآزادی کے نغمے اردو میں لکھے اورپھراسی زبان میں انہیں گاکرنوجوانان کشمیرکے جذبوں کومہمیزدی۔ ’’ہم کیاچاہتے آزادی ،آزادی کامطلب کیالاالٰہ الا اللہ ،پاکستان سے رشتہ کیالاالٰہ الا اللہ ،ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہماراہے ‘‘تحریک آزادی کشمیرکے یہ سب نعرے جن سے بھارت کے بام ودرہل گئے اردومیں ہیں ۔اس پس منظرمیںاگر یہ کہاجائے کہ ہماری تحریک آزادی کے خدوخال ،فکراورنظریہ اسی زبان کے رہین منت ہیں توہرگزبے جانہ ہوگا۔
ریاست جموںوکشمیرمیں پانچ ،چھ اخبارات کوچھوڑکے چونکہ تمام کے تمام اخبارات اردو میں ہی شائع ہوتے ہیں ۔ عوام الناس تک تحریکی پیغامات،افکاروخیالات کوپہنچانے میں اخبارات ہی واحد ذریعہ تھا اس پس منظرکے ساتھ دیکھاجائے توہماری آزادی کی تحریک میں اردو زبان کا ایک زبردست کردار رہا ہے۔رام راج کے پالیسی سازوں کی ترچھی نظر اس معاملے پربھی ضرورتھی اورانہیںاس حوالے سے بھی کشمیرمیں اردوزبان برداشت نہیں ہورہی تھی ۔ ان تمام امورکے پیش نظراس کتاب میں اردوکے حوالے سے اس مضمون کو شامل کرنے کامیرامقصدیہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے اردو کی اہمیت اجاگر ہوگی،بھارت کے شرمناک منصوبے طشت ازبام ہونگے اورکشمیرکے نوجوان طبقے کودین اوردینی بنیاد پراستوارکشمیرکی تحریک آزادی برائے اسلام کے ساتھ اپنارشتہ وتعلق لگاتار جوڑے رکھنے میںممدومددگارثابت ہوگا۔اردوسے ہماری نسل نوکی بیگانگی،سرد مہری ، اجنبیت دورکرنے کے لئے اردوکے موضوع پر یہ مضمون علاج بالتحریرکا کام کرے گا۔جبکہ اس زبان کے تئیں برتنے والے ہندو فرقہ پرستانہ تعصب کااندازہ بھی ہوسکے گا۔ان شاء اللہ العزیز
اردو بڑی جامع زبان ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دامن میں بڑی وسعت ہے۔ اردو زبان کا شمار بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد دوشمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعدیہ تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دوسرے خطوں میں کروڑ سے زیادہ افراد اسے رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ۔ اردو مشرق بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطی اور یورپ کے بازاروں ، جنوبی افریقہ اور امریکہ کے متعدد شہروں میں یکساں مقبول ہے۔ یہاں ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ یہ زبان ایک جاندار اظہار اور اظہار کا جان دار ذریعہ ہے۔اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔ اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصہ ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی ، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے۔ اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن ہے ۔ ایک لسان الارض ہے جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے ہیں ۔
اردو زبان کی پیدائش، جائے پیدائش اور نشوونما کے بارے میں اردو کے عالموں، محققوں اور لسانیات دانوں نے اب تک کافی غور و فکر اور چھان بین سے کام لیا ہے جس سے اس موضوع پر اردو میں لسانیاتی ادب کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا ہو گیا ہے ۔اردو کے تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے۔اہل اردو،اوراردوکے تمام ائمہ اور عالموں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچہ یا کینڈا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کے ذخیر الفاظ کا معتدبہ حصہ ہند آریائی ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات پڑے ہیں۔

Comments are closed.