Baseerat Online News Portal

کیا ہم محسن انسانیت کے حقوق ادا کر رہے ہیں؟

 

 

 

محمد قاسم اوجھاری

 

 

محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار فضائل اور احسانات کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیا کیا حقوق عائد ہوتے ہیں، اور ہم واقعی طور پر ان حقوق کو ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حق آپ کی نبوت پر ایمان لانا ہے، آپ کو سچا نبی اور برحق رسول تسلیم کرنا ہے، ایمان لانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کے بتائے ہوئے احکامات پر ہمارا پورا یقین ہو، ہماری سوچ اور فکر یہ ہو کہ ہماری آنکھیں غلط دیکھ سکتی ہیں ہمارے کان غلط سن سکتے ہیں ہماری زبان غلط چکھ سکتی ہے ہمارے ہاتھ چھونے اور محسوس کرنے میں غلطی کر سکتے ہیں لیکن جو بات صحیح اور مستند طریقہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اگر ہمارے دل میں یہ یقین پختہ ہو جائے تو ہماری عملی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آجائے کہ ہمارے روز و شب اور شام و سحر بدل جائیں، معرفت بصیرت اور دلوں میں نور پیدا ہو جائے۔

 

دوسرا حق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ہے، آپ سے ہمارا تعلق محض قانونی یا رسمی نہیں بلکہ ایسی اطاعت مطلوب ہے جس کے پیچھے بے پناہ محبت کار فرما ہو، ایسی محبت کہ انسان لٹ کر محسوس کرے کہ اس نے بہت کچھ پایا ہے، ایسی محبت کہ انسان کچھ کھوکر محسوس کرے کہ اس نے بہت کچھ حاصل کیا ہے، ایسی محبت کہ جس میں کانٹوں کا بستر پھولوں کا لطف دے، یہی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کی تھی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ اور اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ (رواہ البخاری ومسلم) محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہمیں آپ کی امت سے بھی محبت ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اپنی اولاد کا درجہ دیا ہے، دیہات اور قریہ جات کے لوگ جو مقام نبوت سے کما حقہ واقف نہیں تھے آپ علیہ السلام کا رویہ ان کے ساتھ بھی محبت وشفقت کا ہوتا تھا۔ آپ ان کی غلطیوں کو معاف کرتے تھے، ان کی تند خوئی پر تحمل اور بردباری سے کام لیتے تھے۔ امت کے ایک ایک فرد کا دکھ درد خود محسوس کرتے تھے۔ غرض یہ کہ پوری امت آپ کی شفقت و محبت کے زیر سایہ تھی۔

 

تیسرا حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور آپ کی عظمت ہے۔ اللہ تعالی نے اس بات سے بھی منع فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوتے ہوئے کسی مسلمان کی آواز آپ کی آواز سے بلند ہو جائے۔ فرمایا: يا ايها الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبي ولا تجهروا له بالقول كجهر بعضكم لبعض ان تحبط اعمالكم وانتم لا تشعرون (الحجرات) اے ایمان والو؛ نبی کی آواز سے اپنی آواز بلند مت کرو۔ اور نبی کے سامنے اس طرح زور سے مت بولو جس طرح تم آپس میں بات کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں۔ اس آیت کریمہ میں صاف طور پر یہ بتایا گیا کہ مسلمانو! تم رسول اللہ کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرنے اور آپ کے سامنے بے محابا جہر یعنی کھل کر بات کرنے سے بچو کیونکہ ایسا کرنے میں خطرہ ہے کہ تمہارے اعمال حبط اور ضائع ہو جائیں اور وہ خطرہ اس لئے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی یا آپ کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرکے مخاطب کرنا ایک ایسا امر ہے جس سے رسول اللہ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی ہونے کا بھی احتمال ہے جو سبب ہے ایذائے رسول کا۔ اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ بالقصد کوئی ایسا کام کریں جو آپ کی ایذاء کا سبب بنے لیکن بعض اعمال جیسے تقدم اور رفع صوت اگرچہ بقصد ایذاء نہ ہوں پھر بھی ان سے ایذاء کا احتمال ہے اس لئے ان کو مطلقا ممنوع قرار دیا۔ اور بعض معصیتوں کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کرنے والے سے توبہ اور اعمال صالحہ کی توفیق سلب ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں میں منہمک ہو کر انجام کار کفر تک پہنچ جاتا ہے جو سبب ہے حبط اعمال کا۔ اور کرنے والے نے چونکہ اس کا ارادہ نہیں کیا تھا اس لئے اس کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس ابتلاء کفر اور حبط اعمال کا اصل سبب کیا ہے۔ یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہلِ ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ نہ بھول جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم پر آپ کا کس قدر احترام واجب ہے۔

