Baseerat Online News Portal

کورونا ؛ خدا را احتیاط کیجئے ،وگرنہ۔۔۔

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
14مارچ کو چار لوگ عمرہ سے لوٹے ، اپنے کام سے لگ گئے دکان پر بیٹھے ، چوک میں گئے، بینک میں گئے، 19مارچ کو ان میں سے ایک بزرگ کو سردی کھانسی ہوئی ، 22مارچ کو چاروں کو پاسپٹل اڈمٹ کیا گیا 23مارچ کر ان کی کورونا رپورٹ پازیٹیو آ ئی ، 24 مارچ کو اسی خاندان کے مزید پانچ افراد پازیٹیو نکلے 25 مارچ کو دو اور 26 مارچ کو مزید بارہ ، اس طرح کل پچیس افراد کورونا پازیٹیو ہو گئے جن میں 22افراد ایک ہی خاندان کے ہیں ، تین افراد پڑوس کے ہیں ۔ مزید دس افراد کی رپورٹ آنی باقی ہے ۔ آس پڑوس کے 489 افراد مشکوک قرار دئے گئے ہیں ۔ ان کے گھر سے 700 میٹر نصف قطر کے دائرے کے 1100گھروں کو بند کردیا گیا ہے جنہیں ضروری اشیاء کے لئے بھی باہر جانے کی اجازت نہیں یہ اشیاء انہیں پولس اور رضاکارگھر پہنچ مہیا کروارہے ہیں۔ یہ واقعہ سانگلی مہاراشٹر کے اسلام پور گاؤں کاہے( انڈین ایکسپریس ۳۱ مارچ )۔ یہ سارا پھیلاؤ دراصل بے احتیاطی اور لا پروائی سے ہوا، اول تو یہ کہ جب یہ لوگ عمرہ سے لوٹے اسی وقت ان کا ٹیسٹ یا قرنطینہ ( Quarantine ( نہیں کروایا گیااور انہوں نے بھی اپنے گھر پر کوئی احتیاط نہیں کیا خود بیمار ہوئے پوری فیملی کو بھی بیمار کردیا ، آس پڑوس اور پورے گاؤں کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ ان لوگوں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا ،لیکن انتظامیہ اور ان دونوں کی طرف سے لاپروائی ضرور ہوئی ۔ جس وقت یہ لوگ عمرہ سے آئے تھے اس وقت ملک میں کورونا کا پھیلاؤ اتنا نہیں تھا اس وقت انتظامیہ اور ان لوگوں سے لاپروائی ہوجانا معمولی بات تھی ۔ لیکن اب جو حالات ہیں ان میں لاپروائی کسی بہت بڑے جرم کے مترادف ہے ، نہ صرف خود کشی بلکہ اقدام قتل کے برابر ہے ۔ لیکن اب بھی لوگ اسے بہت ہلکے میں لے رہے ہیں ۔ اب حالات کچھ اس طرح ہیںکہ سڑکیں سنسان ہیں،بازار ویران پڑے ہیں ضروری سہولیات کے سوا پورا کاروبار بند ہے ، ضروری اشیاء کی دکانوں پر لوگ ایک مخصوص فاصلے پر بنے دائروں میں کھڑے پر سکون انداز میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ہی خرید و فروخت کر رہے ہیں، گلی کوچوں تک میں سناٹے کی حکمرانی ہے ، یہ ملک کی ایک تصویر ہے ۔ دوسری تصویر وہ ہے جس میں نظر آتے ہیں گلی کوچوں نکڑوں پر گپ لڑاتے لوگ ، سڑکوں پر بغیر کسی ماسک یا رومال کے گشت لگاتے لوگ،سنسان سڑکوں پر موٹر سائکلیں اڑاتے لوگ،پولس کے ذریعہ ذلت آمیز گالیاں کھاتے ،مار کھاتے ،مرغا بنائے جاتے ،مینڈک چال چلائے جاتے ، اور اٹھ بیٹھ کروائے جاتے لوگ ، پولس کو دیکھ کر بھاگتے اور پولس کے چلے جانے کے بعد فاتحانہ انداز میں واپس آتے لوگ ، پولس کو چڑھاتے پریشان کرتے لوگ اور منھ پر رومال باندھنے کا مشورہ دینے والوں سے بحث و تکرار کرتے لوگ۔ بلا امتیاز مذہب سبھی شہری اس میں شامل ہیں لیکن ہمارے لوگوں کی اکثریت ہے اور یہ کسی ایک جگہ کی تصویر نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے مطابق دہلی ممبئی حیدرآباد جیسے بڑے شہروں سے چاندور بسوہ جیسے چھوٹے دیہاتوں تک میں ہمارا یہی حال ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے،کھاتے پیتے لوگوں کا معاملہ اس سے تھوڑا الگ ہے ،یہ لوگ خود تو اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے انجوائے کررہے ہیں ، لیکن سوشل میڈیا میں یہودی امریکی چینی سازش ، مسلمانوں میں خوف و حراس پھیلانے کی سازش سے لے کر پازیٹیوز کے متعلق شک و شبہ پیدا کرنے والے ، مسلمانوں کو ڈرنے کی اور گھبرانے کی ضرورت نہیں کا اعلان کرنے والے ، کورونا سے ہوئی اموات کو کسی دوسری جانب موڑنے والے ،یہ اللہ کا عذاب ہے اور مسلمانوں کی دعا سن لی گئی وغیرہ نیز کورونا کا آسان علاج اور اس سے بچاؤ کے وظائف بتانے والے میسیج اور ویڈیو شیئر کر کے دراصل لوگوں کی بے احتیاطی کو بڑھاوا دینے میں معاون ہو رہے ہیں ۔ بالکل مان لیجئے کہ یہ سازش ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے بچنے کی تدابیر کرنے اور اس کا توڑ ڈھونڈنے کے بجائے اس کے منھ میں چلے جائیں اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں اور متعلقین کو بھی لے جائیں؟ یہ سازش ہے اور اگر ہم اس سے بچاؤ کی تدابیر نہیں کرتے تو سمجھئے ہم سازشیوں کا مقابلہ نہیں بلکہ ان کی کامیابی کا سامان کررہے ہیں۔ ویسے تو سرکارکی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ پازیٹیوز کا نام پتہ عام نہ کیا جائے لیکن مقامی لوگ جو جانکاری سوشل میڈیا میں شیئر کررہے ہیں اس کے مطابق 75فیصد مریض ہم مسلمان ہیں۔
ایک اور بات پر غور کیجئے کہ کورونا سے مقابلے کے نام پر مودی حکومت کو اکثریتی عوام کا سو فیصد سپورٹ حاصل ہے ۔ اس ضمن میں مودی سرکار کی پالسیوں کا تنقیدی جائزہ کہیں نہیں لیا جارہا ، لاک ڈاؤن کے لئے اچھی طرح تیاری نہ کرنے کے لئے بھی کوئی مودی سرکار سے سوال نہیں کررہا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والی پریشانیوں کو لوگ دیش کے لئے قربانی بنا کر پیش کررہے ہیں، دلی ممبئی اور دیگر بڑے شہروں میں مہاجر مزدوروں کو جو پریشانی ہوئی اور جس طرح انہوں نے پیدل یاچھپتے چھپاتے گاڑیوں میں سفر کیا اور جس طرح دلی میں لاک ڈاؤن کا مذاق بنا اس پر نہ کوئی سرکار کو گھیر رہا ہے اور نہ ان لوگوں کی وجہ سے وبا پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ،ان لوگوں کا خیال رکھنے اور انہیں ان کے گاؤں پہنچانے کا انتظام کروانے کی اپیل کی جارہی ہے لیکن دوسری طرف مرکز حضرت نظام الدین میں جو کچھ ہوا اس کے لئے لاک ڈاؤن کو ذمہ دار ٹھہرانے اور اس مسئلہ کو بھی مہاجر مزدوروں کے مسئلہ کی طرح نمٹنے کی اپیل کر نے کے بجائے لوگ اس میں ہندو مسلم کر رہے ہیں ، تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو ہی کورونا کے پھیلاؤ کے لئے ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ۔ سانگلی معاملے کی مذکورہ رپورٹ پر بھی لوگوں نے اپنے کمینٹس میں گلیوں بازاروں اور سڑکوں پر بغیر کسی ماسک یا رومال باندھے اور بھیڑ کرنے والے مسلمانوں کو ہی نہ صرف سانگلی بلکہ پورے ملک میں کورونا پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، سوشل میڈیا میں ایسے پیغامات پھیلائے جارہے ہیں کہ’ مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا جائے ان سے دس قدم دور رہا جائے ان سے نہ کوئی چیز خریدی جائے اور نہ انہیں کوئی چیز بیچی جائے ورنہ ان گنواروں کی وجہ سے ہندوؤں میں بھی کورونا پھیل جائے گا ‘ مودی جی نے تالی اور تھالی بجواکر کورونا کے خلاف لڑائی کو جو مذہبی رنگ دیا تھا اب وہ مسلم مخالفت کی شکل میں سامنے آرہا ہے ،گوکہ سب ہندو ایسا نہیں سوچتے لیکن اگر ہمارا رویہ نہیں بدلہ تو سمجھئے کہ جتنے لوگوں نے تھالیاں اور تالیاں بجائی تھی وہ سب اسی مسلم پروپگنڈے کے ساتھ ہوجائیں گے اور کورونا پھیلاؤ کی پوری ذمہ داری ہم مسلمانوں پر ہی تھوپ دی جائے گی ، کیا ہم میںسے کسی کو یقین ہے کہ مودی سرکار ایسا نہیں ہونے دے گی؟نہیں صاحب کسی کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا بلکہ نوے فیصد اکثریت کے سپورٹ کے چلتے اگر مودی سرکار ، سرکاری طور پر نہیں تو اس کے مسلم دشمن اشتعال انگیز اور زبان دراز ممبران اور وزراء سوشل میڈیا کے اس پروپگنڈے کو پارلمنٹ تک لے جا سکتے ہیں اور جیسا کہ دلی مرکز معاملہ میں ’ذمہ داروں ‘پر ایف آئی آر کی خبریں آ رہی ہیں سبھی معاملات میں چن چن کر ایسا کیا جاسکتا ہے جب کیجریوال سرکار ایسا کرسکتی ہے تو مودی سرکار کیوں نہیں؟اوراگر ایسا ہواتو ہم خود ہماری بے احتیاط اور لاپرو ا روش کے ذریعہ اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ اگر ہم اپنا رویہ نہیں بدلتے تو این پی آر ، این آر سی جیسے سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کے لئے بھی ہمیں تیاری کر رکھنی چاہئے۔

Comments are closed.