 

چوتھا حق آپ علیہ السلام کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ یعنی آپ نے جن باتوں کا حکم دیا ان کی تعمیل اور جن باتوں سے منع کیا ان سے رکنا۔ آپ کے ایک ایک عمل پر اپنے عمل کی بنیاد رکھنا۔ آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ اور نمونہ بنانا۔ آپ کی حیات طیبہ منشاء ربانی کا مظہر ہے۔ آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، کھانا، پینا، جلوت و خلوت، لوگوں کے ساتھ تعلقات، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ سلوک، وضع و قطع، لباس و پوشاک غرض آپ کا ایک ایک عمل انسان کی عملی زندگی کے لیے نمونے کا درجہ رکھتا ہے۔ اور یہ انسانیت پر اللہ تبارک وتعالی کا بڑا احسان اور کرم ہے کہ آپ کی سنت اس طرح محفوظ کر دی گئی کہ آپ کی زندگی کھلی ہوئی ایک روشن کتاب ہے۔

 

پانچواں حق آپ علیہ الصلاۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العالمین نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا ’’ان الله وملائكته يصلون على النبي يا ايها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما‘‘ (الاحزاب) بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔ اس کائنات میں ایک مومن کا سب سے بڑا محسن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا، آپ کی پوری زندگی اس فکر اور غم میں گذری کہ میری امت کا ایک ایک فرد عذابِ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے، تنہا یہی احسان اتنا بڑا ہے کہ زندگی اور زندگی کے سارے لمحات اُن پر قربان کردئیے جائیں تو حق ادا نہ ہوگا؛ تاہم ایک امتی اتنا تو کرسکتا ہے اور کرنا چاہیے کہ حضور کا حق بھی ہے کہ جب بھی موقع ملے حضور علیہ السلام پر درود وسلام کا ہدیہ پیش کرے اور اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، ہمیں سلامتی کی ضرورت ہے، ہم محتاج ہیں، ہمارے درود اور ہمارے سلام کی ضرورت حضور کو نہیں ہے، حضور کی ذات تو وہ ہے کہ خود حالقِ کائنات اور اس کے معصوم فرشتے اس پر درود وسلام بھیجتے ہیں، ضرورت تو ہمیں ہے، ہم درود وسلام ایک بار بھیجیں گے وہاں سے دس مرتبہ سلامتی کی دعا ملے گی، اور اس دعائے سلامتی کی قبولیت میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اُس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ (رواہ مسلم) حضرت عبد اللہ بن ابی طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ تشریف لائے تو آپ کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: حضرت جبریل نے آکر (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) مجھے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اے محمد ! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ آپ کی امت میں سے جو بھی آپ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں گا اور آپ کی امت میں سے جو بھی آپ پر ایک مرتبہ سلامتی بھیجے گا میں اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجوں گا۔ (رواہ النسائی) فقہاء فرماتے ہیں کہ زندگی میں ایک مرتبہ نبی علیہ الصلاۃ و السلام پر درود و سلام بھیجنا فرض ہے۔ اور جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا جائے یا ذکر آئے تو ہر دفعہ درود بھیجنا واجب نہیں مستحب ہے، جمہور فقہاء کا یہی مسلک ہے اور ایک مجلس میں بار بار ذکر آئے تو ایک بار درود شریف پڑھنا کافی ہے اور ہر بار درود بھیجنا اولیٰ ہے۔ (شرح الشفا: ۲؍۱۰۷)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، آپ سے بے پناہ محبت، آپ کا احترام، آپ کی اطاعت وفرمانبرداری اور درود وسلام وغیرہ ہم پر آپ کے بے شمار حقوق ہیں۔ لہذا ہم اپنا محاسبہ کریں اور اپنے اندر غور و فکر کریں کہ ہم محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق ادا کر رہے ہیں؟

Comments are closed.